حضرت مولانا محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
*امت مسلمہ* کو *اللہ تعالی* کی طرف سے جو بے شمار نعمتیں (انعامات ) ملی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت رمضان المبارک اور اس کے روزے بھی ہیں ۔
یہ مہینہ ہمارے درمیان ہر سال خیر و برکت اور رحمتوں کا خزانہ لئے ہوئے ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے ۔ اور مغفرت و بخشش چاہنے کو دنیا بھر میں رحمتوں کا خزانہ تقسیم کرتا ہے ۔
اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے خلاصی کا ہے ۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رمضان المبارک کے موقع پر دوران خطبہ ارشاد فرمایا :
*ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے ،اے خیر کے چاہنے والے ! اگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے باز آجا ،اور اللہ تعالی کے نزدیک جہنم سے رہائی حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں اور یہ سلسلہ ہر روز چلتا رہتا ہے ۔ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں اللہ کی طرف سے مومن بندے کے لئے ایسی رات بھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ حقیقی خیر محروم ہے ۔ ( مسند احمد )
یہ مہینہ مومن کے لئے کس قدر خیر و برکت کا ہے اور اللہ کی طرف سے ایمان والوں کے لئے عمل خیر کا ماحول کس قدر پیدا کردیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس حدیث شریف سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو اسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں ۔ ( بخاری شریف ) ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ (مسلم شریف)
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے روزہ کی اہمیت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :
۰۰ابن آدم کے ہر عمل میں اس کی نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں ،البتہ روزے کا معاملہ اس سے کچھ جدا اور الگ ہے اس لئے کہ وہ تو صرف میرے لئے ( خدا کے واسطے ) ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بندہ اپنی شہوتوں خواہشوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو صرف میرے لئے چھوڑتا ہے ۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہوتی ہیں، ایک خوشی تو روزہ افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر ہوگی ۔ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ لغو اور بے ہودہ باتوں اور چیخنے چلانے اور شور مچانے سے پرہیز کرے بلکہ اگر کوئی گالی دے یا حملہ کرے تو صاف کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں ۔ (بخاری و مسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ روزہ انسان کے لئے( گناہوں سے ) ڈھال ہے جب تک کہ وہ خود اس کو پھاڑ نہ دے ۔
روزہ اور روزہ داروں کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنت کے دروازوں میں سے ایک گیٹ اور دروزاہ *ریان* ہے یہ گیٹ اور دروازہ *وی آی پی* ہے اس دروازے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دروازے سے صرف روزے دار (جنتی) لوگ ہی داخل ہوں گے کسی اور جنتی کا داخلہ اس *وی ائی پی* گیٹ سے نہیں ہو سکے گا ۔
یہ انعام روزے داروں کے لئے اس لئے ہوگا کہ روزہ بدنی عبادت ہے اور یہ سب سے مشکل اور دشوار عبادت ہے اس میں انسان کو بہت ہمت اور صبر سے کام لینا پرھتا ہے بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرنا پڑتا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو خدا کی خوشنودی کے لئے دبانا پڑتا ہے اور قاعدہ ہے کہ جس کام میں محنت و مشقت زیادہ ہوتی ہے اس کا اجر اور اجرت بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
اوپر کی ایک حدیث سے یہ بھی معلوم کہ عبادات میں صرف روزہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کا اجر اور اجرت و مزدوری اللہ تعالی خود اپنے ہاتھ سے دیں گے جب کہ دیگر عبادتوں کا ثواب اور بدلہ فرشتوں سے دلوائیں گے ۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ روزے دار کا روزہ بھی ایمان و احتساب کے ساتھ ہو اس میں روحانیت غالب ہو صرف رسمی روزہ نہ ہو کہ صبح سے شام تک بھوکا رہ گیا اور روزے کے شرائط اور اس کے تقاضے کو ملحوظ نہ رکھا بلکہ ضروری ہے کہ روزہ تقوی کے اوصاف سے متصف ہو ۔
ایسے ہی روزے دار کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے روزہ ایمان و احتساب کے ساتھ رکھا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔
اگر چہ محدثین نے اس سے مراد صغیرہ گناہ لئے ہیں اور گناہ کبیرہ کے لئے توبہ کو لازم قرار دیا ہے ۔ لیکن اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے بڑے گناہ کو معاف کر دے تو یہ بھی کوئ بعید بات نہیں ۔
غرض روزہ ایک اہم عبادت ہے، یہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کا وسیلہ ہے، نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور اپنے آپ کو منکرات سے بچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ ہر شریعت میں فرض کیا تھا اور ہر امت کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ روزہ کی صورت اور مدت الگ الگ تھی۔
روزہ کا بنیادی مقصد قرآن پاک میں تقوی قرار دیا گیا ہے اور تقوی بری باتوں، برے کاموں سے بچنے، اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اللہ کا خوف پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔ اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ روزہ کی حالت میں کوئی گناہ کا کام خاص طور پر نہ کرے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
روزہ گناہوں سے ڈھال ہے، روزہ دار کو چاہیے کہ وہ گناہ کا کام نہ کرے، نہ جہالت کی بات کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یا گالی گلوچ کرے تو وہ اس سے دو بار کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، قسم ہے اس ذات کی جس قبضہ میں میری جان ہے روزہ دار کے منھ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ روزہ دار نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کھانے پینے اور شہوت کو ترک کر دیا ہے۔ (بخاری کتاب الصوم)
اللہ تعالٰی ہم سب کو روزے کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور روزے کے مبارک ایام میں لا یعنی چیزوں اور بحث و مباحثے اور فضول تکرار سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