مولانا قمر الزماں ندوی صاحب
ضلع پرتاپگڑھ جہاں کئی حیثیت سے ملک میں اپنی منفرد پہچان اور الگ شناخت رکھتا ہے ،وہیں علم و ادب اور شعر و شاعری کے میدان میں بھی اس ضلع کی اپنی ایک علیحدہ پہچان اور شناخت ہے ،سرزمین پرتاپگڑھ یقینا اس اعتبار سے بہت زرخیز اور مردم خیز ہے ، اردو ادب اور اردو شاعری کو یہاں کے شعراء نے بھی بہت اعتبار بخشا ہے ، ضلع پرتاپگڑھ اُردو ادب کی خدمت کے معاملے میں یقینا ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ۔
جن میں جلیل مانک پوری ،نازش پرتاپگڑھی، مولانا محمد احمد پرتاپگڑھی،رہبر پرتاپگڑھی، تابش مہدی، خلیل پرتاپگڑھی،آفتاب انصاری اور نظام پرتاپگڑھی کا نام نمایاں ہے، آخر الذکر نظام پرتاپگڑھی نوجوان نسلوں کے نمائندہ شاعر ہیں اور غزلیہ شاعری میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں ، کلام کم کہتے ہیں، لیکن جو کچھ کہتے ہیں، وہ سب وقت کی پکار اور زمانے کی صدا اور مستقبل کا پیغام ہوتے ہیں،۔ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ
میرے اشعار سے پیغام ملے امت کو
میرے الفاظ کی تاثیر کشادہ کردے
چونکہ میرے لیے ضلع پرتاپگڑھ وطن ثانی کی حیثیت رکھتا ہے ، تقریباً اٹھائیس سال سے یہاں کی آب و ہوا میں سانس لے رہا ہوں اور یہاں کی تہذیبی ادبی علمی اور ثقافتی ورثہ کا قریب سے مشاہدہ کر رہاں ہوں ، اس لیے مجھ پر یہ قرض اور فرض ہے کہ یہاں کی ،علمی ادبی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ پر لکھوں اور اس پر خامہ فرسائی کروں ۔۔
گرامی قدر نظام پرتاپگڑھی پرتاپگڑھ کے ابھرتے شاعر ہیں جو علم و ادب کی خدمت کررہے ہیں اور اتفاق یہ ہے کہ وہ کنڈہ تحصیل ہی میں رہتے ہیں اور یہاں سے قریب ایک سرکاری مدرسہ میں تدریسی خدمت انجام دیتے ہیں ، ان سے کئی سالوں سے رفاقت اور دوستانہ ہے ، وہ اپنی شاعری کے نمونے پیش کرتے رہتے ہیں اور ملک و بیرون ملک کے اخبارات و رسائل میں ان کی نظمیں اور غزلیں شائع ہوتی رہتی ہیں ، سوشل ذرائع پر بھی وہ اپنی عزلیں پوسٹ کرتے ہیں اور شایقئن ادب اس سے محظوظ ہوتے ہیں ۔
2022ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ،،صدائے عصر،، کے نام سے شائع ہوا ، جو دراصل ان کے منتخب غزلوں کا مجموعہ ہے ،جو ایک سو چھتیس صفحات پر مشتمل ہے ، کتاب کے نام ہی سے انداز کر سکتے ہیں کہ نوجوان نسل کے لئے اس نمائندہ غزل گو شاعر نے اپنی غزلوں میں کیا کچھ پیغام دیا ہوگا اور کس قدر نئی نسل کو عصری شعور سے آگاہ کیا ہوگا اور انہیں کتنا مہمیز لگایا ہوگا؟
دو سال قبل ہی انہوں نے اشاعت کے بعد یہ شعری مجموعہ مجھے ہدیہ کیا تھا اور یہ حکم دیا تھا ،ان کے الفاظ تھے ،،کہ میری خواہش ہے کہ آپ اس شعری مجموعہ پر دو حرف لکھ دیں،، یعنی آپ اس مجموعہ پر تبصرہ کر دیں ،،۔ میں نے وعدہ کرلیا ،لیکن کچھ حالات و واقعات اور ذاتی مسائل، نیز طبیعت کی ناسازی کی بنا پر یہ وعدہ ٹلتا رہا ۔ گزشتہ کل پھر نظام بھائی سے ملاقات ہوئی ، پرانا وعدہ یاد دلایا ۔
میں نے مجبوری بتائی اور کہا کہ
کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوںگی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
