نُبُوَّت مل جانے کے بعد نوبرس تک نبیٔ اکرم ﷺ مکۂ مُکَرَّمہ میں تبلیغ فرماتے رہے، اورقوم کی ہدایت اوراِصلاح کی کوشش فرماتے رہے؛ لیکن تھوڑی سی جماعت کے سِوا- جو مسلمان ہوگئی تھی، اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے عِلاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے آپ ﷺ کی مددکرتے تھے- اکثر کُفَّارِ مکہ آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے صحابہث کوہرطرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے، مذاق اُڑاتے تھے، اور جو ہوسکتا تھا اُس سے دَرگُزرنہ کرتے تھے؛ حضور ﷺ کے چچا ابوطالب بھی اُن ہی نیک دل لوگوں میں تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضورﷺ کی ہر قِسْم کی مدد فرماتے تھے، دسویں سال میں جب ابوطالب کابھی انتقال ہوگیاتوکافروں کو اَور بھی ہرطرح کھُلے مُہاراِسلام سے روکنے اورمسلمانوں کوتکلیف پہنچانے کاموقع ملا، حضورِاقدس ﷺ اِس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ وہاںقَبیلۂ ثَقیف درکِنار:ایک طرف۔ دَرگُزرکرنا:چھوڑنا۔ کھُلے مُہار:پوری آزادی سے۔
کی بڑی جماعت ہے، اگروہ قبیلہ مسلمان ہوجائے تو مسلمانوں کواِن تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑجائے، وہاں پہنچ کر قبیلے کے تین سرداروں سے -جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے- گفتگوفرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بُلایا، اوراللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجَّہ کیا؛ مگراُن لوگوں نے بجائے اِس کے کہ دین کی بات کو قُبول کرتے،یاکم سے کم عرب کی مشہورمہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نَووارِد مہمان کی خاطرمُدارات کرتے، صاف جواب دے دیا، اورنہایت بے رُخی اور بداخلاقی سے پیش آئے۔ اُن لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قِیام فرمالیں، جن لوگوں کو سردارسمجھ کر بات کی تھی کہ وہ شریف ہوںگے اورمُہَذَّب گفتگوکریںگے ،اُن میں سے ایک شخصؔ بولا کہ: اوہو! آپ ہی کواللہ نے نبی بناکربھیجا ہے؟۔ دوسرا ؔبولاکہ:اللہ کوتمھارے سِواکوئی اَور ملتا ہی نہیں تھا جس کورسول بناکر بھیجتے؟۔ تیسرےؔ نے کہا: مَیں تجھ سے بات کرنانہیں چاہتا؛ اِس لیے کہ اگر تُو واقعی نبی ہے جیساکہ دعویٰ ہے تو تیری بات سے اِنکار کردینا مصیبت سے خالی نہیں، اور اگر جھوٹ ہے تو مَیں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ اِس کے بعد اُن لوگوں سے ناامید ہوکر حضورِاکرم ﷺ نے اَور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا، کہ آپ توہمت واِستقلال کے پہاڑ تھے؛ مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا؛ بلکہ بجائے قُبول کرنے کے حضورﷺ سے کہا کہ: ہمارے شہر سے فوراً نکل جاؤ اورجہاں تمھاری چاہت کی جگہ ہو وہاں چلے جاؤ۔ حضورِاکرم ﷺ جب اُن سے بالکل مایوس ہوکر واپس ہونے لگے تواُن لوگوں نے شہرکے لڑکوں کوپیچھے لگادیا، کہ آپ کا مذاق اُڑائیں، تالیاں پیٹیں، پتھر ماریں، حتی کہ آپ ﷺکے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہوگئے،حضورِاقدس ﷺاِسی حالت میں واپس ہوئے۔ جب راستے میں اُن شریروں سے اطمینان ہوا تو حضورﷺ نے یہ دعامانگی:
نووارِد: مسافر، اجنبی۔ خاطرمُدارات: آؤ بھگت۔ مُہَذَّب: مناسب، اچھی۔ اِستقلال: مضبوطی۔
