مکتب کا نظام نسل نو کے ایمان کا ضامن
نوٹ : ملک ہندوستان میں آئے دن مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، اسلام مخالف فسطائی طاقتیں مختلف حربوں کا استعمال کر کے نسل نو کو بد دین اور بد عقیدہ بنانے کے لیے کمر بستہ ہیں، ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی پیوستہ جڑوں کو کھوکھلا کر دیا جائے، اس طور پر کہ وہ (ناموں کے لحاظ سے ) عبد اللہ اورعبد الرحمن تو باقی رہیں لیکن اسلام اور احکام اسلام سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ اپنی نئی نسل کے ایمان کی حفاظت کی فکر کی جائے، اور اس کا سب سے مؤثر ذریعہ مکاتب کے نظام کا
استحکام ہے۔ عوام الناس میں مکاتب کے نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت اور اس نظام کی افادیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی جانب سے اس ہفتے کا خطاب جمعہ” مکتب کا نظام ؛ نسل نو کے ایمان کا ضامن“ کے عنوان سے جاری کیا جارہا ہے، تمام ہی ائمہ و خطباء حضرات سے گذارش ہے کہ اسے اپنے خطاب کا حصہ ضرور بنائیں۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکريم اما بعد ! قال الله تعالى في القرآن المجيد اعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم وَوَضَى بِهَا ابْرَهِيْمَ بَنِيْهِ وَيَعْقُوبُ بِبَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الَّذِيْنَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقره ۱۳۲) وقال رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ” مَا تَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلِ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبِ حَسَنٍ ” (ترمذی)
قرآن مجید میں جن اولوالعزم پیغمبروں کا ذکر آیا ہے، ان میں ایک اہم ترین شخصیت حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے، جن کا مختلف عنوان کے تحت قرآن میں سولہ بار ذکر آیا ہے، ان کے والد حضرت اسحاق علیہ السلام تھے، جن کا ایک نام اسرائیل بھی ہے، بنی اسرائیل در اصل ان کی اولاد ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ مصر اور عراق کے خطہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی خدا کے اولو العزم پیغمبروں میں سے ہیں، جن کو ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی رضا کے لئے قربان کیا تھا اور عید قرباں ان ہی کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے، حضرت یعقوب علیہ السلام کے دادا ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، جنھوں نے تعمیر کعبہ کی تجدید فرمائی ، حج کے زیادہ تر افعال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں
اور فرمانبرداریوں کی یاد کو تازہ کرنے کا باعث ہیں اور دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام آپ علیہ السلام کی عظمت پر متفق ہیں۔ قرآن نے خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے توحید پر ایمان وایقان کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں ابتلاؤں اور آزمائشوں میں پورا اتر نے کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے؛ چنانچہ آج جو مذاہب توحید کا اقرار کرتے ہیں ، وہ سبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں، حضرت یعقوب علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، جن کے واقعہ پر قرآن مجید میں ایک مکمل سورت یوسف“ کے نام سے موجود ہے اور ان کی داستان زندگی کو اللہ تعالیٰ نے احسن القصص کے نام سے ذکر فرمایا ہے، گویا حضرت یعقوب علیہ السلام کا پورا خانوادہ نبیوں اور رسولوں کا ، باپ، چچا، دادا، بیٹا ، سب اللہ کے پیغمبر ہیں، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس خاندان میں کس قدر دین داری، تقویٰ اور خشیت الہی رہی ہوگی اور گھر کے پورے ماحول پر کیسی اعلیٰ دینی فضاء سایہ فگن ہوگی، ایسے دین دار گھرانہ کے افراد سے گناہ اور معصیت کا اندیشہ بھی لوگوں کو نہیں ہوتا ، چہ جائے کہ کفر و شرک کا خوف ان سے ہو ؛ لیکن جب حضرت یعقوب کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے اپنے صاحبزادوں سے سوال کیا : ما تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي ؟ (بقره: ۱۳۳) میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ صاحبزادوں نے جواب دیا:
نَعْبُدُ الهَكَ وَالهَ أَبَابِكَ ابْرُهم وَاسْمعِيلَ وَإِسْحَقَ الهَا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ۔ (بقره: ۱۳۳ ) ہم آپ کے خدا، آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے خدا یعنی ایک ہی خدا کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔
اسی طرح سید نا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو خود نبی تھے ، وصیت فرمائی:
إنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (بقره:۱۳۲)
بے شک اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرمالیا ہے ؛ اس لئے اسلام ہی کی حالت میں تمہیں موت آنی چاہئے۔ غور کیجئے! کہ انبیاء کرام اپنے بچوں کے سلسلہ میں اس بات کے فکرمند ہیں کہ وہ دین پر قائم رہیں اور ان کو دین پر قائم رہنے کی حالت میں موت آئے ، جب انبیاء کو اپنی اولاد کے بارے میں اتنی زیادہ فکر مندی تھی ، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمانوں کو اس سلسلہ میں کتنا زیادہ فکر مند رہنے کی ضرورت ہے ، آج ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم اپنی خاندانی روایات پر یقین کر کے اپنے بال بچوں کے بارے میں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچے اسی دین کے حامل رہیں گے، جو ہمیں ہمارے ماں باپ کی طرف سے ملا ہے۔ راقم الحروف کو متعدد مغربی ملکوں کے سفر کا موقع ملا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی ملکوں نے مذہب سے اپنا رشتہ پوری طرح توڑ لیا ہے اور اگر کوئی اپنے آپ کو عیسائی کہتا ہے تو وہ محض روایات کے طور پر ایک تہذیب کے نقطہ نظر سے، یعنی کچھ مذہبی رسوم ہیں، جو بطور عقیدہ کے انجام نہیں دیئے جاتے ؛ بلکہ اب وہ تہذیب اور روایت کا حصہ بن چکے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ جو مسلمان وہاں آباد ہیں اور خاص کر گجراتی مسلمان، کہ ہندوستان سے زیادہ تر وہی اس ملک میں پہنچے ہیں ، ان کی نئی نسل میں بھی دین داری کا رجحان بہت ہی قابل تعریف اور لائق تحسین ہے، ایک ایسے ملک میں جہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ لباس عورتوں کے لئے ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے، اور جہاں نوجوان لڑکے نت نئے فیشن کے پرستار ہیں، وہاں بھی مسلمان خواتین کی اچھی خاصی تعداد برقعہ پوش ہے، یا کم سے کم چہرہ کے علاوہ پورا جسم بشمول سر کے ڈھنکا ہوا ہے، اور نو جوان لڑکوں کے چہروں پر کثرت سے داڑھیاں ہیں اور ان کی اچھی خاصی تعداد مشرقی لباس اور اسلامی وضع قطع کی حامل ہے۔
اس کے اسباب یوں تو گھریلو ماحول اور طبعی سلامت روی ، دینی تحریکوں اور جماعتوں سے تعلق اور خاص کر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کی تحریک دعوت وتبلیغ کی محنت اور علماء اور مشائخ سے تعلق و ارتباط وغیرہ بھی ہے ، لیکن سب سے اہم کردار اس میں نظام مکاتب کا ہے، ریاست گجرات میں بہت زمانہ سے ایک نظام یہ ہے کہ گاؤں گاؤں میں مکاتب قائم ہیں، جو طلبہ عصری درسگاہوں میں پڑھتے ہیں ان کے لئے ان مکاتب میں پڑھنا ضروری سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی بچہ مکتب کے اوقات میں کھیلتا ہوا مل جائے تو محلہ کے لوگ بے تکلف بچہ کے سرپرست سے پوچھ بیٹھتے ہیں ، کہ یہ مکتب نہیں جارہا ہے؟ اور سر پرست کو شرمسار اور معذرت خواہ ہونا پڑتا ہے، عام طور پر مکتب کی تعلیم سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ قاعدہ بغدادی اور پارہ عم جیسے تیسے پڑھا دیا جائے اور چند کلمات اور دعائیں یاد دلا دی جائیں ، بس یہ کافی ہے، یقیناً کچھ نہ ہونے کے مقابلے میں ہونا بہتر ہے ،لیکن گجرات کے نظم مکاتب کی سطح اس سے بہت بلند ہے، یہاں عام طور پر میٹرک تک آٹھ دس سال مکتب کی تعلیم ہوتی ہے، روزانہ ڈھائی گھنٹہ بچوں کا وقت لیا جاتا ہے، ایک معلم پندرہ، بیس طلبہ کو پڑھاتے ہیں، ناظرہ قرآن تجوید کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے، کچھ پارے حفظ کرائے جاتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ساتھ آیات واحادیث کے ترجمے، ایمانیات، مسائل و احکام، سیرت نبوی وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور بعض جگہوں پر عربی زبان کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ گجرات کے مسلمان تاجر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی گئے مکتب کا یہ نظام بھی اپنے ساتھ لے کر گئے، اس لئے ان کی نئی نسل پر دین داری کی جھلک نمایاں طور پر محسوس کی جاتی ہے، چاہے وہ کتنے ہی مخالف اسلام ماحول میں ہوں، وہ دوسرے مسلمانوں سے اپنے دینی ربط و تعلق کی بناء پر نمایاں محسوس ہوتے ہیں، برطانیہ میں چوں کہ 16 سال کی عمر تک سرکاری نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرنا ہر بچہ پر لازم ہے، اس لئے اتنی عمر تک بچے پابندی سے مکتب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس طرح وہ نیم مولوی تو ہو ہی جاتے ہیں اور بعضے قرآن مجید کا حفظ بھی مکمل کر لیتے ہیں۔ بعض اہل بصیرت کا گمان ہے کہ ایشیاء میں جو ملک سب سے پہلے مغربی تہذیب کے سامنے سرنگوں ہو جائے گا اور جو تیزی سے مغرب کی پیروی کی طرف جارہا ہے، وہ ہمارا ملک ہندوستان ہے اور مغربی ممالک کو چوں کہ افرادی وسائل کی ضرورت ہے اور ہندوستان کے نوجوان ذہانت ،صلاحیت ، محنت اور فنی مہارت کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کو قبول کرنے کا مزاج بھی رکھتے ہیں، اسی لئےیہاں کے کارکنان ان کے لئے سب سے زیادہ قابل قبول ہیں۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اگلی نسلوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے طریقہ کار پر غور کریں اور ایسا راستہ اختیار کریں کہ وہ ہمارے بچے عصری تعلیم میں بھی آگے ہوں اور دینی پہچان بھی پوری طرح قائم رہے، اس کے لئے سب سے مفید اور آزمودہ طریقہ مکاتب کا نظام ہے۔ نئی نسل ہی کسی بھی قوم اور ملت کے مستقبل کی معمار ہوتی ہے، اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ ان کی ذہنی و اخلاقی نشونما ایسے ماحول و فضا میں کی جائے جس میں خالص اسلامی تہذیب کی چھاپ ہو، جو مغربی تہذیب و ثقافت کے تمام ایمان سوز اثرات سے پاک ہو، اور ایسا ماحول مکاتب ہی کے ذریعے سے فراہم کیا جاسکتا ہے۔ مکاتب ہی وہ قلعے ہیں جن کے ذریعے سے نسل نو کے ایمان و عقائد پر ہو رہی زبر دست یلغارکو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ مکاتب بقائے اسلام کے ضامن اور تحفظ ایمان کے کفیل ہیں، ان مکاتب سے علم کی جو روشنی نکل رہی ہے اس سے پوری دنیا سیراب و فیضیاب ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس نظام کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو ان مکاتب کی طرف متوجہ کریں۔ بچے چونکہ خالی الذہن ہوتے ہیں، بچپن میں جو کچھ انہیں پڑھادیا جائے وہ ان کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے، حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اتعلم في الصغر النقش في الحجر فتح الباري : باب التعليم للصبيان : ۸۳/۹) یعنی بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح پتھر کی لکیر یا پتھر پر کیا گیا نقش مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے اسی طرح بچپن میں جو چیز ذہن میں بیٹھ جائے یا بٹھا دی جائے مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اسی وقت سے بچوں کے ذہن میں دین وایمان کی عظمت و اہمیت کو پیوست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر اس دور میں بچے کا دینی مزاج بن گیا تو زندگی کے ہر موڑ پر وہ دین کا دامن تھامے رکھے گا، کسی بھی موقع پر اس کا رشتہ دین سے کٹا ہوا نہیں رہے گا۔
اسی طرح جہاں اس بات کی فکر ضروری ہے کہ ہمارے بچے مکاتب سے جڑیں وہیں اس کی بھی بھر پور کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے مکاتب صرف رسمی انداز کے نہ ہوں ؛ بلکہ اس کا دس سالہ کورس ہو ، جس میں ناظرہ قرآن ، حفظ منتخب آیات و احادیث کے ترجمے ، عبادات و معاملات اور شخصی زندگی سے متعلق ضروری احکام، نیز رسول للہ ﷺ اور انبیاء کرام کی سیرت اور تاریخ ہند جیسے اہم مضامین شامل نصاب ہوں اور ان کی باضابطہ تعلیم ہوا کرے، اُردو زبان بھی اس نصاب کا ایک اہم جزو ہو اور ان طلبہ و طالبات کو اچھی طرح اُردو لکھنا اور پڑھنا آجائے؛ تاکہ وہ اپنے اسلاف کے علمی ورثہ سے جڑے رہیں، علماء کو ان کاعلم، مشائخ کو ان کی دینی نسبت اور دعوتی کام کرنے والوں کو ان کی دعوتی وابستگی انھیں اپنے بچوں کی طرف سے بے پرواہ نہ کر دے اور یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ ہماری یہ دینی وابستگی لازمی طور پر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی دین سے مربوط رکھے گی ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبروں کے اُسوہ کو یاد رکھیں کہ پورا خاندان نبوت کے نور سے منور ہے، اس کے باوجود انھیں اپنی وفات کے وقت یہی فکر دامن گیر ہے کہ ہماری اولاد دین پر قائم رہے گی یا نہیں؟ ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے؟ اور کیا ہم نے بھی کبھی اپنی اولاد سے استفسار کیا ہے : مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى : اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے امت کے نونہالوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور تمام دجالی فتنوں سے انہیں اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین یا رب العالمین
؟؟
وآخر دعوانا ان الحمد الله رب العالمين
✩…………..✩
ہر ہفتہ خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پستہ ارسال کریں 8830665690
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