🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
وقف اسلام کی نظر میں:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان دنیا سے گزر جاتا ہے تو عمل کا ر شتہ اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین صورتوں کے، یا تو صالح اولاد کو چھوڑ کر جائے، جو اس کے لئے دعاء کا اہتمام کرے، یا اس نے کوئی ایسا علمی کام چھوڑا ہو، جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے، خواہ یہ شاگردوں کی صورت میں ہو، تصنیفات کی صورت میں ہو یا تعلیمی اور اشاعتی اداروں کی صورت میں، تیسرے: صدقۂ جاریہ، یعنی انسان کوئی ایسی مادی چیز چھوڑ کر جائے، جس کا نفع لوگوں کو حاصل ہوتا رہے، جیسے کنواں کھدوائے، کوئی ایسی بلڈنگ بنا دے، جس کا کرایہ فقراء پر صَرف ہو، مسجد تعمیر کر دے، جس میں لوگ نماز پڑھتے رہیں:اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثہ الا من صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث نمبر:۴۳۱۰)
صدقۂ جاریہ کی صورت کو شریعت اسلامی میں ’’ وقف‘‘ کہتے ہیں، حدیث وسیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا وقف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کی فکر فرمائی اور حضرت سہل وسہیل رضی اللہ عنہما کی زمین خرید کر مسجد کے لئے وقف کر دی، مسجد کے علاوہ انسانی خدمت کے لئے بھی وقف کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع فرمایا، مُخَیریق نامی صاحب نے اپنی اراضی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وصیت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وقف فرما دیا (فتح الباری:۵؍۳۰۱) اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے اپنے سات باغات کو بنو ہاشم اور بنو مطلب پر وقف فرمایا تھا (سنن بیہقی:۶؍۱۶)
اکثر دولت مند اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اپنی گنجائش اور صلاحیت کے مطابق وقف فرمایا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میٹھے پانی کا کنواں ’’ بئر رومہ‘‘ خریدا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف فرما دیا، (صحیح البخاری ، باب مناقب عثمان بن عفانؓ )حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک باغ اللہ کے راستہ میں وقف فرما دیا، جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں موجود ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف وقف قائم فرمایا؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں اس کے قواعد وضوابط بھی مقرر فرمائے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خیبر کی زمین کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے کہ اصل شئی کو باقی رکھتے ہوئے اسی کی آمدنی کو صدقہ کر دو کہ اصل زمین نہ خرید وفروخت کی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ اس میں میراث جاری ہو؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے فقراء، قرابت دار، غلام، مسافر اور مہمانوں کو اس کا مصرف قرار دیا، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ متولی کو اس میں سے کھانے یا اپنے دوستوں کو کھلانے کی اجازت ہوگی، ذخیرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی، (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الوقف، مسلم، کتاب الوصیۃ، باب الوقف) یہ وضاحت بھی کر دی کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما متولی ہوں گے اور ان کے بعد وہ شخص متولی ہوگا جو آلِ فاروقی میں سب سے بڑا ہو۔
