مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ – دو متضاد راستے

” میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان اگر مسلم پرسنل لا( شرعی عائلی قانون )  میں تبدیلی قبول کرلیں گے تو آدھے مسلمان رہ جائیں گے اور اس کے بعد خطرہ ہے کہ آدھے مسلمان بھی نہ رہیں، فلسفہ اخلاق، فلسفہ نفسیات اور فلسفہ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مذہب کو اپنے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا، دونوں کا ایسا فطری تعلق اور رابطہ ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر صحیح نہیں رہ سکتی، اور مذہب معاشرت کے بغیر مؤثر اور محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسجد میں آپ مسلمان ہیں( اور مسجد میں کتنی دیر مسلمان رہتا ہے اپنے سارے شوق عبادت کے باوجود؟) اور گھر میں مسلمان نہیں ، اپنے معاملات میں مسلمان نہیں؛ اس لئے ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت نظام تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے، ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، اور یہ ہمارا شہری، جمہوری اور آئینی حق ہے، اور ہندوستان کا دستور اور جمہوری ملک کا آئین اور مفاد نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ ہمت افزائی کرتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق اور اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ اور اقلیت کے سکون و اطمینان میں مضمر ہے ۔ ( مسلم پ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top