ایک سوال ایک جواب
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کو کیوں چوما تھا، ایک ہندو نے پوچھا ہے ؟
سائل : اسداللہ، لکھنؤ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق :
تاریخی اور حدیثی اعتبار سے یہ ثابت ہے؛ کہ حجر اسود ایک جنتی پتھر ہے؛ جسے حضرت جبرائیل علیہ السلام اس وقت لیکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے؛ جب وہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے، خدا کی طرف سے یہ ایک تحفہ اور جنتی سوغات تھا، لہذا اس قیمتی اور نایاب تحفہ کی قدر کرنا اور اسے بوسہ دینا عین انسانیت اور خدا کی نعمت کی قدر شناسی ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسے باقی اور برقرار رکھا، اور طواف میں اسے چومنے یا استلام کا حکم دیا؛ اس لئے یہ سنت رسول بھی ہے ۔
اس بوسے سے مقصود اس کی عبادت نہیں ہے؛ بلکہ محض قدردانی ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام نے کبھی اسے عبادت کی نیت سے نہ چھوا اور نہ بوسہ دیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ قول تقریبا ہر حدیث کتاب میں موجود ہے؛ جو انہوں نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر کہا تھا؛ کہ میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے نہ کسی کو نفع پہونچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا تو عمر ہرگز ایسا نہ کرتا
غور کیجئے کہ جب عمر کا خیال اس قدر پختہ اور ایمان مضبوط ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان و یقین کس قدر قوی اور شرک سے دور رہا ہوگا ۔ فقط و السلام
از : محمد زبیر ندوی
دارالافتاء دارالعلوم الاسلامیہ، جوگیشوری، ممبئی انڈیا