اس طرح یہ پہلا وقف تھا، جس کے مصارف واضح کئے گئے، وقف کرنے والے کی طرف سے شرائط مقرر ہوئیں، اور وقف کی تولیت کے سلسلہ میں صراحت کی گئی؛ چنانچہ شریعت اسلامی میں وقف کے قوانین کی اصل بنیاد یہی وقف فاروقی ہے، اس کے بعد صحابہ کی جانب سے بہ کثرت وقف کا اہتمام کیا گیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ جن صحابہ کو بھی مالی گنجائش تھی، انھوں نے وقف کیا ہے: لم یکن أحد من أصحاب صلی الہ علیہ وسلم ذو مقدرۃ الا وقف‘‘ (المغنی لابن قدامہ: ۸؍ ۱۸۵) مشہور فقیہ علامہ ابن قدامہؒ نے متعدد صحابہ کے اوقاف کا ذکر کیا ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مکان اپنے لڑکے پر وقف کر دیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروہ کے پاس واقع اپنی ایک زمین اپنے لڑکے پر وقف کی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ انھوں نے بڑی قیمت ادا کر کے ایک کنواں خرید کیا اور اسے وقف کر دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ ینبع‘‘ میں ایک زمین وقف کی تھی، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ میں، مصر میں اور مدینہ میں اپنے مکانات وجائیداد اپنی اولاد پر وقف کئے تھے، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ اور مصر میں اپنا گھر اپنی اولاد پر وقف کیا تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ وہط‘‘ نامی مقام کی اراضی اور مکہ کے مکان کو وقف علی الاولاد فرمایا تھا، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ ومدینہ کے مکانات کو وقف علی الاولاد کیا تھا (المغنی: ۸؍۱۸۶) —– اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ میں وقف کرنے کا عام ذوق تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ خود اپنی اولاد پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اولاد کو کو خوش حال ومستغنی چھوڑ کر جانا فقیر وومحتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف کے لئے جو شرائط مقرر کی تھیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وقف کی ہوئی چیزوں میں وقف کرنے والے کے منشاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف کی ہوئی چیز سے وقف کرنے والے کی شرط کے دائرہ میں رہتے ہوئے متولی بھی استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ وہ اسے فروخت نہیں کر سکتا، اور متولی چوں کہ خود وقف کرنے والا بھی ہو سکتا ہے؛ اس لئے یہی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ خود وقف کرنے والا بھی وقف کی ہوئی چیز سے استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ مسجد کے سوا جو بھی وقف ہو، اس کا آخری مصرف فقراء اور حاجت مند ہوں گے، چاہے وقف کرنے والے نے اس کی صراحت کی ہو، یا نہیں کی ہو؛ کیوں کہ وقف کا اصل مقصد اجروثواب کا حصول ہے اور اجروثواب حاصل کرنے کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے لئے اس کا استعمال ہو یا اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے۔
وقف پر نہ و قف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے، نہ اس پر متولی کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ اُن لوگوں کی جن کو اس سے نفع اٹھانے کا حق دیا گیا ہے؛ بلکہ وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے: ھو حبسھا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ(درمختار مع الرد، کتاب الوقف: ۳؍ ۴۹۳) چوں کہ اسلام میں صرف عبادت ہی کارِ ثواب نہیں ہے؛ بلکہ انسانی خدمت بھی باعث اجروثواب ہے؛ اس لئے وقف کا دائرہ بہت وسیع ہے، جیسے فقراء کو نفع پہنچانے والی چیزوں کا وقف درست ہے، اسی طرح ایسا وقف بھی درست ہے، جس سے فقراء اور مال دار دونوں فائدہ اٹھا کے، یہاں تک کہ خود اپنی اولاد پر وقف کرنا بھی درست ہے (دیکھئے: درمختار، فصل فیما یتعلق بوقف الاولاد:۳؍ ۶۰۴) ؛ چنانچہ مدارس، مساجد، یتیم خانے، غرباء کی امداد کے لئے قائم کئے ہوئے ادارے، دینی یا عصری تعلیم کے خیراتی ادارے، مریضوں کے علاج، بیواؤں کی کفالت اور اس طرح کے مقاصد کے لئے قائم ہونے والے ادارے، جن کا مقصد تجارت کرنا اور کسی خاص فرد کے لئے مادی نفع حاصل کرنا نہ ہو، وہ سب کے سب اوقاف میں داخل ہیں۔
