حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا ملک ہندوستان ہو یا دیگر پڑوس ممالک ،ہر جگہ صحیح لیڈر شپ کا فقدان ہے ،جو ان ملکوں کے لئے سب سے بڑا المیہ ہے۔ آج ملک کی قیادت کرنے والے لیڈران کے گفتار و کردار میں واضح اور نمایاں فرق ہے ،کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ،عوام جب اپنے قائدین اور لیڈران کو اس پوزیشن میں دیکھتے ہیں تو ان کی نظر سے ان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور وہ انہیں کسی طرح قابل اعتماد اور لائق قیادت نہیں سمجھتے ۔ اکثر ملکوں کا حال یہی ہے ، البتہ بہت سے ممالک آج بھی ہیں ،جہاں لیڈران اور قائدین عوام کی امیدوں پر کھرے اترتے ہیں اور وہ اپنی حیثیت اور مقام بنا کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔
ذیل میں ہم جواہر لعل نہرو کی زندگی کی ایک تصویر اور جھلک پیش کر رہے ہیں ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحیح لیڈر اور نیتا و قائد بننے کے لیے عیش و عشرت اور راحت کو تج کرنا پڑتا ہے،اور بغیر مسائل اور مشکلات کو جھیلے اور راحت و آرام کو چھوڑے انسان صحیح قیادت کا خواب نہیں دیکھ سکتا ۔ ذیل کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تحریر کو ہم حاصل مطالعہ کے عنوان سے پیش کر رہے ہیں ۔
م۔ ق ۔ ن
جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے…
لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے…
والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو ان نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ, کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی، جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ، بھی بند کر دیا گیا…
جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے…
بیٹے نے پوچھا آپ مجھ سے خفا ہیں…؟
موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا :
*میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا*
چھوٹے نہرو نے پوچھا؛
پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا..؟
والد نے بیٹے سے کہا ؛
صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں, جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں, دوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں…
تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے…
*تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو, تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا*
میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے…!!
چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں… جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا…
*ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے*
پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں، ان کا گلوبل ایکسپوژر بھی ہوتا ہے اور یہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں..
یہ پعام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے…
ہم *ڈرٹی پالیٹکس* کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں…
*ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف، سٹائل اور ان کی شخصیت ان کی باتوں سے میچ نہیں کرتی*
ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے، کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے تمام وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما نہیں ہوسکتے…
*اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہے*
جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے لیکن دنیا بھر میں کروڑوں ہی لوگوں کو اپنے کردار سے اپنا گرویدہ بنا لے… باراک اوباما کی طرح صدارت سے فارغ ہو کر کرایہ کا مکان ڈھونڈتا پھرے…
آج کے سیاست داں اور بالخصوص غلامانہ ذہنیت والوں سے یہ توقع عبث ہے… نام نہاد لیڈر مہنگے ترین امریکن برانڈ پہن کر امریکی غلامی سے نجات دلانے کی بات کرتا ھے ، ہماری قسمت میں لیڈر نہیں دھندے والے لوگ ہیں ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