بہر حال آج وقت نکال کر اس شعری مجموعہ پر کچھ لکھنے اور تبصرہ کرنے بیٹھ گیا اور ارادہ کر لیا کہ اس وعدہ کو پورا کرنا چاہیے اور اس قرض اور فرض کو ادا کر دینا چاہیے ۔
نظام پرتاپگڑھی نئی نسل کے ایک ابھرتے شاعر ہیں ، وہ اصلا غزل گو شاعر ہیں اور صنف غزل ہی میں زیادہ طبع آزمائی کرتے ہیں ،ان کی غزلوں کو پڑھ کر ہر قاری یہ محسوس کرے گا کہ ان فکر میں ندرت اور جدت ہے ،فن کی پختگی ہے ،وسیع مطالعہ و مشاہدہ ہے ،فکری آگہی ہے ، حالات و واقعات کی عکاسی ہے ،حیات و کائنات کے مسائل ہیں ۔ زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر ہے ،ماحول کے تھپیڑوں، اندھیروں اور اجالوں کا تذکرہ ہے اور ہر وہ چیز ہے جو غزل میں کہی جاسکتی ہے ۔۔
یاد رہے کہ صنف شاعری میں غزل وہ صنف ہے جس میں بہت وسعت پائی جاتی ہے اُردو غزلیات میں ایک رند شب باز کو بھی بازیابی کی اجازت ہے، تو ایک صاحب طریقت صوفی مزاج رکھنے والے کو بھی۔ غزل کا مزاچ حالات کی عکاسی کرنے والے کو بھی راس آتا ہے، تو دوسری طرف محبوب کے عارض و رخسار سے کھیلنے والے کو بھی۔ اُردو غزل میں وہ وسعت ہے کہ شعراء نے اپنے عہد کی ترجمانی بھی کی ہے اور ماضی کی تباہ کاریوں پر ماتم بھی کیا۔ حال میں جینے کا سلیقہ بھی سکھایا تو وہیں مستقبل سے آگاہ رہنے کا شعور بخشا ۔ غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ صنف سخن ہے، جس میں مختلف انواع و اقسام کے پھول بکھرے ہوئے ہیں ، چمن کی رنگینی بھی ہے ،بلبلوں کی چہچہاہٹ بھی ہے، صحرا کی تپش بھی ہے تو بحر کی گہرائیوں کو ناپنے کا ہنر بھی۔ اپنی تباہ کاریوں سے سبق لینے کا حوصلہ بھی غزل نے دیا، تو ایک طرف رقیب سے رشک و حسد کے مضامین بھی اس میں ہیں ۔محبوب کے حسن و جمال لب و رخسار ناز و ادا کے قصے بھی ہیں ،جور آسمانی کا خوف بھی ،حقیقت و مجاز ،حالات اور واقعات ماضی حال و مستقبل کوئی مضمون ایسا نہیں جو اس میں نہ پایا جاتا ہو ، صدیاں گزر جانے کے باوجود غزل کے حسن اور اس کی رعنائی میں کوئی کمی نہیں آئی ،آج کی اس تیز رفتار دنیا میں بھی غزل اپنی آب و تاب اور پوری زور اور طاقت کیساتھ اپنے محسنوں اور چاہنے والوں کیساتھ کھڑی نظر آتی ہے ۔ غزل کے گیسوؤں کو سنوارنے والوں میں آج جہاں ایک طرف بزرگ و باکمال شعراء موجود ہیں، تو وہیں نئی نسل اس صنف سخن، نیز اردو ادب کے گیسوؤں کو سنوارنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ انہیں میں ہمارے دوست اور کرم فرما نظام پرتاپگڑھی بھی ہیں ۔
ذیل کی تحریر میں ان کی غزلوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔
نظام پرتاپگڑھی نے غزل کی وسعتوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے تجربات کو الفاظ کا پیرہن بخشا ہے ،اس اعتبار سے دیکھیں تو ان کی فکر انسانی سماج کا آئینہ بن جاتی ہے ۔ جیسے ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ
بزدلی سے لاکھ بہتر تھا شہادت کا لقب
سر بچانے کی طلب میں جانے کتنے سرگئے
تمہیں عیب لگ رہا ہے مرا سرخ رو نہ ہونا
مری ہار میں چھپی ہے مری فتح و کامرانی
یہ نظام ملک کیسا جو بذاتِ خود ہے رسوا
وہی قتل بھی کرے ہے جو کرے ہے آہ و زاری
نظام پرتاپگڑھی کی غزلوں اور ان کی شاعری میں ندرت بھی ہے جدت بھی ہے اور زندگی کے مختلف رنگ و آہنگ دیکھنے کو ملتے ہیں ،وہ اپنی شاعری میں زندگی کی مختلف تصویروں کو بہت سلیقے اور ہنر سے پیش کرتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں ۔
بے سبب اوروں کے دامن پر نہ کیچڑ پھینکئے
آپ کا بھی ایک دن کردار دیکھا جائے گا
آج کے دور میں کیا چیز نہیں بکتی ہے
تم نے قیمت ہی مناسب نہ لگائی ہوگی
کب تک چھپاتے ہو خود کو انا کے لباس میں
ہم بھی ضمیر بیچ کے مشہور ہوگئے
نظام پرتاپگڑھی کی شاعری میں یاس و قنوطیت نہیں پائی جاتی، بلکہ ان کے کلام میں حوصلوں امنگوں کی بات ہوتی ہے اور بقول شخصے ان کی شاعری میں اس بڑھ کر امید کے موتیوں سے آراستہ رجاعیت کے لہلہاتے ہوئے باغات نظر آتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں
صرف جذبات سے رشتے نہیں پالے جاتے
وقت کی شرط ہے تھوڑی سی سیاست رکھنا
جہاں جاکر تمہارا ہر سفر انجام پاتا ہے
وہیں سے ہم کیا کرتے ہیں آغاز سفر اپنا
علم محتاج نہیں اپنی نمائش کا نظام
روشنی سیکھتی کس سے ہے بکھرنے کا ہنر
آکے دروازے پہ کیوں میری قضا لوٹ گئی
زندگی تونے ہی بات آگے بڑھائی ہوگی
غزل گو شاعر اس صنف کا حق اس وقت ادا نہیں کرسکتا، جب تک کہ شاعر محبوب مجازی کے حسن و عشق ہجر و فراق کا تذکرہ نہ کرے اور جب تک محبوب کے مختلف احوال و کیفیات اور عنایات و توجھات کا ذکر نہ کرے ،نظام پرتاپگڑھی بھی کہاں پیچھے رہ سکتے تھے انہوں نے بھی جا بجا ایسے اشعار کہے ہیں اور جو صفحئہ قرطاس کی زینت بنے ہیں ۔
تھیں خواہشات نیک مگر عین وقت پر
اس نفس بے لگام سے مجبور ہوگیا
مجھے درد دل کی دوا ملے تو مریض عشق کو شفا ملے
مجھے ان کی کوئی خبر بتا مری زندگی جو سنوار دے
تیرے پیار کا یہ صلہ ملا نہ میں بن سکا نہ بگڑ سکا
یا تو بحر عشق میں غرق کر یاتو ساحلوں پے اتار دے
یاد آئینگی مری باتیں مرے مرنے کے بعد
کل یہی الفاظ میرے آئینہ بن جائیں گے
نظام پرتاپگڑھی کی شاعری میں یقینا اصلاحی پہلو غالب ہے، وہ اس اعتبار سے حفیظ میرٹھی ،عامر عثمانی ،فضا ابن فیضی اور ابو المجاہد زاہد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
وہ اپنی ایک غزل میں کہتے ہیں ۔
عقل ہے محو تخیل اور خرد حیران ہے
نفس کے ہاتھوں مقید آج ہر انسان ہے
چند سکے کیا ملے اس کو عوض دستار کے
سر فروشی کی تمنا سے ہوا انجان ہے
راستے مغضوب ہیں للہ کچھ تو کیجئے
استقامت راہ کی ہی زیست کا عنوان ہے
ہو بھلا کیسے منور دین حق کا راستہ
قید میں جزدان کی جب رکھ دیا قرآن ہے
عظمتوں کا کارواں گمراہ ہوکر رہ گیا
راہ مستقبل ہماری اب یہاں ویران ہے
سلسلہ کب رہ سکا قائم ہماری جیت کا
صوت موسیقی سے پسپا جنگ کا سامان ہے
پھر کمال بندگی حاصل تجھے ہو جائے گی
جب خدا پوچھے گا تجھ سے بول کیا ارمان ہے
غیرت مومن سے کہہ دو گھر میں پردہ ڈال لیں
کہہ رہے ہیں لوگ دیکھو آگیا رمضان ہے
مسلکوں کی جنگ میں اسلام کھو کر رہ گیا
ٹوپیوں کے کھیل میں الجھا ہوا ایمان ہے
خواہش جاہ و حشم خود کش عمل ثابت ہوئی
یہ ہمارا مال و زر ہی قبر کا ثعبان ہے
پھر حکومت کی نظر میں ہر وہ انساں آگیا
کہہ رہا ہے جو حکومت ہی تو بے ایمان ہے
نوٹ مضمون کا اگلا اور آخری حصہ کسی اور موقع پر ملاحظہ کریں ۔