السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت حسینؓ سے یزید نے صرف ایک ووٹ مانگا تھا۔ حضرت حسینؓ نے پورا خاندان شہید کروادیا مگر غلط بندے کو ووٹ نہیں دیا۔
اس طرح کی دلیل دے کر یہ کہنا کہ ووٹ دینا ایک جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ اس لیے ووٹ نہ دیں۔ ہم صرف اسلامی نظام کو قبول کریں گے۔
یہ کتنا درست ہے ؟؟؟
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہندوستان کے تناظر میں دونوں باتیں بالکل غلط ہیں۔ یہ کوئی سنجیدہ یا علمی استدلال نہیں ہے بلکہ سماجی ذرائع ابلاغ کی، حماقت اور جہالت والی پوسٹ ہے جو قابل اعتنا نہیں ہے۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ اس طرح کی پوسٹ سے کچھ سنجیدہ افراد بھی متاثر ہوکر ووٹ اور جمہوریت کے متعلق طرح طرح کے شبہات میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ اس عنوان پر کچھ معروضات پیش کردی جائیں۔
ووٹ کو بیعت حسینؓ پر قیاس کرنا جہالت کی اعلی مثال ہے۔ بیعت حسینؓ اور ووٹ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ بیعت ایک شرعی حکم ہے اور جس کے لیے بیعت کیا جاتاہے اس کا عہدہ یعنی امیر المومنین یا خلیفۃ المسلمین کا عہدہ بھی ایک شرعی عہدہ ہے۔ جبکہ جمہوری نظام کے ووٹ کا عمل نہ تو شرعی عمل ہے نہ ہی جس کے لیے ووٹ لیا جاتا ہے مثلا ایم ایل اے ایم پی وغیرہ کا عہدہ شرعی عہدہ ہے۔ اس لیے ووٹ کو بیعت پر قیاس کرنا اور ایم ایل اے یا ایم پی کو اسلامی امیر پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق اور صد فیصد غلط ہے۔
جمہوری حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے۔ لیکن مطلقا اور کلیتا اسلام کے خلاف بھی نہیں ہے۔ جمہوریت کاحکم صورتِ حال کے مختلف ہونے کے سبب الگ الگ ہوسکتاہے۔
جہاں مسلمان کثرت اور قوت میں ہوں وہاں اسلامی نظام حکومت کو در کنار کرکے جمہوری نظام حکومت قائم کرنے پر عدم جواز کا حکم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جمہوریت کو یک لخت ٹھکرا کر اسلامی نظام قائم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں مسلمان کثرت یا قوت میں نہ ہوں نہ ان کے پاس اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے کوئی زمین ہو تو ان کے لیے غیرمسلم حکومت کے زیر انتظام جینے کے علاوہ دوسری کوئی صورت نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمان نہ توکثرت میں ہیں نہ ہی قوت میں۔ لہذا یہاں کے تناظر میں جمہوری حکومت اور اس کی تائید کا حکم الگ ہوگا۔ اور یہاں بات ہندوستان ہی کے تناظر میں ہوگی۔ کسی ایسے ملک کی صورت حال سے یہاں بحث نہیں ہوگی جہاں مسلمان کثرت یا قوت میں ہوں۔
ہندوستان میں بلا واسطہ حکومت کا قیام عملی طور پر مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں۔ لہذا یہاں مسلمان غیرمسلم اکثریت کے قائم کردہ حکومتی نظام کے زیر انتظام رہنے پر مجبور ہیں۔ اور غیرمسلم اکثریت نے ہندوستان میں جمہوری نظام حکومت قائم کیاہے۔ جمہوریت اپنی اصلیت اور حقیقت کے اعتبار سے مذہب مخالف نہیں بلکہ اکثریتی رائے کے تابع حکومت ہوتی ہے۔ جس میں مطلق العنانیت نہیں ہوتی۔ لہذا ہندوستان کو دارالحرب نہیں کہا جاسکتا۔ نہ ہی ہندوستان کی جمہوری نظام حکومت پر دارالحرب کی شرعی تعریف صادق آتی ہے۔ ہندوستان کے تمام علما کی یہ متفقہ رائے ہے۔
جمہوریت کے مخالفین کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ کے نظام کے خلاف جمہوری نظام قائم کرنا، اللہ کے قانون کے خلاف انسان کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔ اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ جمہوریت مطلقا کلی طور پر اسلام کے خلاف ہو ایسا لازمی اور یقینی نہیں ہے۔ جمہوریت اپنی اصل اور روح کے اعتبار سے مذہب میں عدم مداخلت کے اصول پر کار فرما ہوتی ہے۔جمہوریت میں (اگر مسلمانوں کا مضبوط اشتراک ہو اور اپنی جمہوری طاقت جسے ایم ایل اے اور ایم پی کی طاقت بھی کہاجاتاہے؛ کے سبب نظام حکومت میں مسلمانوں کی مداخلت مشکل نہ ہو تو ) مکمل اسلامی مذہبی آزادی ہوسکتی ہے ایسا بالکل ممکن ہے۔ اور جب جمہوریت میں اسلامی مذہبی آزادی ممکن ہے تو اسے مطلقا اسلام مخالف طرز حکومت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس طرز استدلال اور دلیل کی تائید آزادئ ہند اور تقسیم ہند کے وقت موجود تمام علمائے کرام کے فیصلے سے ہوتی ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہند میں مسلمان جمہوریت کے مؤیدین ہیں نہ کہ بانیین۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں جمہوری حکومت نہیں بنائی لہذا ہندی مسلمانوں پر اس الزام کی جواب دہی لازم نہیں ہے کہ انھوں نے اسلامی نظام حکومت کے خلاف جمہوری نظام قائم کیا ہے۔ البتہ جمہوری نظام حکومت کی تائید مسلمانوں کا ایسا عمل ہے جس کے بغیر ان کے پاس چارۂ کار نہیں۔ ووٹ دہی کے ذریعہ ہندی مسلمان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت باقی رہے۔ ہندوستان دارالحرب نہ بن جائے۔ یہ اہون البلیتین ہے جسے ہندی مسلمانوں نے اختیار کررکھا ہے۔ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کو دارالاسلام نہیں بنا سکتے۔ لیکن دارالحرب بننے سے روک سکتے ہیں۔ اور ہندوستان کو دارالحرب بننے سے روکنے کی کوشش ووٹ ڈالنا اور ووٹ کا درست استعمال کرنا ہے۔
اگر ہندوستان دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیانی حالت والا ملک رہے گا تو مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کا امکان قوی ہوگا۔ اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے جو خارجی چیز مؤثر اور سبب ہو اس کو اپنانا لازم و ضروری ہے۔ ووٹ کو خارجی اس لیے کہا کیونکہ ووٹ کا حکم یعنی ایم ایل اے اور ایم پی چننے کا حکم نہ تو شرعی ہے اور نہ منصوص ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے اپنے دین و ایمان کا تحفظ اور مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کا حصول شرعا واجب ہے۔ اور جو چیز اِس شرعی واجب کے حصول کا ذریعہ اور سبب ہو وہ بھی واجب لغیرہ کے درجے میں ہے۔ اور وہ چیز ہندوستان میں ووٹ اور رائے دہی کا درست استعمال اور مناسب ایم ایل اے و ایم پی چننے کا عمل ہے۔جس ایم ایل اے اور ایم پی کے تعلق سے مسلمانوں کو غالب گمان ہو کہ اس کے انتخاب سے مسلمانوں کے لیے اپنے دین و شریعت پر عمل کرنا آسان ہوگا اس ایم ایل اے و ایم پی کے حق میں ووٹ دینا واجب لغیرہ ہے۔
بعض حضرات نے ووٹ کی اہمیت بیان کرنے میں حقیقی صورت بیان کرنے کے بجائے مذہب کا سہارا لیتے ہوئے ووٹ کو شہادت قرار دیا۔ اور شہادت بھی وہ جس کا حکم قرآن میں ولا تکتموا الشہادۃ کے ذریعے دیا گیا ہے۔ حالانکہ ووٹ کو شریعت سے جوڑکر شہادت اور گواہی کے درجے تک پہنچادینا اور اس کی دلیل کے طور پر ولاتکتموا الشہادۃ کو پیش کرنا بندے کے نزدیک کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ شہادت کسی امر واقعی کی گواہی دینے کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ ووٹ دینے میں کسی امر واقعی کی شہادت نہیں ہوتی بلکہ ووٹ محض ایک رائے اور اپنی صوابدید کے اظہار کے سوا اور کچھ نہیں۔ رائے زنی اور اظہار خیال کو شہادت قرار دینا کسی بھی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہوسکتا۔ ووٹ کو شہادت قرار دینے سے مخالفین کو یہ شبہ ہوگیا کہ ووٹ کا مطلب ہے امیدوار کے کردار اس کے اعمال اور اس کے نیک ہونے کی گواہی دینا۔ جبکہ اکثر امیدوار بد عنوان، جھوٹے، فاسق و فاجر اور کافر بھی ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے حق میں ووٹ دینا جھوٹی گواہی دینا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ ووٹ کی حیثیت کی غلط تفہیم ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا کہ شہادت کسی امر واقعی کی گواہی دینے کو کہا جاتا ہے۔ ووٹ کے عمل میں ایم ایل اے یا ایم پی کے کردار و اعمال یا ان کے اخلاق و افعال کی گواہی قطعا نہیں دی جاتی کہ ووٹ دینے کو جھوٹی گواہی قرار دیا جائے۔ بلکہ ووٹ دے کر فقط اتنی رائے زنی کی جاتی ہے کہ فلاں شخص کو ایم ایل اے یا ایم پی بنانے کی میں رائے دیتا ہوں۔ کسی بد ترین شخص کے حق میں اس لیے رائے دینا کہ وہ اگر برسر اقتدار ہو تو مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کا امکان قوی ہوجائیگا اور شریعت پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ملے گی۔ یہ اس بدترین شخص کے بہترین ہونے کی گواہی نہیں ہے کہ ووٹ دینے کو جھوٹی گواہی قرار دیا جائے۔
