پردہ کس کس سے ہے؟

سوال
1- عورت کو کون سے مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے؟

2- عورت بغیر ضرورت کے رشتہ داروں کے گھر جاسکتی ہے؟ اور دوستوں کی گھر جاسکتی ہے؟

3- عورت مارکیٹ، دوکان میں شاپنگ کے لیے جاسکتی ہے؟

4 لڑکے کا کس کس سے پردہ کرنا ضروری ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:

1۔۔ وہ افراد جن سے عورت کا پردہ نہیں ہے، وہ یہ ہیں:
(1) باپ (2) بھائی (3) چچا (4) ماموں (5) شوہر (6) سسر (7) بیٹا (8) پوتا (9) نواسہ (10) شوہر کا بیٹا (11) داماد (12) بھتیجا (13) بھانجا (14) مسلمان عورتیں (15) کافر باندی (16)ایسے افراد جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ( مثلاً: چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ سمجھ نہیں کہ عورت کیا ہے، جسے مرد اور عورت میں فرق ہی نہ معلوم ہو)

اس کے علاوہ تمام اجنبیوں سے عورت کا پردہ ہے، ان میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں شامل ہیں، نامحرم رشتہ دار یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں :

(1) خالہ زاد (2) ماموں زاد (3) چچا زاد (4) پھوپھی زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8)نندوئی (9) خالو (10) پھوپھا (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13)شوہر کا خالو (14) شوہر کا پھوپھا (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا۔

2۔۔ عورت شرعی پردہ کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی محرم کے ساتھ محارم رشتہ داروں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں یا قرب و جوار میں رہنے والے پڑوسیوں کے ہاں ان کی خوشی ، غمی ، تعزیت اور تیماداری وغیرہ کے لیے جاسکتی ہے ، بشرطیکہ وہاں مرد و عورت کا اختلاط نہ ہو ۔ اور کسی منکر (شرعاً ممنوع چیز) کا ارتکاب بھی نہ ہو۔

اور والدین یا محرم رشتہ داروں سے ملاقات یا ان کی تیماداری کے علاوہ کسی بھی رشتہ دار یا پڑوسی کے ہاں جانے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے، شوہر کی اجازت کے بغیر جانا درست نہیں ہے۔

اور والدین اور محارم (جن سے نکاح جائز نہیں ہے) سے ملاقات میں یہ تفصیل ہے کہ ہفتہ میں ایک بار عورت کا اپنے والدین سے ملاقات اس کا شرعی حق ہے، والدین اگر خود ملاقات کے لیے آسکتے ہیں تو وہ خود ملاقات کے لیے آئیں، کسی عذر کی بنا پر ان کا ملاقات کے لیے آنا ممکن نہ ہو تواگر مسافتِ سفر (48 میل ) ہو یا فتنہ کا اندیشہ ہو تو عورت کسی محرم کے ساتھ، ورنہ بغیر محرم کے بھی والدین کی ملاقات کے لیے جاسکتی ہے، اور دیگر محارم سے سال میں ایک مرتبہ ملاقات کرنا عورت کا حق ہے، اس کے علاوہ ملاقات کرنا عورت کا حق نہیں ہے، تاہم شرعی حدود میں رہتے ہوئے شوہر کی اجازت سے کبھی چلی جائے تو اس کی اجازت ہے، بشرط یہ کہ وہاں کوئی فتنہ اور مفسدہ نہ ہو۔

3۔۔ عورت کے لیے مجبوری کے وقت ضرورت کے مطابق گھر سے باہر نکلنا جائز ہے، اس لیے اگر واقعی مجبوری ہے تو عورت شرعی پردہ کے ساتھ بازار سے سامان خرید کر لا سکتی ہے، البتہ بلاضرورت عورتوں کا بازاروں میں جانا شرعاً درست نہیں ہے۔

4۔۔ جتنی غیر محرم خواتین  ہیں لڑکے کے لیے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے، یعنی ان کے چہرے کو دیکھنا جائز نہیں، اور جو خواتین محرم ہوں  ان سے پردہ نہیں ہے۔

اب محارم اور غیر محارم کو سمجھ لیں کہ  تمام اصول (یعنی والدہ، دادی، نانی وغیرہ اوپر تک) اور فروع( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی وغیرہ نیچے تک) محارم ہیں، اسی طرح  بہن اور بہن کی اولاد (بھانجیاں اور ان کی اولاد)، اسی طرح بھائی کی اولاد( بھتیجیاں اور ان کی اولاد) ، پھوپھی اور خالہ بھی محارم میں شامل ہیں،اسی طرح بیوی کی ماں (خوش دامن) اور اس کی دادی،نانی وغیرہ، بیوی کی بیٹی (جو کسی اور شوہر سے ہو ) جب کہ بیوی سے صحبت کی ہو، والد کی منکوحہ (جس کو ہمارے عرف میں سوتیلی ماں کہا جاتا ہے) اور بیٹے کی منکوحہ (بہو) بھی محارم میں سے ہیں،  ان محارم سے  کوئی پردہ نہیں، یہی تمام رشتے اگر رضاعی ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے۔


ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [ النور:31]

فتاوی بزازیہ علی ہامش الھندیہ میں ہے:

"ولا یأذن بالخروج إلی المجلس الذي یجتمع فیه الرجال والنساء ، وفیه المنکرات”. (4/156، رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

” (ولايمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار، ولو أبوها زمناً مثلاً فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافراً وإن أبى الزوج، فتح، (ولايمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول، زيلعي”. (3 / 602، باب النفقات، ط؛ سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا – رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي. وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان. وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية”. (1 / 556، الفصل الثانی فی السکنیٰ،ط:رشیدیہ )

فقط واللہ اعلم

محمد زکریا اچلپوری الحسینی 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top