حضرت مولانا محمد قمر الزماں صاحب ندوی
آج سے پہلے ہںندوستان کی، دنیا کے نقشہ میں ایک اچھی تصویر اور شبیہ تھی ،اس ملک کو قومی یکجہتی اور جمہوریت کا نمائندہ اور علمبردار سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں کی تکثیری سماج اور اس کی خوبی و رعنائی کے گیت گائے جاتے تھے اور اس کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت پوری دنیا کے لیے نمونئہ عمل تھا ، ہندؤ مسلم سکھ اور عیسائی مل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شرکت کرتے تھے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے ۔ تجارت و معیشت کے اعتبار سے بھی یہ ملک بہت حد تک خود کفیل تھا اور اس کی معیشت اتنی مضبوط تھی کہ انگریز نے اس ملک کو اپنی تجارت کا مرکز بنا لیا تھا ۔ لیکن اس وقت کی ملک کی تصویر بدل چکی ہے اور دنیا کے سامنے اس تکثیری سماج والے ملک کی شبیہ بگڑ کر رہ گئی ہے اور اب جو تصویر دنیا کے سامنے ابھر کر آرہی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ملک دن بدن زوال پستی، نفرت و شدت اور انحطاط و تنزلی کی طرف جارہا ہے اور اس کی چمک دمک اور شانتی، پریم و بھائی چارہ میں کمی آرہی ہے ، موجودہ برسر اقتدار حکومت کے کارکنان اور کارندے اپنی ہوس رانیوں کی خاطر جانوروں سے بھی بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ تعمیر و ترقی کی جانب توجہ مبذول کرنے کے بجائے مذہب کی سیاست کرکے ہندؤ مسلم دوری پیدا کرکےاور مذہب کو آڑ بنا کر نفرت و عداوت کی فضا قائم کرنے اور امن و سلامتی کو غارت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مانوتا اور انسانیت کی دھجی اڑا رہے ہے، ملک کو ہندو مسلم کے خانے میں بانٹ رہے ہیں۔
مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی نے ایک موقع پر بین المذاھب کانفرنس کی روداد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ،، دنیا کے جتنے مذاہب ہیں سب پیار و محبت اور امن و شانتی کے پیامبر ہیں ،کوئی بھی مذہب نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا ، لیکن کچھ فرقہ پرست عناصر اور ارباب اقتدار مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اقتدار کے نشے میں نفرت پھیلاتے ہیں اور آگ لگانے کا کام کرتے ہیں پھر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں ،،
اس وقت ملک ہندوستان کی موجودہ صورت حال یہی ہے ، ارباب سیاست نے مذہب کی آڑ میں اقلیتی طبقوں خصوصا مسلمانوں کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ،ملک میں نفرت و عداوت اور ہندؤ مسلم بیزاری پھیلانے کے لیے ایسی حرکتیں کی جارہی ہیں، جسے سن کر کان کے پردے پھٹ جائیں ، آنکھیں پتھرا جائیں اور کلیجہ منھ کو آجائے ۔ جب کہ برسرِ اقتدار حکمراں جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں برابری ،مساوات قائم رکھے ،مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہ ہونے دے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کو عملی جامہ پہنائے ، لیکن افسوس کہ ملک زوال اور تنزلی کی طرف جارہا ہے ،امن و شانتی کی جگہ نفرت اور دوری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور حکومت اپنی ذمے داری سے غفلت برت رہی ہے ، مدھیہ پردیش میں پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ہندوستان کی جمہوریت پر بدنما داغ ہے ۔ اس سے ملک کی شبیہ پوری دنیا میں خراب ہوئی ہے اور اس سے پہلے بنگال و اتراکھنڈ میں جو واقعہ پیش آیا اس نے تو اور ملک کو بدنام کردیا اور ملک کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا لوگ اپنے بچوں کی حفاظت کے تئیں فکر مند ہیں تو دوسری طرف مسلمان اپنے آپ کو اس ملک میں ڈرا اور ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں کہ کب ان پر حکومت کی بجلی گر جائے اور کوئی بہانہ بنا کر اس کے مکانات کو منہدم اور زمیں بوس کردیا جائے ۔۔
لیکن دوسری طرف خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ ملک کے عوام اب اس ظلم کے خلاف بولنے لگے ہیں اور حق بات کہنا شروع کر دئیے ہیں ۔
