ختم سحری کا آخری وقت

ختم سحری کا آخری وقت کونسا ہے؟

سحری ختم کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے لوگ لاعلمی کےشکار ہیں اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ وہ زندگی بھر غلطی میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس غلطی کی وجہ سے ان کے روزے درست ہی نہیں ہوتے۔ ظاہرسی بات ہے اوریہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص روزے رکھتا رہے لیکن اس کی اپنی ہی غلطیوں کے نتیجے میں اس کے یہ روزے شریعت کی نگاہ میں درست نہ ہوں۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے سے بھی آگاہی حاصل کرے تاکہ وہ غلطی سے محفوظ ہوسکے۔ تو آیئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ ہوسکے۔

((سحری کا وقت رات ہی ہے))

قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سحری کا وقت رات ہی ہے جب تک رات ہے تب تک سحری کی جاسکتی ہے، لیکن جیسے ہی رات ختم ہوجائے تو سحری کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے، اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ صبح صادق ہوتے ہی رات ختم ہوجاتی ہے اور دن شروع ہوجاتا ہے۔اس بات کو قرآن وسنت اور دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سحری اور افطاری سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ.(سورۃ البقرۃ آیت: 187)
ترجمہ: اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو۔(آسان ترجمہ قرآن مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی)
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے رات کو سیاہ دھاگے، جبکہ صبح صادق کو سفید دھاگے سے تشبیہ دی ہےاور کھانے پینے کی آخری حد بھی بیان فرمادی ہے کہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجائے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کھانا پینا رات ہی کو درست ہے، اور جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔ اس آیت سے سحری کا آخری وقت بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے،اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ سحری بند کرنے کا تعلق صبح صادق کے ساتھ ہے نہ کہ اذان کے ساتھ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اذان بھلے نہ ہوئی ہو لیکن صبح صادق ہوچکی ہو تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

((سحری کھانے کا آخری وقت ))
حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ: اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط، اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا، اور اس میں اِفراط وتفریط کے اِحتمالات کو ختم کرنے کے لیے ’’حَتّٰى يَتَبَيَّنَ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو ، بلکہ کھانے پینے اور روزہ کے درمیان حدِّ فاصل صبح صادق کا تیقُّن ہے، اس تیقُّن سے پہلےکھانے پینےکو حرام سمجھنا درست نہیں، اور تیقُّن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لیے مُفسِد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لیے ہو۔سحری کھانے میں وُسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو۔ بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہے، یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لیےکہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔
(معارف القرآن مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ
)
2۔ خود نبی کریم ﷺ نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی ہے جبکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی روشنی ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
صحيح البخاري:
4510: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ؟ أَهُمَا الْخَيْطَانِ؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ»، ثُمَّ قَالَ: «لَا، بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».صحيح مسلم:
2585: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَديِّ بْنِ حَاتِمٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: «حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ: عِقَالاً أَبْيَضَ وَعِقَالاً أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».
3۔ اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات اور سفید دھاگے سے مراد دن ہے۔
2587: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِي وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا أَبُوْ غَسَّانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ» قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الأَسْوَدَ وَالْخَيْطَ الأَبْيَضَ فَلاَ يَزَالُ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رِئْيُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللهُ بَعْدَ ذَلِكَ «مِنَ الْفَجْرِ» فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.
اس آیت اور احادیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ سحری بند کرنے کا صحیح وقت رات کو ہے نہ کہ دن کو۔

4۔ اس آیت کو امت کے جمہور اہلِ علم نے ایک متفقہ اصول قرار دیا ہے، اور یہی جمہور اہلِ علم کا مذہب ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق رات سے ہے نہ کہ دن سے، اور صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وذهب الجمهور إلى امتناع السحور بطلوع الفجر وهو قول الأئمة الأربعة وعامة فقهاء الأمصار.
کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، یہی چاروں ائمہ کرام اور دیگر فقہائے عظام کا مذہب ہے۔(حاشیۃ ابن القیم علی سنن ابی داود)
5۔ سورۃ البقرہ کی اسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ. (سورۃ البقرۃ آیت: 187)
ترجمہ: تمھارے لیے روزے کی رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ ہمبستری جائز قرار دی گئی ہے۔
اس آیت میں جب اللہ نے روزے کی رات کو بیوی کے ساتھ ہمبستری کی اجازت دی ہے توگویا کہ کھانے پینے کی اجازت بھی رات ہی کو ہے، جیسا کہ دن کو ہمبستری کی اجازت نہیں دی اسی طرح کھانے پینے کی اجازت بھی نہیں ہے، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ رات صبح صادق تک ہی ہوتی ہے، صبح صادق کے بعد تو دن شروع ہوجاتا ہے۔
6۔ روزہ درحقیقت صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والے امور سے بچنے کا نام ہے۔(رد المحتار) اس لیے صبح صادق ہوتے ہی روزہ شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص صبح صادق ہوجانے کے بعد کچھ کھاتا پیتا ہے تو وہ درحقیقت دن ہی کو کھاتا پیتا ہےحالاں کہ دن روزے کے لیے ہے نہ کہ کھانے پینے کے لیے، تو گویا کہ روزے کی حقیقت اور تعریف اس میں نہیں پائی گئی تو یہ روزہ ہوا ہی نہیں۔
7۔ شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
صبح صادق کے بعد اگر ایک منٹ بھی مزید کھا لیا تو روزہ فاسد ہے۔(فتاویٰ عثمانی 2/188)

فقط واللہ اعلم
محمدمرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
12 اپریل 2021 بروز پیر

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top