وقف بِل کیوں قابل قبول نہیں؟
موجودہ حکومت نے جو ۱۹۹۵ء کے قانون میں ترمیمی بل پیش کیا ہے، وہ وقف کو محفوظ کرنے کے بجائے اس کو غیر محفوظ بنانے کی منصوبہ بند سازش ہے؛ اس لئے کہ اس ترمیم کے مطابق:
(۱) وقف بذریعہ استعمال کو ختم کر دیا گیا ہے، یعنی وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں یہ بات درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد، درگاہ یا قبرستان استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے ہے تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا، اب وقف بذریعہ استعمال کے خاتمہ سے یہ ہوگا کہ جو مسجد، مدرسہ، درگاہ یا قبرستان صدیوں سے اس مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے، اگر مال گزاری ریکارڈ میں ان کا اندراج نہیں ہے تو ریاستی حکام اس پر ناجائز قبضہ کر سکتے ہیں، اور اس کی وجہ سے مسجدوں اور دیگر اوقاف پر فرقہ وارانہ دعوے اور اختلافات بھی بڑھ جائیں گے؛ حالاں کہ ہندو مذہبی مقامات کے لئے اسی اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، اور جو جگہ یا عمارت عرصہ سے مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے، اس کو اسی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
(۲) سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور مسلمان نمائندوں کی تعدا بڑی حد تک کم کر دی گئی ہے، پہلے صرف ایک غیر مسلم وقف کونسل کا رُکن ہو سکتا تھا، اب ان غیر مسلم اراکین کی تعداد بحیثیت رکن وبحیثیت عہدہ ۱۳؍ ہو سکتی ہے، اوردو غیر مسلم اراکین تو لازماََ شامل ہوں گے۔
پہلے ریاستی وقف بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم اس کا چیئر پرسن ہو سکتا تھا، جب کہ باقی سارے ارکان مسلمان ہوتے تھے اور انتخاب کے ذریعہ آتے تھے، اب بورڈ کے ۷؍ ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں، اور دو ارکان کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، نیز ارکان کو وقف بورڈ منتخب نہیں کرے گا؛ بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔
(۳) یہ شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایکزیکیٹو افسر مسلمان ہوگا، اب اس شرط کو بھی ہٹا دیا گیا ہے، اب اس کے بجائے ریاستی حکومت کوئی غیر مسلم چیف ایکزیکٹیو افسر بھی مقرر کر سکتی ہے، اور اس عہدہ کے لئے وقف بورڈ کی سفارش کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
غرض کہ مسلمانوں کی نمائندگی کو خاص طور پر اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کہ لازمی مسلم ارکان کی تعداد کم کر دی گئی ہے، اور لازمی غیر مسلم اراکین کو شامل کر دیا گیا ہے، اور چیف ایکزکیٹیو افسر کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے، یقیناََ یہ تجاویز دستور ہند کی دفعہ (۲۶) کے بالکل منافی ہیں،جس میں کہا گیا ہے:
’’ اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں، ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا، (الف) مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا (ب) منقولہ اور غیر جائیداد کے مالک ہونے اور اس کو حاصل کرنے کا اور (ج) ایسی جائیداد کا قانون کے بموجب انتظام کرنے کا ‘‘
اس طرح عملاََ وقف بورڈ غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلا جائے گا، جو نہ وقف کے احکام شرعیہ سے واقف ہوں گے، نہ ان کی اس سے اعتقادی وابستگی ہوگی اور نہ ان کو اس سے کوئی ہمدردری ہوگی؛ اس لئے یہ بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں سے وقف کو چھیننے کی ناپاک کوشش ہے۔