شکیل رشید نے اپنے اتواریہ آرٹیکل میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔
لوگ اب جاگنے لگے ہیں ۔ مُلک میں بلڈوزروں کے ذریعے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جو غیر آئینی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، لوگوں کی زبانیں ان کے خلاف کھلنے لگی ہیں ۔ عام مسلمانوں کے ساتھ انصاف پسند ، سیکولر ہندو بھی اب بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف بولنے لگا ہے ۔ سنیچر کے روز ملک میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے اور کانگریس کی بے خوف آواز پرینکا گاندھی نے بھی ، بلڈوزروں کے ذریعے غیر آئینی کارروائیوں کے خلاف زبان کھولی ہے ، دونوں نے کہا ہے کہ بلڈوزروں کے ذریعے غیر آئینی انہدامی کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں ۔ کانگریس کے ایک رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے جہاں بلڈوزر کارروائیوں کی مذمت کی ہے ، وہیں یہ بھی کہا ہے کہ وہ جلد ہی اس تعلق سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ یہ آوازیں اگر اور پہلے اُٹھتیں تو شاید یوپی ، ایم پی ، آسام اور اتراکھنڈ وغیرہ میں بہت سارے غریبوں کے ٹھکانے منہدم ہونے سے بچ جاتے ، لیکن دیر سے سہی آوازوں کا اُٹھنا ضروری تھا ، اس کے لیے ان سب کا ، جنہوں نے آوازیں اُٹھائی ہیں ، شکریہ ضروری ہے ۔ مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں جس طرح سے مسلمانوں کی کوٹھیوں اور مکانوں کو بلڈوزروں سے منہدم کیا گیا ، وہ اس ملک کے فرقہ پرستوں کے ’ سیاہ کارتوتوں ‘ میں سے ایک ہے ۔ بلڈوزر اب مسجدوں پر چلنے لگے ہیں ، مدرسوں پر چلنے لگے ہیں اور مسلم آثاروں پر چلنے لگے ہیں ۔ مدھیہ پردیش میں تو موہن یادو کی حکومت نے ساری حدیں پار کردی ہیں ، انہوں نے نہ صرف کوٹھیوں اور مکانوں کو ڈھایا بلکہ مہنگی کاروں پر بھی بلڈوزر چڑھا دیا ! یہ اجازت کسی وزیراعلیٰ کو کس قانون نے دی ہے کہ وہ بغیر تفتیش کرائے ، اور بغیر کسی جرم کے ثابت ہوئے کسی کے بھی مکان کو ڈھا دے ؟ یہ آمریت ہے ، یہ ہٹلر شاہی ہے ، یہ درندگی ہے ، اور یہ بزدلی بھی ہے ۔ میں کئی روز سے یہ لکھتا آ رہا ہوں کہ مدھیہ پردیش میں جو ہوا ہے ، اس جانب مسلم تنظیموں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے اور ضرورت ہے بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کی ۔ احتجاج مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں بھی ہونا چاہیے اور چھتر پور میں بھی ، اور بے خوف احتجاج ہونا چاہیے ۔ ایسا احتجاج جو موہن یادو کو یہ احساس دلا دے کہ مسلمان نہ بزدل ہیں اور نہ ڈرپوک ، انہیں اس ملک کا آئین احتجاج کا حق دیتا ہے ، اور وہ ہر حال میں احتجاج کریں گے ۔ آواز اٹھنی چاہیے کہ موہن یادو کو ہٹایا جائے ، یہ شخص حکومت کرنے کا اہل نہیں ہے ، یہ ملک کے آئین اور قوانین سے کھلواڑ کرتا ہے ، یہ متعصب ہے ، اس کے دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت ہے ، یہ اسلامو فوبک ہے اور یہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کا دشمن ہے ۔ ایک بات کہنا ضروری ہے ، لوگ آوازیں اٹھا رہے ہیں ، لیکن ہماری جماعتیں ، تنظیمیں اور ادارے خاموش ہیں ۔ میں نے صرف جماعت اسلامی کا ایک ردعمل دیکھا ہے ، بس ! کیا جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں کو نہیں چاہیے کہ وہ بھی آواز اٹھائیں ، عدالتوں سے رجوع ہوں اور بلڈوزروں کے ذریعے جو ظلم و ستم کیا جا رہا ہے اس کے خلاف کھڑے ہوں؟۔( شکیل رشید)
شکیل رشید صاحب کی اس بات سے تو اتفاق نہیں کہ مسلم تنظیمیں اور جماعتیں بالکل خاموش ہیں اور وہ کچھ نہیں بول رہی ہیں ، البتہ یہ بات درست ہے کہ جس پلانگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ ساری جماعتوں کو باہم مل کر اس بلڈوزر سیاست کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور ظلم کے خلاف بولنا چاہیے ویسا نہیں ہو رہا ہے ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