حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی
اوقاف ہمارا ملی اثاثہ اور قیمتی سرمایہ ہیں، ہمارے اسلاف اور آباء و اجداد نے رضائے الہی اور اجر و ثواب کی نیت سے اپنی جائدادیں اللہ تعالی کی راہ میں وقف کی ہیں، ان اوقاف کی حفاظت اور ملی اثاثہ کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری اور ہمارا اولین فریضہ ہے۔ موجودہ حکومت وقف ایکٹ 2013ء میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے، اور اندیشہ ہے کہ ایسی ترمیم وقف ایکٹ میں کی جائے گی، جس سے اوقاف کی نوعیت و حیثیت بدل جائے گی اور اوقاف کا تحفظ غیر یقینی ہوجائے گا، اسی طرح وقف بورڈ کے اختیارات بھی سلب کرلئے جائیں گے، اور اوقاف کے اختیارات دوسروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے ،جس سے اوقاف پر قبضے کی راہیں ہموار ہو جائیں گی،اوقاف کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنا اس وقت ضروری ہے ،حکومت سے پرزور انداز میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ وقف ایکٹ میں کوئی ایسی ترمیم نہ کرے ،جس سے اوقاف کی نوعیت اور حیثیت بدل جائے، نیز اس کے لیے قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے ۔۔
حکومت کی جانب سے وقف بل میں مجوزہ ترمیم ایک غلط اقدام ہے ،یہ ترجیحات وقف املاک کو ناجائز قبضوں سے بچانے کے لیے ملے ہوئے اختیارات کو بھی چھیننے کی ایک مذموم کوشش ہے ۔اس سے مذہبی، رفاہی ملی اور معاشرتی مقاصد کے لیے وقف کردہ اجتماعی اور ملی اثاثوں کی سالمیت کو خطرہ ہے ۔حکومت کا یہ اقدام اور پالیسی صحیح نہیں ہے ،اس سے مسلم کمیونٹی مزید پسماندگی کا شکار ہوگی اور دائیں بازو کے ایجنڈے کو تقویت ملے گی ۔حکومت کے یہ اقدامات کئی وجوہات کی بنا پر تشویش کا باعث ہیں ،ضرورت اس کی تھی کہ وقف املاک کے لیے ایکٹ کو مزید مضبوط کیا جائے ،یہ نا کرکے مسلم کمیونٹی جس کی جائدادیں ہیں، ان سے صلاح و مشورہ کے بغیر اس میں تبدیلی لائی جارہی ہے ۔۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت کا منشا ٹھیک نہیں ہے ۔
مجوزہ وقف بل کے سلسلہ میں حکومت کیا کر رہی ہے ،اس کے منصوبے اور پلانگ کیا ہے اور اس کے نقصانات کیا ہیں ،اس سلسلہ میں مشہور صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام کی اس تحریر کو بھی پڑھئے ۔۔۔۔۔۔۔
"اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ مودی حکومت جلد ہی پارلیمنٹ میں وقف سے متعلق دو بل پیش کرنے والی ہے۔ ایک کے ذریعے وقف ایکٹ ۱۹۲۳ کو کینسل کیا جائے گا اور دوسرے کے ذریعے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ میں دور رس تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ یہ تبدیلیاں اتنی خطرناک ہیں کہ اب ایک ضلع کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائداد وقف ہے یا نہیں اور اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔
نئے بل لانے میں حکومت وہی روش اپنا رہی ہے جو وہ پہلے سے کرتی آئی ہے، یعنی اصحاب معاملہ )مسلم سماج ) سے کوئی مشورہ کئے بغیر یہ نیا قانون پاس کیا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بنیادی اور اہم مسئلے پر متعلقہ سماج سے بات کرنے کی حکومت نے ضرورت نہیں سمجھی۔
اس بل کے ذریعے حکومت ”وقف “ کی نئی تعریف کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر پابند رہا ہو وہی اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے۔ ترمیمات میں حکومت یہ بھی طے کر رہی ہے کہ وقف کی جائداد میں ہونے والی آمدنی کہاں خرچ ہوگی۔ یہ دونوں باتیں اسلامی قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اسلامی قانون کے تحت کوئی بھی، یہانتک کہ غیر مسلم بھی، اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے اور وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں صرف کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے (واقف) نے طے کیا ہو۔
نئی ترمیمات نے یہ راستہ بھی کھول دیا ہے کہ وقف کاؤنسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے ممبران غیر مسلم ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔
مجموعی طور پر نئی ترمیمات کی منظوری ہونے پر ایک کلکٹر راج وجود میں آئے گا جو فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے اور کون نہیں ہے۔ وقف ٹرائیبونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے جبکہ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔
نئی ترمیمات سے یہ نئی ریت بھی پکی ہو رہی ہے کہ حکومت اہم اسلامی معاملات میں مسلم سماج سے مشورہ نہیں کرے گی۔ یہ ریت طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں ۲۰۱۹ کے بل سے شروع ہوئی تھی جب ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں فخریہ اعلان کیا تھاکہ اس سلسلے میں مسلم سماج سے بات نہیں کی گئی ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے اور جلد ہی وہ مرحلہ آئے گا جب مرکزی پارلیمنٹ میں بھی مسلم سماج سے مشورہ کئے بغیر ایک بل لاکر مرکزی یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا جائے گا۔
نئی ترمیمات نے ریاستی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ممبر مسلمان بھی ہوں۔ اسی طرح موجودہ ترمیمات کے ذریعے متولی کی واقف کے ذریعے زبانی تعیین کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ زبانی طور سے کوئی جائداد وقف نہیں کی جاسکے گی۔
ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعیین و تشریح کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلمین کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پا مالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔ حکومت کو اس خطرناک راستے پر چلنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس اہم مسئلے پر مسلم علماء اور بالخصوص مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمے داروں سے بات کر کے آگے بڑھنا چاہئے”۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