اس کے برعکس اترپردیش، کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو وغیرہ میں ایسے قانون موجود ہیں، جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں، بہار اینڈومینٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں، ہندو اینڈومینٹ بورڈ، شوتمبر جین اینڈومینٹ بورڈ اور ڈگمبرجین اینڈومینٹ بورڈ، ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے، گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے اراکین بھی لازمی طور پر سکھ فرقےمیں سے ہوں گے۔
(۴) اس مجوزہ قانون کے مطابق ریاستی وقف بورڈ کے ارکان منتخب ہونے کے بجائے ریاستی حکومت کی جانب سے نامزد ہوں گے، چیف ایکزیکٹیو افسر کے تقرر میں بھی وقف بورڈ کے پینل کی سفارش کو ختم کر دیا گیا ہے، اس طرح وقف جائیداد کے انتظام میں حکومت کی مداخلت کافی بڑھ گئی ہے۔
(۵) کلکٹر کو وقف میں ذمہ دارانہ حیثیت دے دی گئی ہے اور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ وقف جائیدادپر حکومت کے قابض ہونے کی صورت میں یہ مقبوضہ جائیداد اب وقف جائیدادیں نہیں رہیں گی، یہ اختیار مکمل طور پر کلکٹر کو دے دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کوئی جائیداد سرکاری جائیداد ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کلکٹر کی رائے حتمی ہوگی، کلکٹر کے اس فیصلے کے بعد مال گزاری کے ریکارڈ میں ضروری تبدیلی کی جائے گی اور حکومت وقف بورڈ کو اپنا ریکارڈ درست کرنے کی ہدایت دے گی، جو کہ کلکٹر کی رائے کے مطابق ہوگی، اس کے علاوہ جب تک کلکٹر اپنی رائے نہیں دیتا، اس جائیداد کو وقف جائیداد تسلیم نہیں کیا جائے گا (دفعہ:۳،c)
رجسٹر یشن کی درخواست موصول ہونے پر بورڈ اس درخواست کو کلکٹر کو پیش کرے گا، کلکٹر کو اس درخواست کے صحیح اور جائز ہونے کے فیصلے کا اختیار ہوگا، (دفعہ: ۳۶) اگر کلکٹر کی رائے میں یہ جائیداد کلی یا جزوی طور پر متنازعہ ہے یا سرکاری جائیداد ہے تو اس جائیداد کو بطور وقف رجسٹر نہیں کیا جائے گا، یہ معاملہ پھر بعد میں عدالت سے طے ہوگا (دفعہ: ۳۶،A7)
عجیب بات ہے کہ وقف املاک ہیں مسلمانوں کی، اور اس میں تصرف کا اختیار ہے کلکٹر کو، اور صورت حال یہ ہے کہ وقف کی اکثر جائیدادیں جن پر ناجائز قبضہ ہے، وہ حکومت یا حکومت کے کسی ادارے کے زیر استعمال ہیں، اور کلکٹر صاحب حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہیں، کیا ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ جو مقدمات حکومت اور وقف بورڈ کے درمیان ہوں گے، وہ ان میں انصاف کر سکیں گے؟ بظاہر یہ بات عملاََ ناممکن سی محسوس ہوتی ہے، اسی طرح وقف بورڈ سے اس کا وقف رجسٹریشن کرنے کا اختیار چھین لیا گیا ہے اور یہ اختیار اب مرکزی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ (دفعہ: ۳۶)
کلکٹر کو مطلق اختیارات دینے کے نتیجے میں کلکٹر کو اب یہ اختیار ہوگا کہ وہ وقف کی نوعیت کو بدل کر ان کے سرکاری جائیداد ہونے کا حکم دیدے اور مال گزاری کے ریکارڈ بھی تبدیل کر دے، اسی طرح کلکٹر اور انتظامیہ کو یہ مطلق اختیار ہوگا کہ وہ کسی غیر متنازعہ وقف جائیداد کو متنازعہ بنا دے۔
موجودہ ایکٹ کی دفعہ ۴۰؍ کے تحت بورڈ کو وقف جائیدادوں کی نوعیت، ان کے بارے میں معلومات اور رجسٹریشن وغیرہ سے متعلق حاصل تمام اختیارات کو چھین لیا گیا ہے اور یہ سارے اختیارات کلکٹر کے سپرد کر دئیے گئے ہیں۔
