سائل کہتا ہے؛ کہ اپنی بچی کو پیار کرتے دلار کرتے وقت شہوت پیدا ہوگئی، یا شہوت سے ہاتھ لگایا، یا
اپنی ساس کو موٹر بائک پر سوار کیا اور ساس کے جسم سے مس ہونے کی وجہ سے شہوت پیدا ہوگئی؛ ان سب صورتوں میں شرعی حکم کیا ہے ؟ ( اطہر عالم، رانچی )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق
باپ بیٹی اور ساس داماد کا رشتہ شریعت کی نظر میں نہایت پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، بیٹی تو بیٹی ہوتی ہی ہے، ساس کا درجہ بھی ماں کے قریب ہوتا ہے، اسی لئے ان رشتوں کی پاکیزگی کا شرع اسلامی میں بڑا لحاظ رکھا گیا ہے؛ حتی کہ اس تقدس کی بنا پر بیٹی اور ساس سے نکاح دائمی اور ابدی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کے نزدیک اگر کوئی آدمی شہوت کے ساتھ اپنی ساس سے مس کرے، یا بیٹی سے شہوت کے ساتھ مس کرے یا بوسہ لے؛ تو بیوی حرام ہوجاتی ہے، اور حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے،
لہذا صورت مسؤلہ میں آدمی کے اندر اگر اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے؛ یا کھلاتے ہوئے شہوت پیدا ہوگئی، اور بیٹی مشتہاة یعنی نوسال یا اس سے زائد عمر کی ہے؛ تو حرمت ثابت ہوجائے گی، اور اس پر اس کی بیوی حرام ہوجائے گی، لیکن اگر بچی چھوٹی ہے؛ یعنی نوسال سے کم ہے؛ مثلا دو تین سال کی ہے؛ تو پھر کوئی اثر نہیں پڑے گا؛ لیکن پھر بھی اس قسم کی باتوں سے اجتناب از حد ضروری ہے، مشہور حنفی فقیہ علامہ داماد آفندی نے اس مسئلہ کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے: "ولا تثبت بمس صغيرة لاتشتهي، خلافا لأبي يوسف” (مجمع الانهر كتاب النكاح 1/481) نیز ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں "وما دون تسع سنين غير مشتہاة؛ وبه يفتى” (حواله سابق 1/482)
ساس کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے؛ کہ اگر ساس کے جسم سے اس طرح مس ہوا؛ کہ اس کے جسم کی حرارت اسے محسوس ہوئی، اور شہوت اس طور پر پیدا ہوگئی؛ کہ عضو خاص میں تناؤ پیدا ہو گیا؛ یا پہلے سے تناؤ تھا اس میں اضافہ ہو گیا؛ تو اس سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی، چنانچہ مجمع الانهر میں صاف الفاظ میں صراحت ہے "وكذا يوجبها المس ولو بحائل، ووجد حرارة الممسوس؛ سواء كان عمدا، أو سهوا، أو خطأ، أو كرها” (حواله سابق)
"وما ذكر في حد الشهوة من أن الصحيح أن تنتشر الآلة أو تزداد انتشارا” ( حواله سابق )
اس سلسلے میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے؛ کہ آدمی اس قسم کے مواقع سے مکمل طور سے بچنے کی کوشش کرے؛ کیونکہ شیطان تو ہر وقت انسان کی گھات میں لگا رہتا ہے،اور پھر اس کا انجام جو ہوتا ہے مذکورہ بالا مسئلہ سے ظاہر ہے ۔اللہم احفظنا منه.
کتبه محمد زبیر ندوی
مرکز البحث والإفتاء دارالعلوم الاسلامیہ جوگیشوری ممبئی انڈیا