عورتوں کے لئے اعتلاف کا کیا حکم ہے ؟

بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عورت کے لیے بھی اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے،
فقہاءِ احناف  رحمہم اللہ کے نزدیک  عورتوں کے لیے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا نہ صرف جائز  ہے بلکہ یہی بہتر ہے کہ گھروں کی مسجد میں اعتکاف کریں ، اور گھر کی مسجد سے مراد  وہ جگہ ہے جسے گھر میں نماز ، ذکر،  تلاوت اور دیگر عبادات کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے  تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے پھر اس جگہ اعتکاف کرے،اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی ، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا.

وقد اختلف الفقہاء فی موضع اعتکاف النساء؛فقال أبو حنیفة وأبو یوسف ومحمد وزفر:لا تعتکف المرأة إلا فی مسجد بیتہا، ولا تعتکف فی مسجد جماعة، وقال مالک:تعتکف المرأة فی مسجد الجماعة ولا یعجبہ أن تعتکف فی مسجد بیتہا، وقال الشافعی:”العبد والمرأة والمسافر یعتکفون حیث شاء وا؛ لأنہ لا جمعة علیہم“۔قال أبو بکر: روی عن النبی صلی الله علیہ وسلم أنہ قال :”لا تمنعوا إماء الله مساجد الله ، وبیوتہن خیر لہن“فأخبر أن بیتہا خیر لہا، ولم یفرق بین حالہا فی الاعتکاف وفی الصلاة، ولما جاز للمرأة الاعتکاف باتفاق الفقہاء وجب أن یکون ذلک فی بیتہا لقولہ علیہ السلام :”وبیوتہن خیر لہن“،فلو کانت ممن یباح لہا الاعتکاف فی المسجد لکان اعتکافہا فی المسجد أفضل ولم یکن بیوتہن خیرا لہن؛ لأن الاعتکاف شرطہ الکون فی المساجد لمن یباح لہ الاعتکاف فیہ الخ (أحکام القرآن للجصاص، ۱:۳۰۳،سورة البقرة،رقم الآیة:۱۸۷، ط دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔

ولا تعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا،…… فإذا کرہ لھن الاعتکاف فی المسجد مع أنھن کن یخرجن إلی الجماعة في ذلک الوقت فلأن یمنعن في زماننا أولی، وقد روی الحسن عن أبي حنیفة رحمھما الله تعالی أنھا إذا اعتکفت في مسجد الجماعة جاز ذلک واعتکافھا في مسجد بیتھا أفضل، وھذا ھو الصحیح ؛ لأن مسجد الجماعة یدخلہ کل أحد وھو طول النھا ر لا تقدر أن تکون مستترة ویخاف علیھا الفتنة من الفسقة فالمنع لھذا وھو لیس لمعنی راجع إلی عین الاعتکاف الخ (المبسوط للسرخسي، ۳: ۱۱۹، ط: دار المعرفة بیروت لبنان)۔

ولا تعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا یعنی: موضع صلاتھا في بیتھا، وقال الشافعي رحمہ اللہ تعالی: لا تعتکف إلا في مسجد حیھا، وعندنا لو اعتکفت فيمسجد حیھا جاز ویکرہ (الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة، ۱: ۲۲۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

فالإفتاء بمنع العجائز فی الکل یخالف الکل ، وما فی الدر المنتقی یوافق ما ھنا حیث قال: وفی الکافي وغیرہ : أما في زماننا فالمفتی بہ منع الکل فی الکل حتی فی الوعظ ونحوہ، (قولہ: لفساد الزمان)ولذا قالت عائشة للنساء حین شکون إلیھا من عمر لنہیہ لھن عن الخروج إلی المساجد لو علم النبي صلی الله علیہ وسلم ما علم عمر ما أذن لکن فی الخروج قھستاني (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار، ۱:۲۴۵،ط:مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

وقولہ: ” ویکرہ فی المسجد “: إلا أنہ جائز بلا خلاف بین أصحابنا، وظاھر ما فی النھایة أنھا کراھة تنزیہ، وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد فی منعھن من الاعتکاف فی المسجد، أبو السعود (المصدر السابق، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،۱: ۴۷۳)، ومثلہ في حاشیتہ علی المراقي(ص: ۶۹۹، ۷۰۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد في منعھن فی الاعتکاف فی المسجد الخ (فتح اللہ المعین علی شرح العلامة منلا مسکین، ۱: ۴۵۳)۔

(وللمرأة الاعتکاف في مسجد بیتھا وھو محل عینتہ) المرأة (للصلاة فیہ)،فإن لم تعین لھا محلاً لا یصح الاعتکاف فیہ، وھي ممنوعة عن حضور المساجد (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، ص:۷۰۰)۔

وھي ممنوعة عن حضور المساجد کما بیناہ (إمداد الفتاح، ص: ۶۷۴، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

وتخصیص المصنف الرجل بالمسجد والمرأة بالبیت إنما ھو علی المطلوب من المرأة ؛ لأنھا لو اعتکفت فی المسجد صح ولکنہ یکرہ ، صرح بالکراھة فی الفتح (الشرنبلالیة، ۱: ۲۱۲، ط: مکتبة میر محمد،آرام باغ کراتشی)۔

وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد في منعھن من الاعتکاف فی المسجد ،ھذا (النھر الفائق، ۲: ۴۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

فقط واللہ اعلم
محمد زکریا اچلپوری الحسینی
دارالافتاء المسائل الشریعۃ الحنفیۃ
https://telegram.me/Almasailush_Shariyya

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top