(۶) موجودہ قانون وقف کی دفعہ ۷؍ میں ہے کہ اگر اوقاف کی فہرست میں درج کسی وقف جائیداد کے بارے میں شبہ ہو تو متعلقہ فریق ایک سال کے اندر ٹربیونل کو درخواست دے سکتا ہے اور اس عرصے کے بعد کسی نئے دعویٰ پر غور نہیں کیا جائے گا، مجوزہ ترمیم میں اس کو ہٹا دیا گیا ہے اور ٹربیونل کے فیصلہ کے حتمی ہونے کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، اس کے بجائے اس شرط کا اضافہ ہے کہ فہرست کی اشاعت کے بعد دو سال تک دعویٰ دائر کیا جا سکتا ہے، اس سے انتشار پیدا ہوگا، غلط دعوؤں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور تنازعات بڑھیں گے۔
(۷) موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ:۴؍۳۳ کے تحت وقف کے تنازعات کا تصفیہ کرنے کے لئے ٹربیونل بنایا گیا ہے اور اس کے فیصلہ کو حتمی قرار دیا گیا ہے؛ مگر مجوزہ ترمیمی بل ۲۰۲۴ء میں اسے ختم کرنے کی تجویز ہے، اس سے وقف کی جائیداد کا تحفظ مشکل ہو جائے گا اور ناجائز قبضہ باقی رہے گا، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ NGT کو ماحولیات سے متعلق معاملات پر اٹھارٹی نہ مانا جائے، یا ITAT کو ٹیکس سے متعلق معاملات پر فیصل نہ مانا جائے۔
(۸) بل میں تحریر ہے کہ جو شخص گزشتہ کم سے کم ۵؍ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو، صرف وہی وقف قائم کر سکتا ہے، یہ پوری طرح شریعت کے خلاف ہے، اسلام کی نظر میں جو شخص آج اسلام قبول کرے، وہ بھی اسی طرح مسلمان ہے، جیسے ۵۰؍ سال پہلے مسلمان ہونے والا شخص، یہ پانچ سال تک ایک مسلمان کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔(دفعہ: ۳)
(۹) موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۱۰۷؍ کے تحت اوقاف کی جائیداد کو’’ لمیٹیشن ایکٹ ‘‘سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا؛ تاکہ وقف کی جائیداد پر قدیم وجدید سارے قبضے ختم کرائے جا سکتے ہیں، مجوزہ ترمیمی بل میں اسے بھی حذف کرنے کی تجویز ہے، گویا اس طرح قدیم غاصبانہ قبضہ کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے، اور اس طرح کا فرق دوسرے مذہبی اداروں میں بھی پایا جاتا ہے، مثلاََ تمل ناڈو اور تلنگانہ میں ہندو مذہبی اور خیراتی انڈومینٹس ایکٹ میں بھی اس طرح کی گنجائش ہے۔
(۱۰) ہندوستان میں بہت سے مسلمان بادشاہوں، نوابوں اور زمینداروں نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لئے وقف کیا ہے، اسی طرح بہت سے ہندو راجاؤں اور حکمرانوں نے اپنی مسلمان رعایا کے لئے مسجدوں اور قبرستانوں وغیرہ پر وقف کیا ہے، مجوزہ ایکٹ کی دفعہ ۱۰۴؍ کے تحت وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے وقف کے لئے عطیہ کی ہوں اور بطور مسجد، قبرستان اور مسافر خانہ استعمال ہو رہی ہیں ، کو ختم کر دیا گیا ہے؛ لہٰذا غیر مسلموں کے یہ عطایا وقف کے دائرے سے باہر نکل جائیں گے اور بہت سے اوقاف متنازع بن جائیں گے۔
(۱۱) موجودہ ایکٹ کی دفعہ ۱۰۸؍ کے تحت ’’ اوور رائڈنگ ایکٹ ‘‘ ہے، یعنی اگر دوسرے قوانین سے وقف قانون کا تعارض ہو تو وقف قانون لاگو ہوگا، ترمیمی بل ۲۰۲۴ء میں اسے بھی ختم کرنے کی تجویز ہے، حقیقت یہ ہے کہ وقف ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے اور مسلمہ قانونی اصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی اسپیشل قانون کسی جنرل قانون سے ٹکراتا ہے تو اس صورت میں اسپیشل قانون کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، یہ صرف وقف ایکٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ یہ اصول دیگر اسپیشل ایکٹ پر بھی نافذ ہوتا ہے۔
بعض پروپیگنڈے:
موجودہ وقف ایکٹ پر فرقہ پرستوں کی طرف سے کچھ اعتراضات کئے جاتے ہیں، جن میں بعض تو محض پروپیگنڈہ ہیں، اور بعض غلط فہمی پر مبنی ہیں:
۱۔ ’’وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے کے مطلق اختیارات دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں وقف جائیدادیں تقریباََ چھ۶؍ لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں اور ملک کے تیسرے سب سے بڑے زمین کے مالک ہیں‘‘
مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ نے اس کی بڑی عمدہ وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 6 لاکھ ایکڑ ہے، اس کا موازنہ اگر ہندو انڈومینٹ سے کیا جائے تو تمل ناڈو میں 4,78000 ایکڑ اور آندھرا پردیش میں 4,68000 ایکڑ زمین انڈومینٹ کے پاس ہیں، صرف ان دونوں ریاستوں کو ملا کر 9,40000 ایکڑ زمین ہندو انڈومینٹ کے پاس ہے، جب کہ پورے بھارت میں وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے، زمین کو وقف قرار دینا کوئی خفیہ عمل نہیں ہے، اس کا پورا پروسیجر وقف ایکٹ میں مذکور ہے، وقف صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی جائیداد کا مالک ہو اور اسے اپنی ملکیت کے دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے بعد عوام کو اعتراضات داخل کرنے کے لئے نوٹس جاری کیا جاتا ہے، حکومت ایک سروے کمشنر مقرر کرتی ہے، جو زمینوں کی جانچ کرتا ہےاور ان کی وقف کی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد یہ اعلان ریاستی گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص اس نوٹیفیکیشن کو ایک سال کے اندر وقف ٹربیونل میں چیلنج کر سکتا ہے‘‘
اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ ستر ہزار گاؤں ہیں، اگر مان لیا جائے کہ ان میں سے نصف تعداد میں کم یا زیادہ مسلمان بھی بستے ہیں تو ایسے گاؤں کی تعداد تین لاکھ پچاسی ہزار ہوتی ہے، مسلمان جہاں بھی آباد ہوتے ہیں، وہاں کم از کم ایک قبرستان ہوتا ہے، عیدگاہ ہوتی ہے اور نماز کے لئے مسجد ہوتی ہے، اگر قبرستان اور عید گاہ کے لئے ایک ایک ایکڑ اور مسجد کے لئے نصف ایکڑ یعنی اوسطاََ ڈھائی ایکڑ فی آبادی زمین فرض کی جائے تو اس کی مقدار تو نو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو ایکڑ زمین ہونی چاہئے، جیسا کہ ہندو بھائیوں کے یہاں مندر، مٹھ، شمشان گھاٹ وغیرہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھیں تو چھ لاکھ ایکڑ زمین کوئی بڑا رقبہ نہیں ہے،اور پھر سرکار کی دی ہوئی نہیں ہے؛ بلکہ خود مسلمانوں کی ہے۔
۲۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ: حکومت ہر ۱۰؍ سال میں تمام وقف جائیدادوں کا سروے کراتی، اس سروے کے اخراجات کون ادا کرتا ہے ، ٹیکس دہندہ!اکثریتی برادری کو یہ اخراجات کیوں برداشت کرنے چاہئے۔
ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ ایک طبقہ کی ضرورت پر اسی طبقہ کی رقم خرچ ہو، برادران وطن کی مذہبی تقریبات پر، یاتراؤں ، میلوں اور بالخصوص کمبھ پر بہت بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، اور اس رقم میں ملک کے تمام شہریوں کا ٹیکس بالواسطہ شامل ہوتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے بڑے ٹیکس دہندگان میں اچھی خاصی تعداد میں مسلمان تاجر بھی شامل ہیں، جیسے: عظیم پریم جی، یوسف علی مالک لؤلؤ ، شاہد بلوچ بانی شاپر اسٹاپ، شاہد بَلوا ، فلمی دنیا اور اسپورٹس سے جڑے ہوئے مسلمان اداکار، اداکارائیں اور کھلاڑی وغیرہ، اور آج تو پانی کا ایک بوتل لیا جائے تو اس میں بھی ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ ان اخراجات میں مسلمانوں کے ٹیکس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے؛ اس لئے یہ اعتراض قطعاََ بے جا اور غلط ہے۔