اسی طرح غلط فہمی کے طور پر کچھ لوگ جمہوریت کو مطلقا کفریہ نظام قرار دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ جمہوریت مسلمانوں کا نظام حکومت نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کا اپنے دین و شریعت پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کی شرط کے ساتھ انسانی نظام حکومت کو تسلیم کرلینے کا نام جمہوریت ہے۔ اور جہاں مسلمان اسلامی نظام حکومت قائم کرنے پر قادر نہ ہوں وہاں جمہوری نظام حکومت کو تسلیم کرلینا جائز ہے۔ اور جمہوری نظام حکومت میں اپنے دین و شریعت پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کی شرط کو منوانے کے لیے ووٹ کا استعمال لازم و ضروری ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سمندر میں تین کشتیاں ہوں۔ ایک مسلمانوں کی کشتی۔ وہ دارالاسلام ہے۔ جو مسلمان اس کشتی سے دور رہ گئے اس کشتی میں سوار ہونا ان کی استطاعت میں نہیں ہے ان کے لیے اب دو کشتیاں رہ گئی ہیں۔ دوسری کشتی جن لوگوں کی ہے ان کا ملاح مسلمانوں کو سوار کرانے پر تیار ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنی شریعت پر عمل نہیں کر سکتے۔ یہ کشتی دارالحرب ہے۔ تیسری کشتی ملے جلے لوگوں کی ہے یعنی کفار و ملحدین اور سیکولر لوگوں کی۔ اس کشتی میں سوار ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو اور مسلمان اس کشتی میں طوعا و کرہا سوار ہوجائیں۔ اب اس کشتی میں سوار ہونے والے مسلمانوں کے سامنے دو طرح کے ملاح ہیں۔ ایک ایسا ملاح جو مسلمانوں کو کشتی میں نماز روزے اور دیگر عبادات کی اجازت نہیں دیگا۔ دوسرا وہ ملاح ہے جو مسلمانوں کو نماز روزہ اور تمام عبادات کی اجازت دیگا۔ اور کشتی کا ملاح کون بنے گا اس کا فیصلہ اہل کشتی کے ووٹ سے طے ہوتا ہے۔ اب اس کشتی کے تمام مسافرین سے اگر ووٹ لیا جائے کہ کس کو کشتی کا ملاح بنایا جائے تو مسلمانوں کے لیے اپنے دین و ایمان کے تحفظ اور مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کے حصول کی خاطرسیکولر ملاح کو ووٹ دینا لازم و واجب ہے۔
یہاں اگر کوئی کج فہم یہ کہے کہ کافر یا بد دین ملاح کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے کیونکہ وہ ملاح تو بد دین یا کافر ہے۔ میں اسے ووٹ دے کر گویا اس کے حق پرست، دین دار اور نیک ہونے کی جھوٹی گواہی دونگا اور یہ ناجائز ہے۔ اس لیے میں ووٹ نہیں دونگا۔ ایسے کج فہم اور لچر دلیل دینے والے کی بات مان کر اگر کشتی کے مسلمان سیکولر ملاح کو ووٹ نہ دیں تو نتیجتا ظالم و جابر امیدوار کشتی کا ملاح بن جائیگا۔ پھر وہ مسلمانوں کو ان کی عبادتوں سے روکے گا جس سے مسلمانوں کا دین و ایمان محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
الغرض ووٹ گواہی ہے ہی نہیں کہ اس کے ثبوت کے لیے ولا تکتموا الشہادۃ والی آیت کو بطور دلیل پیش کی جائے۔ اور جب ووٹ شہادت ہی نہیں ہے تو اس پر جھوٹی یا سچی ہونے کا حکم لگانا بھی باطل ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ مسلمانوں کے لیے اپنے دین و شریعت پر چلنے کی آزادی حاصل کرنے کی خاطر ووٹ ایک خارجی اور لازمی چیز ہے۔ اس کو شہادت کہنا اور مخالفین کا یہ کہنا کہ جو ایم ایل اے ہندو ہو، لٹیرا ہو، کرپٹ ہو، بے ایمان ہو، یا مسلم فاسق ہو، شرابی ہو، غنڈا بدمعاش ہو اس کے حق میں ووٹ دینا گویا جھوٹی گواہی دینا ہے، قطعا درست نہیں۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کا اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے، اپنی مذہبی آزادی کے حصول کے لیے ووٹ کا استعمال کرنا واجب لغیرہ ہے۔
واللہ اعلم
راقم: محمدامام الدین قاسمی
صدر مفتی دارالافتاء المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
https://telegram.me/Almasailush_Shariyya