’’اَللّٰہُمَّ إِلَیْكَ أَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِيْ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِيْ، وَہَوَانِيْ عَلَی النَّاسِ، یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأَنْتَ رَبِّيْ، إِلیٰ مَنْ تَکِلُنِيْ؟ إِلیٰ بَعِیْدٍ یَتَجَہَّمُنِيْ، أَمْ إِلیٰ عَدُوٍّ مَلَّکْتَہُ أَمْرِيْ؟ إِنْ لَّمْ یَکُنْ بِكَ عَلَيَّ غَضَبٌ فَلَاأُبَالِيْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُكَ ہِيَ أَوْسَعُ لِيْ. أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِكَ الَّذِيْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ،مِنْ أَنْ یَّنْزِلَ بِيْ غَضَبُكَ، أَوْیَحِلَّ عَلَيَّ سَخَطُكَ؛ لَكَ الْعُتْبیٰ حَتیٰ تَرْضیٰ، وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِكَ. (کذا في سیرۃ ابن هشام، قلت: واختلفت
الروایات في ألفاظ الدعاء، کما في قرۃ العیون)
[سیرۃ ابن هشام۲؍۶۰ تا ۶۲]
ترجمہ:اے اللہ!تجھ ہی سے شکایت کرتاہوں مَیںاپنی کمزوری اوربے کَسی کی، اور لوگوں میں ذلت ورسوائی کی،اے ارحمَ الراحمین! تُوہی ضُعفاء کارب ہے، اور تُو ہی میرا پروردگار ہے، تُو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے:کسی اجنبی بےگانے کے جومجھے دیکھ کرتُرش رُو ہوتاہے اورمنھ چڑھاتا ہے، یا کہ کسی دشمن کے جس کو تُونے مجھ پرقابو دے دیا؟اے اللہ! اگر تُومجھ سے ناراض نہیں ہے تومجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے، تیری حفاظت مجھے کافی ہے، مَیں تیرے چہرے کے اُس نورکے طُفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہوگئیں، اورجس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہوجاتے ہیں، اِس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تُومجھ سے ناراض ہو، تیری ناراضگی کا اُس وقت تک دورکرناضروری ہے جب تک تُو راضی نہ ہو، نہ تیرے سِواکوئی طاقت ہے نہ قُوَّت۔
مالکُ المُلک کی شانِ قَہَّاری کو اِس پرجوش آناہی تھا،کہ حضرت جبرئیل ں نے آکر سلام کیا، اورعرض کیاکہ: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگوجوآپ سے ہوئی سُنی، اور اُن کے جوابات سنے، اورایک فرشتے کوجس کے مُتعلِّق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے، کہ آپ جوچاہے اُس کوحکم دیں، اِس کے بعد اُس فرشتے نے سلام کیا اور عرض کیاکہ: جو ارشاد ہو مَیں اُس کی تعمیل کروں، اگرارشاد ہوتو دونوں جانب کے پہاڑوں
بے کَسی: لاچاری۔ ضُعفاء: کمزور۔ بےگانہ: پَرایا۔ تُرش رُو: ناخوش۔ مالکُ المُلک: شہنشاہ، خداتعالیٰ۔ شانِ قَہَّاری: اللہ کے غصے کی شان۔ تعمیل کرنا: حکم پوراکرنا۔
کو مِلادوں جس سے یہ سب درمیان میں کُچل جائے، یااَور جو سزا آپ تجویز فرمائیں، حضورﷺ کی رحیم وکریم ذات نے جواب دیا کہ: ’’مَیں اللہ سے اِس کی امید رکھتاہوں، کہ اگریہ مسلمان نہیں ہوئے تو اِن کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوںجواللہ کی پَرستِش کریں اوراُس کی عبادت کریں‘‘۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، حدیث ۳۲۳۱، ۱؍۴۵۸)
فائدہ:یہ ہیں اخلاق اُس کریم ذات کے جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں، کہ ہم ذراسی تکلیف سے، کسی کی معمولی سی گالی دے دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیںکہ پھر عمر بھر اُس کابدلہ نہیں اُترتا، ظلم پر ظلم اُس پرکرتے رہتے ہیں،اوردعویٰ کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا، نبی کے پَیرَو بننے کا، نبیٔ کریم ﷺاِتنی سخت تکلیف اور مَشقَّت اُٹھانے کے باوجود نہ بددعا فرماتے ہیں،نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