حضرت مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء ،و کم من قائم لیس لہ من قیامه الا السھر ( سنن دارمی، کتاب الصوم )
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیام لیل کرنے والے (تہجد و نوافل اور تراویح پڑھنے والے) وہ ہیں جن کو اپنے قیام لیل سے ،جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔
روزے کی در اصل دو حقیقتیں ہیں یا یہ کہئیے کہ روزے کی دو صورتیں ہیں :
ایک اس کی ظاہری صورت اور دوسری اس کی داخلی صورت اور حقیقت ۔ روزے میں کھانا پینا اور نفسانی خواہشات ترک کر دینا ،یہ روزے کی ظاہری صورت ہے ،اسی طرح رمضان المبارک میں تراویح اور راتوں میں تہجد و نفل اس کی ایک ظاہری صورت ہے ،مگر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے ،جس چیز کا حال یہ ہو کہ اس میں اس کی ظاہری صورت موجود ہو ،لیکن اس کی داخلی حقیقت اور صفت اس میں نہ پائ جاتی ہو تو ایسی چیز کی کوئ قیمت اور حیثیت نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو ،لیکن اس کے اندر کا مغز اس میں نہ پایا جاتا ہو ۔ یہی فرق ہے حقیقی روزے اور رسمی روزے میں ۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رح اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
علماء کے نزدیک اس حدیث میں چند اقوال ہیں : اول یہ کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر مال حرام سے افطار کرتا ہے کہ جتنا ثواب روزہ کا ہوا تھا اس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہو گیا اور دن بھر بھوکا رہنے کے سوا اور کچھ نہ ملا ۔ دوسرے یہ کہ وہ شخص مراد ہے جو روزہ رکھتا ہے لیکن غیبت میں بھی مبتلا رہتا ہے ،تیسرا قول یہ ہے کہ روزہ کے اندر گناہ وغیرہ سے احتراز نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع ارشادات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ سب صورتیں اس میں داخل و شامل ہیں۔ ( فضائل رمضان )
اس لئے روزے کی حالت میں جھوٹ چغلی غیبت اور تمام برائیوں و لا یعنی چیزوں سے انسان کو بچنا اور پرہیز کرنا چاہئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم یدع قول الزور و العمل به فلیس للہ حاجة فی ان یدع طعامه و شرابه ( رواہ البخاری )
جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غلط بیانی،جہالت و نادانی کے کام ،انسان کو خاص طور پر چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ ان چیزوں کے ارتکاب سے روزے کی روح متاثر ہو جاتی ہے ۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام ہے ،مگر کھانے پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک ہے ۔ روزہ کے مہینہ میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے کو اس مقصد کے لئے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئ تمام چیزوں کو چھوڑ دے ۔ گویا کہ کھانا پینا چھوڑ دینا اگر جسمانی روزہ ہے ،تو برائیوں سے اجتناب روحانی روزہ ہے۔
*خلاصہ* یہ کہ اللہ تعالی کے یہاں روزے کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ۔
اگر کوئ شخص روزہ رکھے اور گناہ والے کام کرتا رہے تو اللہ کو اس کے روزے کی کوئ پرواہ نہیں ۔
علماء اور اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے اور اصل عبادت ہے خوف خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا ،محبت الہی کی بنا پر ہر اس کام کے لئے شوق سے لپکنا جس میں محبوب کی خوشنودی ہو ،اور نفسانیت سے بچنا ،جہاں تک بھی ممکن ہو ۔ اس عبادت سے جو شخص غافل رہا اس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی ۔ اللہ تعالٰی کو اس کی کب حاجت تھی کہ وہ بارہ بارہ چودہ گھنٹے کے لئے اس سے کھانا پینا چھڑا دیتا ؟
*اسی* لئے حدیث شریف میں روزہ کے ساتھ ایمان و احتساب کو لازم قرار دیا ہے اور قرآن مجید نے روزہ کے مقصد کو تقوی کا حصول قرار دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے غافل ہوکر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو روزے کو اس کی روح اور اصل مقصد کے ساتھ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