سوال: غیرمسلموں کے تہواروں (دیوالی) وغیرہ میں ان کی طرف سے ملنے والی مٹھائیاں کھانا کیسا ہے؟ کیا ہم غیروں کو ان کے تہواروں میں مٹھائیاں دے سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم ان کے تہواروں میں مبارکبادی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ (سید ابراہیم بھٹکل کرناٹک)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق
صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کی بھی دعوت قبول کی ہے اور ان کے ہدیہ و تحائف بھی قبول کئے ہیں؛ اور ان کی دعوت بھی کی ہے اور ہدیہ و تحائف بھی دیئے ہیں(۱) چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنا اور آپ کا بصد خوشی قبول فرمانا اور ابولہب و ابوجہل جیسے کفار مکہ کو دعوت طعام دینا کتب حدیث و سیرت کا مشہور واقعہ ہے۔ اس لئے عام دنوں میں اور عام حالات میں غیر مسلموں کی دعوتیں اور ہدایا و تحائف قبول کرنے اور انکی دعوت کرنے اور ہدیہ دینے میں چنداں مضائقہ نہیں(۲)۔
لیکن تہواروں کے موقع سے یہ ہدیہ و تحائف اگر مٹھائی وغیرہ کی شکل میں ہوں اور مندر پر یا بت وغیرہ پر چڑھائی گئی ہوں تو پھر اسے قبول کرنا اور کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں چڑھاوے کی چیزوں کی حرمت موجود ہے(۳) البتہ اگر بت وغیرہ پر نہ چڑھائی ہو تو اسے قبول کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی تہوار وغیرہ کے مواقع پر نہ لینا ہی افضل ہے؛ تاکہ کفر و شرک کی حوصلہ افزائی کا شبہ پیدا نہ ہو(۴)۔
غیر مسلموں کے تہوار چونکہ بت پرستی، پوجا پاٹ اور کفر و شرک پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے ان کے تہوار پر خوشی کا اظہار کرنا ان میں شریک ہونا اور غیر مسلموں کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے(۵) اس لئے کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اچھا کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے مشرکانہ معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا کیونکر جائز اور درست ہوسکتا ہے؟ اس لئے غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر انہیں مبارکباد دینے سے بچنا واجب ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب۔
📚📚والدلیل على ما قلنا📚📚
(۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا فَقِيلَ أَلاَ نَقْتُلُهَا. قَالَ: ((لاَ)). فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث نمبر 2617)
》وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث نمبر 2616)
(۲) ولابأس بطعام المجوس کلہ إلا الذبیحۃ۔(ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشرفی أہل الذمۃ، زکریا قدیم۵/۳۴۷، جدید۵/۴۰۱) _
》لو أهدى لمسلم و لم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة (الدر المختار مع رد المحتار 486/10 زكريا)
(۳) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المائدة 3)
(۴) والأولی للمسلمین أن لا یوافقہم علی مثل هذہ الأحوال لإظہار الفرح والسرور۔ (شامي، کراچي ۶/۷۵۵، زکریا ۱۰/۴۸۶)
(۵) اجتمع المجوس يوم النيروز فقال مسلم خوب سيرت نہاوند يكفر (الفتاوى الخانية 185/3 كتاب أحكام المرتدين الفصل السادس)
》اجتمع المجوس يوم النيروز فقال مسلم خوب رسمے نہادہ اند أو قال نیک آئین نہادہ اند يخاف عليه الكفر (الفتاوى التاتارخانية 515/5 كتاب أحكام المرتدين كراتشي)
》ويحرم تهنئتهم وتعزيتهم وعيادتهم ( ; لأنه تعظيم لهم أشبه السلام .) وعنه تجوز العيادة ( أي : عيادة الذمي ) إن رجي إسلامه فيعرضه عليه واختاره الشي (كشف القناع عن متن الإقناع للعلامة البهوتي 3/131)
》قال الإمام ابن
القيم: وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم، فيقول: "عيدمبارك عليك”، أو تهنأ بهذا العيد ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات، وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب، بل ذلك أعظم إثماً عند الله، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس وارتكاب الفرج الحرام ونحوه.وكثير ممن لا قدر للدين عنده يقع فيذلك، ولا يدري قبح ما فعل، فمن هنأ عبداً بمعصية أو بدعة أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه… (أحكام أهل الذمة 1/161 فصل في تهنئة أهل الذمة)
العبد الفقير محمد زبیر الندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 18/10/2017
WhatsApp Channel
https://whatsapp.com/channel/0029VaAXunpBlHpVz1X9nJ2