از قلم: محمد زبیر ندوی
( قسط اول )
کفرستان عرب کے کثیف اور غبار آلود مطلع پر جوں ہی آفتاب نبوت طلوع ہوا، اور اس کی سحر خیز اور نور بیز کرنیں چمکنا اور پھیلنا شروع ہوئیں؛ یکایک ظلمتوں کے دامن سکڑنے اور تاریکیوں کے خیمے اجڑنے لگے، صدیوں کی بنی بنائی شان و شوکت کو زوال شروع ہوگیا، کارخانہ آزری اور کارگاہ سامری میں زلزلے کی کیفیت پیدا ہو گئی، اچانک مردوں میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے، سونے والے آنکھیں ململاتے اٹھ بیٹھے، روشن ضمیروں اور زندہ دلوں نے لبیک و سعدیک کے کلمات جانفزا سے آوازہ حق کا استقبال کیا، اور اس غلغلہ ایمانی کی کیفیت کچھ یوں ہوئی؛ کہ رکنے کا نام نہ لیتا تھا، بس ایک سیل رواں تھا کہ فاما الزبد فيذهب جفاء و أما ما ينفع الناس فيمكث في الأرض کی مکمل عکاسی کررہا تھا –
دریں میدان پر نیرنگ حیران است دانائی
کہ یک ہنگامہ آرائی، و صد کشور تماشائی
اور پھر کیا تھا پورا ابلیسی نظام حرکت میں آگیا، ظلمت شب کے پرستاروں کی آنکھیں چکاچوند ہونے لگیں، فطرت آزری اور خصلت سامری یک بیک جنبش پذیر ہو گئی، یکلخت نفرت و عداوت کے شرارے پھوٹ پڑے، ظلم و ستم کے ٹھیکیداروں نے اپنی ظالمانہ قوت و توانائی کو روبہ عمل لانا ضروری سمجھا؛ کہ کہیں یہ نور ان کے ظلمت کدوں اور سیاہ دلوں کو صیقل و منور نہ کردے، قریش مکہ اور خاندان بنوہاشم کو کچھ یوں لگا کہ:
دل کے پھپھولے جل اٹھے؛ سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی؛ گھر کے چراغ سے
لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ خورشید کی کرنیں روکی جاسکتی ہیں؛ اور نہ ہی اسے پھونکوں سے بجھایا جاسکتا ہے، ماہتاب شب تاب کو نہ ہاتھوں سے تھاما جاسکتا ہے، اور نہ ہی اسے بے نور کیا جاسکتا ہے، ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ اپنے در دل کو وا کرکے آفتاب کی پرکاش اور ماہتاب کے ضیاپاش عکس سے اسے بھی منور کر لیا جائے؛ لیکن انہیں کون سمجھاتا اور کیونکر سمجھتے کہ:
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ظلم کی چکی چلنا شروع ہو گئی، مخالفتوں کے طوفان کوہ استقامت سے آ آ کر ٹکرانے لگے، شرار بولہبی بلند ہوا؛ اور ہوتا ہی گیا، دریائے ستم نے رفتہ رفتہ سیلاب بلا خیز کی صورت اختیار کر لی، اہل ایمان کے شمع فروزاں کو بجھانے کے لئے مہیب آندھیوں نے آ گھیرا؛ لیکن کیا مجال کہ ان وفاداروں اور جام محبت کے بلا نوشوں کے پائے استقامت میں ذرا بھی جنبش ہوئی ہو، ان کے جذبات و احساسات کو الفاظ کا قالب دینے کے لئے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
بچھ گئے کوچہ یار میں کانٹے
کس کو شکوہ برہنہ پائی ہے !
اور ایمانی محبت کا تقاضہ بھی کچھ ایسا تھا کہ:
جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
تو آئیے ان نیک نفسوں زندہ دلوں روشن ضمیروں کے نقوش پائے وفا کی جستجو کریں اور انہیں نقوش و ارتسامات کو چومنے کی سعادت حاصل کریں کہ کیا عجب :
أحب الصالحين ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا
یاد کیجئے کہ یہ مکہ کی وہی پرشور وادی ہے؛ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر نو کی تھی، اسی مقدس خانہ خدا کے جلو میں تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سربسجود اپنے خالق و مالک سے مصروف مناجات ہیں، عقبہ بن معیط نامی منکر خدا آتا ہے، اور اپنی چادر کو لپیٹ کر رسی بناتا ہے، اور پھر اسے سرور کونین کی گردن میں ڈال کر پیچ در پیچ دینا شروع کردیتا ہے؛ یہاں تک کہ آپ کی گردن بھینچ جاتی ہے –
ایک دفعہ کا اور واقعہ ہے کہ آپ نماز میں مشغول ہیں، اور قریش مکہ صحن کعبہ میں جا بیٹھے ابوجہل نے کہا کہ: آج فلاں جگہ اونٹ ذبح ہوا ہے، اوجھڑی پڑی ہوئی ہے، کوئی جائے اور اٹھا لائے، وہی شقی عقبہ اٹھا اور اوجھڑی لا کر آپ کی پشت مبارک پر رکھ دی –
کفار مکہ سے گراں خاطر ہوکر آپ نے طائف کا سفر کیا؛ کہ شاید ان کے دل نرم اور شرارہ محبت ایمانی گرم ہو؛ لیکن آپ کی دعوت قبول کرنا کجا، ان ظالموں اور ان کے شریر بچوں نے اس قدر سنگ باری کی کہ جسم اطہر لہولہان ہوگیا، پیر زخم خوردہ اور کپڑے خوں آلود ہوگئے؛ لیکن کیا تاریخ بتا سکتی ہے کہ کوئی حرف شکایت بھی آپ کی زبان پر آیا ہو؟ جو کچھ تھا بس یہی تھا :
دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں!
