از قلم : مفتی محمد زبیر ندوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلمان بحیثیت ملت ایک ایسے پیغمبر کے پیروکار اور ایسی شریعت کے علمبردار ہیں جو دائمی اور ابدی ہے؛ اور جس کے ہر حکم اور ہر عمل کا رشتہ ایک ایسی ذات سے ہے؛ جو تن تنہا اس پورے سنسار کا خالق و مالک ہے؛ جس کے حکم کے بغیر زمین کا نہ ایک ذرہ ٹل سکتا ہے، اور نہ ہی شجر کا کوئی پتہ ہل سکتا ہے، جس کی قوت و جبروت کے آگے پوری کائنات اور اس کی لامحدود وسعت و قوت پرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، غور کیجئے تو کائنات کی لامحدود کہکشائیں، سورج کی تیز شعاعیں،چاند کی پررونق کرنیں،تاروں کی چمک، پھولوں کی مہک، پرندوں کی چہک سب ہی اس کی پرکاش سے فیضیاب اور اپنی ہر نقل و حرکت میں اسے کے محتاج ہیں ۔
مسلمانوں کی سعادت ہے کہ ان کا تعلق اس ذات بے ہمتا سے اس قدر وسیع اور عمیق ہے کہ کوئی قوم و ملت انکی ہمسری نہیں کرسکتی،اس خدا نے اپنے پیغمبر اعظم کو بھیج کر تا آن قیامت انسانوں کے سارے مسائل و مشکلات کے نمونے اور بےشمار مثالیں قائم کردیں یہ ذات نبوی وہ آئینہ ہے جس میں دنیا کا ہر فرد و قوم اپنے خط و خال کو ملاحظہ کرسکتی ہے، یہ وہ میزان اور پیمانہ ہے جس پر قومیں اپنے عروج و زوال کو جانچ اور پرکھ سکتی ہیں آیا ان کا سمت سفر درست ہے بھی یا نہیں؟ اور حصول منزل کا امکان ہے یا گمراہی اور عاقبت نااندیشی اس کا مقدر ہے؟
ہندوستان کے موجودہ حالات اور سیاسی نشیب و فراز بالغ نظروں سے اوجھل نہیں، حکومت کے ظالمانہ رویے، دوغلی پالیسی، نامنصفانہ فیصلے، نا اہلیتی، عوام دشمنی، آئین و قانون کی خلاف ورزی یہ وہ حقائق ہیں جو عالم آشکارا ہیں، مسلمانوں کے تئیں ان کے جذبات، محسوس و غیر محسوس ارادے، ناپاک عزائم اور انکی معیشت کو کمزور کرنے کی ناکام و نامراد کوششیں اب طشت از بام ہوچکی ہیں، اور بقول قرآن عظیم الشان ” قد بدت البغضاء من أفواههم و ما تخفي صدورهم أكبر "( ان کی زبانوں سے بغض پھوٹا پڑتا ہے اور ان کے سینوں میں جو کچھ چھپا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے ) لیکن :
وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے
مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے انگشت ششم یا عضو ناکارہ ہیں، نہ عدالت سے انہیں انصاف کی روشنی مل سکتی ہے، نہ حکومت سے خیر کی امید، قوت و فوج ایسوں کے ہاتھ میں ہے جو انہیں اپنا دشمن ازلی سمجھتے ہیں، مسلمانوں میں وہ قوت نہیں کہ وہ ان سے آنکھیں ملا سکیں ۔
لیکن کیا اس میں ان کا تنہا قصور ہے؟ کیا ہمارا دامن بالکل پاک ہے؟ کیا اس ملکی تباہی اور ملی رسوائی کے وہ اور صرف وہ ذمہ دار ہیں، اور کیا ہماری بد قسمتی اور زوال کے اسباب وہ اور انکی سازشیں ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں :
سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
زوال بندہء مومن کا بے زری سے نہیں
اس پوری ملکی تباہی اور ملی رسوائی کے ذمہ دار وہی نہیں جنہوں نے اسے آگ لگائی؛ بلکہ قصور ان کا بھی ہے جنہوں نے اس کو بجھانے کی تدبیر نہیں کی، اس کے مجرم صرف وہی نہیں جنہوں نے مسموم فضاؤں اور خواب آور دواؤں سے قوم کو سلائے رکھا، اور انہیں خبر اس وقت ہوئی جب چمن شعلہ زن اور گلستان ویران ہو چکا تھا؛ بلکہ اس جرم میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے سوتوں کو جگانے کی زحمت نہ کی ،
کیا ایسے حالات اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار آئے ہیں؟ کیا رسول اللہ کی زندگی میں اس سے متعلق کوئی اسوہ نہیں؟ کیا صحابہ کی تاریخ اس سے خالی ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں؛ تو پھر انہوں نے ان حالات کا کیسے مقابلہ کیا؟ اور اس کیا فوائد و ثمرات سامنے آئے؟ کیا رسول اللہ اور صحابہ کا تیرہ سالہ مکی دور ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتا؟ کیا طائف کے سفر میں عبرت کا سامان نہیں؟ کیا چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری میں امت کے لئے کوئی سبق نہیں؟ کیا عمر کے ارادہ قتل اور نبی کی وسعت دامنی اور اعلی ظرفی بے سود اور بے سبب تھی؟ کیا قریش مکہ کی سازشیں اور یہود مدینہ کی قاتلانہ تدابیر بے وجہ اور بے عمل ہیں کیا بدر کا معرکہ خیر و شر، احد کی ظاہری شکست اور باطنی فتح، کیا حدیبیہ کی صلح اور اس کے دور رس نتائج و اثرات بے معنی ہیں؟
