السلام علیکم !
ایک سوال ہے کہ نکاح فضولی کسے کہتے ہیں؟ اور اسکا کیا حکم ہے؟
برائے مہربانی جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔ ( محمد اسعد، جوگیشوری ممبئی )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بسم ملہم الصواب
شریعت کی اصطلاح میں فضولی اس شخص کو کہا جاتا ہے؛ جو نہ خود صاحب معاملہ ہو؛ نہ صاحب معاملہ کی طرف سے وکیل ہو اور نہ ہی اس کے ولی کی حیثیت سے تصرف کا مجاز ہو؛ بلکہ بالکل ایک اجنبی شخص ہو جس کا معاملہ سے کوئی تعلق نہ ہو، مشہور لغوی و فقیہ علامہ میر شریف الجرجانی، فضولی کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : ” الفضولي هو من لم يكن وليا ولا أصيلا و لا وكيلا في العقد” )كتاب التعريفات للجرجاني(
البتہ ایسا شخص اگر کوئی معاملہ کرلے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک معاملہ تو درست ہوگا؛ مگر صاحب معاملہ کی اجازت پر وہ معاملہ موقوف ہوگا، اگر وہ اجازت دے دیگا تو عقد نافذ ہوجائے گا، ورنہ نہیں، چنانچہ علامہ علاءالدین الکاسانی تحریر فرماتے ہیں ” وکذا الفضولي؛ لانعدام سبب ثبوت الولاية في حقه أصلا، ولو انكح ينعقد موقوفا على الاجازة عندنا، وعند الشافعي لا ينعقد أصلا ” ( بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب النکاح، فصل ولاية الإمامة في النكاح )
مشہور حنفی محقق و فقیہ علامہ ابن عابدین شامی نے مزید اس بات کی وضاحت کی ہے؛ کہ صاحب معاملہ کی اجازت کے بعد گویا اس کی حیثیت وکیل کی ہوگئی؛ لہذا اب یہ معاملہ بالکل درست ہوگا، شامی لکھتے ہیں : ” نفاذ عقد الفضولي بالإجازة يجعله في حكم الوكيل ” )رد المحتار على الدر المختار، كتاب النكاح، مطلب في الوكيل والفضولي في النكاح (
لہذا فقہائے کرام کی تصریح اور مندرجہ بالا تشریح کی رو سے فضولی کا کیا ہوا نکاح صاحب معاملہ کی اجازت پر موقوف رہے گا، ان کی اجازت و رضامندی کے بعد نکاح درست اور نافذ ہوجائے گا، هذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب، فقط والسلام.
حرره العبد محمد زبیر ندوی
مرکز البحث والإفتاء دارالعلوم الإسلامية جوگیشوری ممبئی انڈیا