ذرا اور بڑھئے، اپنے دل کو تھامئے، اور جانثاروں کے نقوش دیکھئے:
یہ حبش کے رہنے والے ہیں، غلامی کی زنجیر نے کھینچ کر وادئ بطحا میں پہونچادیا، نام بلال بن رباح ہے، تن کے کالے پر من کے اجلے یہی بلال نبئ آخر کی صداقت اور آپکی نبوت پر ایمان لے آئے؛ حالانکہ انہیں خبر تھی:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
آنے کو تو دامن اسلام میں آگئے؛ پر رہے سہے امن و عافیت سے بھی محروم ہو گئے، ویسے بھی عرب میں جو غلاموں کی قدر تھی وہ ظاہر ہے، اس پر مستزاد سرداران قریش کے عزیز بتوں کی توہین، اور محمد کے کلمہ کی تلقین نے جلتے پر تیل، اور زخم پر نمک کا کام کیا، انکے
آقا امیہ بن خلف کو معلوم ہوا کہ بلال مسلمان ہوگئے ہیں، ان کی گردن میں رسی ڈالی، اور شریر لڑکوں کے ہاتھوں میں تھمادیا، بس کیا تھا ان کا معمول بن گیا کہ وہ انہیں مکہ کی پہاڑیوں اور وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے، انہیں مکہ کی سلگتی ریت پر لٹا دیا جاتا، اور گرم گرم پتھر انکی چھاتی پر رکھ دیئے جاتے، لکڑیوں سے پٹوایا جاتا، دھوپ میں گھنٹوں بٹھایا جاتا، پہروں بھوکا پیاسا رکھا جاتا، مطالبہ صرف یہ تھا کہ محمد کا دامن چھوڑ دیں؛ خدائے وحدہ لا شریک سے رشتہ توڑ دیں؛ لیکن سلام ہو بلال کی روح اور استقامت کو؛ جو ایک لفظ احد احد کے کوئی کلمہ نکلا ہو، خدا غریق رحمت کرے شاعر مشرق کو کیا خوب کہ گیا :
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لئے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لئے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری
شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا
اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لئے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسی پر
تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند
چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا
حضرت یاسر گو کہ رہنے والے یمن کے تھے؛ مگر قسمت نے مکہ کے ریگزار میں پہونچادیا، ابو حذیفہ مخزومی نے اپنی باندی سمیہ سے انکی شادی کردی، جب اسلام کا آوازہ بلند ہوا؛ یہ دونوں حضرات بشمول ان کے فرزند ارجمند حضرت عمار اس کے دامن میں آگئے؛ پھر ان کی بھی حالت دوسروں سے الگ نہ تھی، قریش انہیں تپتی ہوئی ریت پر لٹاتے، اور اس قدر مارتے کہ بیہوش ہوجاتے، زخموں اور ضربوں کے نشانات سے جسم لہولہان ہوجاتا، حضرت عمار کو تو حضرت ابوبکر نے آزاد کرالیا، مگر سمیہ اور یاسر تاحین حیات مشق ستم بنے رہے، فرعون امت ابوجہل نے سمیہ کو برچھی ماری، اور وہ جاں بحق ہوگئیں، یاسر بھی اذیتیں جھیلتے جھیلتے راہئ عدم ہوگئے،
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت صہیب مشہور تو صہیب رومی سے ہیں؛ لیکن درحقیقت وہ رومی نہ تھے، انکے والد بزرگوار کسرئ ایران کی جانب سے ابلہ کے حاکم تھے، اور ان کا خاندان موصل میں آباد تھا، رومیوں نے ابلہ پر حملہ کیا، فتح کے بعد قیدیوں میں صہیب بھی آئے، روم میں پلے بڑھے، اس لئے عربی زبان اچھی طرح بول نہ سکتے تھے، ایک عرب نے خریدا اور مکہ لے آیا، عبد اللہ بن جدعان نے انہیں خرید کر آزاد کردیا، اسلام لائے تو ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو اس جرم بے گناہی کا ہونا تھا، تکلیفات و آلام نے ان کے حواس مختل کردیئے ۔
یعینہ، زنیرہ، نہدیہ، ام عبیس اور لبینہ یہ سب بیچاری کنیزیں تھیں ان کے سنگدل آقاؤں نے اس قدر مارا اور وحشیانہ سزائیں دیں کہ الأمان و الحفیظ ہائے :
تو نے دیکھی ہی نہیں، دشت وفا کی تصویر
نوک ہر خار پہ قطرہء خوں ہے ، یوں ہے
حضرت عثمان جو کبیر السن اور صاحب جاہ و اعزاز تھے، جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے رسی سے باندھ باندھ کر مارا، حضرت زبیر بن عوام ایمان لائے تو ان کے چچا چٹائی میں لپیٹ کر انکی ناک میں دھونی دیتے ، لیکن یہ تمام مظالم، یہ جلادانہ بے رحمیاں، یہ عبرت خیز سفاکیاں، ایک مسلمان کو بھی راہ حق سے متزلزل نہ کرسکیں ۔
ہائے کیا عبرت کا سامان ہے ان کے نقوش پا میں! کیا پند و موعظت کی حسین داستانیں ان سرفروشوں نے رقم کردی! اے کاش اس امت کو اس کا احساس ہوتا؛ تو آج یہ اس موڑ پر نہ ہوتی، کیا کہا جائے اور کیا نہ کہا جائے؛ بس یہی حرف آخر ہے:
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتا چلوں