غور کیجئے کہ عمر جیسا جانباز ابوسفیان جیسا سالار خالد بن ولید جیسا جرنیل عمرو بن العاص جیسا مدبر عکرمہ جیسا شہزادہ ہندہ جیسی سخت دل کیونکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے؟ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ وہ کونسی صور سرافیل تھی جس نے عرب سے شرک و بت پرستی کو مانند خس و خاشاک خاکستر کر کے رکھ دیا؟ وہ کونسی باد بہاری تھی جس نے عرب کے خار زار کو لالہ زار بنادیا؟ وہ کونسی ساعت ہمایوں تھی جس نے عجم کو منور کر دیا اور اس شان سے منور کیا کہ اسکی کرنیں مرور زمانہ کے باوجود ختم نہ ہوسکیں ،
سوچئے کیا ہم میں ایک بھی فرد ہے جو اس نبوی منہاج پر قائم ہو اور صحابہ کے طریق کو سعادت دارین سمجھ کر اپنا راستہ طے کرنے کا عزم رکھتا ہو ؟
کیا ہم نے کبھی اپنی اس ہندی قوم کےلئے ایمان کی دعا کی؟ کیا کبھی ہم نے دو اشک انکی ایمانی بھلائی اور ہدایت کے لیے بہائے؟ کیا نبی اکرم کی وہ دعا جو آپ نے حضرت عمر اور ابوجہل میں سے کسی ایک کی ہدایت کے لئے مانگی تھی ہمارے لئے مشعل راہ نہیں بن سکتی؟ عبد اللہ بن ابی کے نفاق کے باوجود اس کے ساتھ حضور اکرم کا رویہ کیا تاریخ سے پوشیدہ ہے؟ طائف کے شریروں کے رد عمل میں کیا آپ نے انہیں بد دعائیں دیں؟ یا دعاؤں کے سوغات دیئے؟ سوچئے کیا یہ وصف ہمارے اندر ہے؟ کیا برادران وطن سے محبت و ہمدردی کا کوئی حبہ اپنے دل میں ہم پاتے ہیں؟ جبکہ ہمارا شیوہ تھا :
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست کہ دشمن کا گھر ملے
کیا آپ نے اپنے دشمنوں کی ہدایت کی خاطر شکم پر پتھر نہ باندھے؟ کیا وہ نبی برحق جس کے رخ روشن سے کائنات کو رونق ملی جب اس دنیا سے جارہا تھا تو اس کے چراغ خانہ میں ذاتی تیل جل رہا تھا؟ کیا جسم اطہر پر کوڑا ڈالنے والی خاتون کی مزاج پرسی آپ نے نہیں کی؟ کیا دشمن کے لیے آپ نے کھانا اور بستر نہیں چھوڑا؟ کیا یہ سب صرف قصہ پارینہ ہے؟ اگر ہے تو بھی:
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
مسلمانوں اب تو ذرا سوچو کیا کبھی ہم نے اس اسوہ حسنہ کو اپنایا؟ کیا ہم نے برادران وطن کی ضیافت کرکے نبی کریم کی سنت پر عمل کیا؟ کیا ہم نے اپنے اخلاق و اعلٰی کردار اسے اسلام کی جانب مائل ہونے کی دعوت دی؟ کیا ہم اپنی محبت، تواضع، عاجزی اور سچائی سے ان کے دلوں کو فتح کر لیا؟ کیا یہ قوم قریش مکہ سے زیادہ قسی القلب اور بے مروت ہے؟ کیا اس قوم میں بولہب اور بوجہل سے بڑے دشمن ہوسکتے ہیں؟ اگر ہیں تو کیا نبی کے اسوہ پر ان کے تئیں ہم نے عمل کیا؟
مسلمانوں ایک دوسرے پہلو پر بھی غور کیجئے کیا ہمارا ایمان و اسلام محفوظ ہے؟ کیا ہم اس پر صحیح اور مکمل عامل ہیں؟ کیا محبت نبوی کا آتشی شرارہ ہمارے قلب کو گرماتا ہے؟ کیا ہماری زبانیں ذکر الہی سے سرشار ہیں؟ کیا ہماری نگاہیں پاک اور حق کی خاطر دل بیباک ہے؟ کیا ہمارا فکری سرمایہ تعمیر ملت کے کام آرہا ہے؟ کیا ہماری دماغی صلاحیت صحیح جگہ صرف ہورہی ہے؟ کیا ہمارے نوجوانوں میں گفتار دلبرانہ کردار قاہرانہ کا وجود ہے؟ کیا آج کا مسلمان لذت آہ سحر گاہی سےآشنا اور نالہ نیم شبی کا سرمایہ رکھتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ ہے تو ہماری کامیابی میں تاخیر نہیں، اور اگر ہمارا دامن بالکل خالی ہے تو ہمیں خود بدلنے کی ضرورت ہے یہ چمن اس وقت تک پر بہار اور لالہ لالہ زار نہیں ہوسکتا جب تک اس کا مالی خود نہ باذوق اور ہونہار ہو ” ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم وإذا أراد الله بقوم سوءا فلا مرد له وما له من دونه من وال "
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
آج ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی آنکھ کی شہتیر پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، غیروں کے دامن میں لعل و گہر ہیں یا نہیں؟ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے دامن میں خزف ریزے تو نہیں؟ آج ہمیں مزاج نبوت، فکر آخرت، تعمیر ملت اور اسلامی تعلیمات و دعوت کو اپنانے اور اس امانت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر ہو نہیں سکتا کہ کوئی قوم آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت کر سکے۔
اقبال کے یہ اشعار کس قدر بامعنی بجا اور امید افزا ہیں:
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
ہے ترے ایثار کا، خود داری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت و إليه أنيب
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