۳۔ یہ بھی تأثر دیا جا رہا ہے کہ وقف کی جائیداد کا فیصلہ یک طرفہ طور پر وقف ٹریبونل کر دیتا ہے اور کسی بھی جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹربیونل کی حیثیت سِول عدالت کی ہے، جس کا اعلیٰ افسر ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے، اگر وقف کی جائیداد پر کوئی شخص، ادارہ یا سرکار قابض ہو تو اس میں کیس چلتے ہیں، فریقین اپنا ثبوت پیش کرتے ہیں، اس کی روشنی میں ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے، اگر فیصلہ پر کوئی ایک فریق مطمئن نہیں ہو تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے، اور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے؛ اس لئے یہ کہنا کہ وقف ٹربیونل کی مدد سے وقف بورڈ جائیداد کو وقف قرار دیتا ہے، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔
۴۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقف ایکٹ کے سیکشن 83؍کے تحت وقف ٹربیونل کو شریعت کے مطابق چلایا جاتا ہے، ایک غیر مسلم کو اسلامی قانون کے تحت چلائے جانے والے ٹریبونل سے انصاف حاصل کرنے پر مجبور کیوں جا رہا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹریبونل حکومت کے مقرر کئے ہوئے دو قانونی و انتظامی ماہرین اور ایک احکام شریعت کے ماہر پر مشتمل ہوتا ہے، جو مسائل بورڈ کے زیر تولیت اوقاف کے استعمال سے متعلق شرعی نوعیت کے ہوتے ہیں، ان کو شریعت کے مطابق حل کیا جاتا ہے، مثلاََ یہ بات کہ ایک زمین مسجد پر وقف ہے، کیا اس کی زائد آمدنی قبرستان پر یا تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے؟ اس کے لئے شریعت کے معتبر ماہرین کی رائے سے فیصلہ ہوگا، اور دوسرے مسائل جیسے وقف بورڈ اور کسی مسلم یا غیر مسلم فریق کے درمیان تنازعہ ، تو ان کو قانون ِملکی کے مطابق فیصل کیا جاتا ہے؛ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وقف ٹریبونل غیر مسلم فریق پر شریعت کے قانون کو لاگو کرتا ہے، اور یہ بھی کہنا درست نہیں ہے کہ ہندو انڈومینٹ کے معاملات میں شاستروں کا علم رکھنے والے کسی ہندو رکن کا ہونا لازم نہیں ہے؛ بلکہ دوسری مذہبی املاک کے بارے میں بھی اس طرح کا قانون موجود ہے، جیسے: تلنگانہ ہندو انڈومینٹس ایکٹ 1987 کے مطابق ایک اضافی کمشنر لازمی طور پر ہندو ہونا چاہئے۔
۵۔ ایک بات بار بار کہی جارہی ہے کہ’’ تمل ناڈو کے ضلع چندورائی میں ایک مکمل ہندو گاؤں ،جس میں ۱۵۰۰؍ سال سے زیادہ پرانا ایک ہندو مندر ہے،کو وقف جائیداد قرار دے دیا گیا ہے‘‘…….یہ خبر جس طرح چلائی جا رہی ہے، وہ صحیح نہیں ہے، یہ اراضی چھ سو ایکڑ پر مشتمل ہے، اور وقف بورڈ تمل ناڈو کے بیان کے مطابق یہ زبانی وقف ہے، جو چھ سو سال پہلے وقف کیا گیا تھا، اور جس مندر کو پندرہ سو سال پہلے کا بتایا جا رہاہے، وہ سو سال سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے، یہاں پانچ سو تا چھ سو مکانات کی ایک آبادی بس گئی ہے، جو زیادہ تک غیر مسلموں بھائیوں پر مشتمل ہے، وقف بورڈ نے اپنے ریکارڈ کی بنیاد پر بیان دیا تھا؛ لیکن اس نے معاملہ کو حکومت کے حوالہ کر دیا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کر دے، اسے منظور ہے، اس پہلو کا سچائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا جا تا۔
۶۔ معترضین بار بار یہ بات اٹھاتے ہیں کہ موجودہ قانونِ وقف ’’وقف بورڈ‘‘ کو کسی بھی زمین پر دعویٰ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟ اور کیا صرف وقف بورڈ کے کسی دعویٰ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی صاحب ِحق پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر اپنا حق پیش کر سکتا ہے اور کس پر نہیں؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی شخص دعویٰ کرے تو قابل قبول ثبوت کے بغیر دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا، اور مقدمہ قبول کرنے کے بعد بھی جب تک کوئی بات ثبوت وشہادت سے ثابت نہ ہو جائے، اس دعویٰ پر مہر نہیں لگائی جاتی ہے اور اس دعویٰ کا نفاذ نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔
۰ ۰ ۰