مولانا محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ
انسان کو اللہ کی طرف جو کچھ ملا ہے اگر وہ اس پر ،مطمئن اور قانع ہے، یعنی اس پر خوش اور راضی ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ،تو اس کو قناعت کہا جاتا ہے، یہ بہت پسندیدہ اور محبوب عمل ہے اور جس شخص کے اندر قناعت کا وصف پیدا ہوجاتا ہے، وہ کبھی ذہنی تناؤ الجھن اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی کی زر ،زمین، دولت ،مال ،عہدہ ،منصب اور حسن و جمال سے متاثر ہوتا ہے، وہ ہمیشہ خوش و خرم نظر آتا ہے ،ناامیدی اور یاس و قنوط کی باتیں نہیں کرتا، وہ شخص مثبت سوچ اور فکر کا حامل ہوتا ہے،حدیث شریف میں قناعت پسند انسان کی بڑی تعریف آئی ہے ۔ قناعت کے برعکس اور متضاد لفظ حرص ہے ،جس کے معنی لالچ کے ہیں، یہ ایک منفی وصف ہے اور لالچی و حریص آدمی کبھی اپنی نعمت اور اپنے حصے پر راضی اور خوش نظر نہیں آتا ،ہمیشہ بے چین اور پریشان رہتا ہے، اس کی نظر ہر وقت مال کی محبت اور دنیا کے زیادہ سے زیادہ حصول پر رہتی ہے اور روزی چونکہ مقسوم ہے ،جب اس کو اس کی چاہت کے مطابق دولت اور مال و زر نہیں ملتا، تو اور زیادہ پریشان،غیر مطمئن ،بے قل، بے چین اور مضطرب نظر آتا ہے اور ایسا شخص اکثر ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ نے جو دیا ہے اور جتنا دیا ہے،انسان اس پر راضی رہے، صبر و قناعت سے کام لے اور خدا کا شکر بجا لائے، جب وہ ایسا کرے گا، تو اللہ تعالیٰ شکر کی بجا آوری پر مزید نعمت سے نوازے گا اور اگر ناشکری کرے گا اور حرص و طمع میں پڑا رہے گا اور خدا کی نعمت پر قناعت اور شکر گزاری سے کام نہیں لے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے نعمتوں کو چھین بھی سکتا ہے ۔
خوشگوار اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے مال و دولت کی کثرت کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ شکر گزار دل اور قناعت پسند دل کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ورنہ انسان لاکھوں روپیے ،عہدہ و منصب ، دولت و ثروت اور مال و زر کی کثرت کے باوجود قناعت پسند اور شکر گزاریدل نہ ہونے کی وجہ سے پریشان نظر آتا ہے اور دنیا مزید پانے کے لیے ہاہے ہائے کرتا نظر آتا ہے ،ہمیشہ مقروض رہتا ہے، یا اپنے کو مقروض دکھاتا ہے، یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ حریص اور دنیا پرست آدمی کو دینی، ملی، معاشرتی ، سماجی اور فلاحی کام کرنے کی توفیق کم ملتی ہے، کیونکہ وہ دنیا کی بے جا طلب اور حرص کی وجہ سے اس کام کے لیے وہ اپنے کو کبھی فارغ ہی نہیں کرتا اور نہ ان کاموں سے ان کو دلچسپی ہوتی ہے ۔
اس لئے اس کو سماج میں شہرت،مقام ،عزت اور نیک نامی کم ملتی ہے اور جب دنیا دار اور حریص آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ عہدہ مال و دولت اور منصب کے بعد بھی مجھے سماج میں عزت نہیں مل رہی ہے تو وہ اور زیادہ پریشان ہوجاتا ہے اور اس آدمی کا حریف بن جاتا ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ نے قومی اور ملی خدمت کے لیے منتخب کرلیا ہے ۔
ہم یہاں ایک واقعہ پیش کرتے ہیں کہ جس کو ہم بظاہر دولت و حشمت کی وجہ سے خوش و خرم سمجھتے ہیں وہ اندر سے ہم سے زیادہ پریشان اور بے چین نظر آتا ہےاور ایسے لوگ ہم جیسوں پر رشک کرتے ہیں ۔۔
پاکستان کے ڈاکٹر جاوید نے لکها ہے کہ وه امریکہ گیے- وہاں وه ایک کروڑ پتی سے ملے- کروڑ پتی نے ان کو اپنے ایک خاص مکان میں ملاقات کے لیے بلایا- یہ مکان سمندر کے کنارے بنا ہؤا تها- جدید طرز کا وسیع مکان، اس کے آگے شاندار لان، اس کے آگے حد نظر تک پهیلی ہوئی سمندر کی لہریں- چاروں طرف عیش اور خوبصورتی کے مناظر – اس ماحول میں مہمان اور میزبان دونوں مکان کے سامنے لان میں کرسیوں پر بیٹهے هوئے تهے-
ڈاکٹر جاوید کہتے ہیں کہ میں اس ماحول میں گم تها- مجهے ایسا معلوم هو رہا تها کہ میں جنت کی دنیا میں بیٹها هوا هوں- مجهہ پر محویت کا عالم طاری تها- امریکی کروڑ پتی بهی چپ چاپ کسی سوچ میں مبتلا تها- اچانک امریکی نے میری طرف مخاطب هوتے هوئے کہا : مسٹر جاوید، میں چاہتا هوں کہ امریکہ کو چهوڑ کر پاکستان چلا جاوں اور زندگی کے بقیہ دن وہیں گزاروں-
” کیوں” ڈاکٹر جاوید نے حیرت کے ساتھ پوچها –
"یہ سب چیزیں مجهے کاٹتی ہیں- مجهے ایک منٹ کے لیے بهی سکون حاصل نہیں”
یہ واقعہ دنیا کی حقیقت کو بتا رہا ہے- دنیا کا حال یہ ہے کہ جو شخص پائے هوئے نہ هو وه سمجهتا ہے کہ پانے کا نام خوشی ہے- مگر جو شخص پالے وه محسوس کرتا ہے کہ پاکر بهی اسے خوشی حاصل نہیں هوئی- سب کچهہ پا کر بهی اس نے خوشی کو نہیں پایا-
حقیقت یہ ہے کہ زندگی نام ہے چاہی هوئی چیز کو نہ پانے کا- جو لوگ اس راز کو جان لیں وه نہ ملنے پر بهی اس طرح مطمئن رہتے ہیں جیسے کہ انهوں نے سب کچهہ پالیا هو- اور جو لوگ اس راز کو نہ جانیں وه ہمیشہ اپنی چاہی هوئی چیز کو پانے کا خواب دیکهتے رہتے ہیں اور کبهی بهی اس کو نہیں پاتے- کیونکہ پانے کے بعد جلد ہی محسوس هوتا ہے کہ یہ وه چیز نہیں جس کو انهوں نے پانا چاہا تها- وه ایک نہ ملنے والی چیز کے غم میں پڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جاتے ہیں-
مذہب کی اصطلاح میں پہلی چیز کا نام قناعت ہے اور دوسری چیز کا نام حرص- انهیں دو لفظوں میں زندگی کی ساری کہانی چهپی هوئی ہے-
(۔۔..مستفاد از حکمت اسلام۔۔..)
نوٹ/ اگر تحریر پسند آئے تو دوسروں کو بھی پوسٹ کریں ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