مولانا محمد قمر الزماں ندوی
"گورنر نواب امیر محمد خان پرانی طرز کے ایک جاگیردار تھے، سخت گیر مگر مخصوص قسم کا مذہبی رجحان بھی رکھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ صدر ایوب خان اور مولانا مودودی کی ملاقات ہو جائے، جب ایک بار ایوب خان لاہور آئے تو نواب صاحب ان دونوں بڑوں کی ملاقات کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مولانا پروٹوکول کے تکلفات کو پسند نہیں کرتے تھے، چنانچہ یہ ملاقات مولانا کی قیامگاہ پر نہیں لاہور کے گورنر ہاؤس میں منعقد کرنے کی تجویز ہوئی اور وقت مقررہ پر مولانا گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔
ایوب خان نے مولانا کے مقابلے میں بڑا بننے یا بڑا ظاہر کرنے کے لیے فوری توجہ نہ کی اور وہ میز پر پڑے کاغذات کو نمائشی طور پر الٹ پلٹ کرتے رہے۔ بالآخر انھوں نے میز سے سر اٹھا کر اپنے مہمان مولانا کا خیرمقدم کیا اور ان سے کہا کہ مولانا آپ تو ایک علمی شخصیت ہیں، آپ سیاست کے گندے میدان میں کیوں آ گئے ؟۔ مولانا جن کا دماغ ہر وقت حاضر رہتا تھا ،جواب میں کہا کہ کیا سیاست کے میدان کو گندہ ہی رہنے دیا جائے۔؟
دوستو !
ایک بڑی غلط فہمی جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان ( اچھا خاصا پڑھے لکھے اور انٹکیچول لوگ بھی) یہ سمجھتے ہیں کہ *دین* صرف ایمان و عقیدہ عبادت اور معاشرت و اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے نماز و روزہ حج و زکوة صدقہ و خیرات قربانی و نذر نکاح و ولیمہ و عقیقہ اور ختنہ یہ دین کا حصہ ہے اور اسلام انہیں عبادات و عقائد کے مجموعہ کا نام ہے ۔ جب کہ اسلام حکومت و خلافت سیادت و قیادت تدبیر منزل و مدن اور سیاست و زعامت کے اصول و ضوابط اور طریقوں کو بھی کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اس کے اصول و ضوابط کو طے کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں لوگوں کو عبادت و معاشرت اخلاق و معاملات کی تفصیلات بتائیں اور اس کے رہنما اصول و ضوابط دیئے، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اسلام کے سیاسی عادلانہ نظام سے بھی روشناس کرایا اور اس کے اصول و ضوابط بھی طے کئے ،لوگوں کے اندر ملی تہذیبی اور سیاسی شعور پیدا کیا، اسلام کے نظام سیاست کی خوبیوں اور اچھائیوں سے واقف کرایا ۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عبادت اور معاشرت و اخلاق کی ہی تعلیم نہیں دیتے تھے بلکہ آپ امت کے اندر ملی اور سیاسی شعور بھی پیدا کرتے تھے، حالات حاضرہ سے اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور ان کے مکروفریب سے آگاہ کرتے تھے، اور اس کے مقابلہ کے لئے باہم مشورہ کرتے تھے ۔ دشمن کو زیر کیسے کیا جائے ان کے مکروہ اور ناپاک عزائم سے کیسے نمٹا جائے ؟ اس کے لئے *آپ صلی اللہ علیہ* وسلم *صحابہ کرام رضی اللہ عنہم* سے خاص طور پر صلاح و مشورہ کرتے تھے، جن کے اندر ملی دفاعی اور سیاسی شعور زیادہ محسوس کرتے تھے، ان کو آگے آگے رکھتے تھے،اور ان کی صلاحیتوں کی قدر کرتے تھے ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت ان کے مزاج و مذاق اور نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے کرتے تھے اور جس کو جس فن اور شعبہ سے زیادہ مناسبت ہوتی تھی اس کو اس میدان ،فن اور شعبہ میں زیادہ صلاحیت بڑھانے اور گہرائی پیدا کرنے کے لئے مہمیز لگاتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہر صلاحیت کے لوگ موجود تھے اگر علم و فضل کا میدان دیکھا جائے تو اس میں وہ *صحابہ* سب سے آگے تھے جو *صفئہ نبوی* میں اپنا زیادہ وقت دیتے تھے اور *آپ* کے اقوال و افعال اور *آپ* کی ایک ایک ادا کو نقل کرتے تھے ۔ بعض صحابہ زہد و تقوی اور عبادت و ریاضت میں ممتاز اور نمایاں تھے، بعض صحابہ کے اندر فصل و قضا اور فتویٰ و مسائل کی صلاحیت تھی وہ آپ کے حکم سے یہ کام بھی کبھی کبھی انجام دیتے تھے اور مبلغ و والی بن کر دوسرے علاقوں میں اس فرض کو انجام دینے جاتے تھے ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ تھے جو سیرت کے ساتھ اچھی صورت میں نمایاں تھے اچھی شکل و صورت اور شباہت رکھتے تھے اس کے ساتھ سفارتی خدمت انجام دینے اور ارباب حکومت و اہل اقتدار سے سلیقہ سے اور آنکھ سے آنکھ ملا کر گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* ان سے سفارت اور ایلچی کا کام لیتے تھے ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دفاع اور میدان جنگ کے ماہر تھے آپ ان سے اس میدان میں خدمت لیتے تھے ۔ بعض صحابہ تجارت اور اقتصادیات کے ماہر تھے ان سے بھی آپ نے امت کو فائدہ دلایا ۔
الغرض *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ہر میدان اور ہر شعبہ کے لئے صحابہ کرام کی پوری ٹیم اور جماعت کو تیار کیا اور ان سے اسلام کی خدمت لی۔ لیکن افسوس کہ آج ہم نے *اسلام* کی جامعیت و کاملیت کو پس پشت ڈال دیا،اور اس کے بہت سے اہم شعبے اور بنیادی حصے کو نظر انداز کردیا، دین کو صرف ایمان و عقیدہ عبادت و معاشرت اور اخلاق و معاملات تک محدود کرلیا، *سیاست* کو *شجر ممنوعہ* سمجھ لیا، *اسلام* کے *سیاسی نظام* کو اپنے لئے نمونہ نہیں بنایا اور *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کے امور سیاست اور تدبیر مدنیہ سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو آج ہم ناکام ہوگئے، ہم محکوم و مقہور اور مظلوم و مغلوب ہوگئے، آج پوری دنیا میں ہم سب سے زیادہ محروم و مجبور بن گئے ۔ *قرآن و حدیث* نے اس ناحیہ سے جو رہنمائی کی تھی جو گائڈ لائن دیا تھا، ہم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا اور ہم نے قرآن مجید کے اس پیغام کو کما حقہ نہیں سمجھا کہ *ادخلوا فی السلم کافة* اس آیت میں اسلامی نظام سیاست بھی داخل و شامل ہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم دین کے تمام شعبوں کو اپنے لئے لازم سمجھیں اور ان میں محنت کریں ۔اسلام کے سارے نظام اور اصول کو اپنی زندگی میں داخل و شامل کریں۔ نیز، اپنے اندر اور قوم کے اندر سیاسی اور ملی شعور پیدا کریں اور ہم لوگوں کو بتائیں کہ اسلام نے ہمیں کیا حقوق دیئے ہیں اور ہم ایک باعزت اور باغیرت شہری کیسے بن سکتے ہیں؟، ہم خودی اور خودداری کہ ساتھ کسی ملک میں کیسے جی سکتے ہیں؟ ۔اگر ہم نے اس اعتبار اور اختیار کے ساتھ جینے کی کوشش نہیں کی اور اس کے لئے منصوبے نہیں بنائے ، تدبیر نہیں کی ،صرف ایمان و عقیدہ اور عبادت کو ہی اسلام سمجھ لیا تو یاد رکھیئے کہ جلد وہ وقت آئے گا ۔(خدا نہ کرے)کہ ہم نماز و روزہ اور حج و عمرہ زکوة صدقہ و قربانی اور نوافل و تہجد اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح و طلاق انجام دینے ، سب سے محروم کر دئیے جائیں گے ،حالات کچھ ایسے ہی بن رہے ہیں ۔ دشمنوں کے عزائم کچھ ایسے ہی لگ رہے، اس لئے اٹھ کھڑے ہوئیے، اور اپنے حقوق کو لینے کے لئے اپنے اندر سیاسی،سماجی ملی اور قومی شعور پیدا کیجئے اپنے حقوق کے لئے لڑئیے، ملت کے اندر بھی سیاسی شعور پیدا کیجئے ۔ نفسانیت اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر دین اور قوم و ملت کے لئے کچھ کر گزرئیے، کریڈٹ کی تلاش میں مت رہئیے، کریڈٹ اور انعام *اللہ* کے یہاں لیجئے کیوں کہ *وہی* اصل انعام اور بدلہ دینے والا ہے اور آخرت ہی اصلا انعام اور بدلہ کی جگہ ہے امت کو باشعور اور خود دار و باحمیت بنانا اور اچھا اور عزت دار شہری بننا اور بنانا یہ وقت کا تقاضا ہے اور وقت کی آواز ہے ۔علماء اور علم کی یہ خاص ذمہ داری ہے ۔
*🥏 مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ* نے
۱۹۸۲ع میں شہر حیدرآباد دکن کی ایک نششت میں علماء اور عوام و خواص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
"حضرات! علماء کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زندگی کے حقائق، ملک کے حالات، ماحول کے تغیرات اور تقاضوں سے باخبر اور روشناس رکھیں، انکی کوشش رہنی چاہیئے کہ مسلم معاشرے کا رابطہ زندگی اور ماحول سے کٹنے نہ پائے اس لئے کہ اگر دین اور مسلمانوں کا رابطہ زندگی سے کٹ گیا اور وہ خیالی دنیا میں زندگی گزارنے لگے تو پھر دین کی آواز بے اثر ہوگی اور وہ دعوت و اصلاح کا فرض انجام نہیں دے سکیں گے اور اتنا ہی نہیں ہوگا بلکہ اس دین کے حاملین کو اس ملک میں رہنا مشکل ہو جائے گا تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں اہل علم و سرپرستوں نے سب کچھ کیا لیکن زندگی کے حقائق سے امت کو روشناس نہیں کیا اس ماحول میں اپنے فرائض کے انجام دینے کی انھوں نے تلقین نہیں کی ایک اچھا شہری ایک مفید عنصر بننے اور اس ملک کی قیادت حاصل کرنے کی اہلیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی وہاں اس ملک نے ان کو اس طرح اگل دیا جیسے لقمہ اگلا جاتا ہے اور ان کو اگل کر باہر پھینک دیا اسلئے کہ انھوں نے اپنی جگہ نہیں بنائی تھی،
آج ہندوستان کے مسلمان ایک دانشمندانہ اور حقیقت پسندانہ دینی قیادت کے محتاج ہیں، آپ اگر مسلمانوں کو سو فیصدی تہجد گزار بنا دیں سب کو متقی و پرہیزگار بنا دیں، لیکن ان کا ماحول سے کوئی تعلق نہ ہو، وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ملک کدھر جا رہا ہے، ملک ڈوب رہا ہے، ملک میں بداخلاقی وبا اور طوفان کی طرح پھیل رہی ہے ملک میں مسلمانوں سے نفرت پیدا ہو رہی ہے، تو تاریخ کی شہادت ہے پھر تہجد تو تہجد پانچ وقتوں کی نمازوں کا پڑھنا بھی مشکل ہو جائے گا، اگر آپ نے دینداروں کے لیے اس ماحول میں جگہ نہیں بنائی اور ان کو ملک کا بے لوث مخلص اور شائستہ شہری ثابت نہیں کیا جو ملک کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور ایک بلند کردار پیش کرتا ہے، تو آپ یاد رکھیئے کہ عبادات و نوافل اور دین کی علامتیں اور شعائر تو الگ رہے وہ وقت بھی آ سکتا ہیکہ مسجدوں کا باقی رہنا بھی مشکل ہو جائے اگر آپ نے مسلمانوں کو اجنبی بنا کر اور ماحول سے کاٹ کر رکھا، زندگی کے حقائق سے ان کی آنکھیں بند رہیں اور ملک میں ہونے والے انقلابات، نئے بننے والے قوانین، عوام کے دلوں دماغ پر حکومت کرنے والے رجحانات سے وہ بے خبر رہے تو پھر قیادت تو الگ رہی ( جو خیر امۃ کا فرض منصبی ہے ) اپنے وجود کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے گی۔
(📜 کاروان زندگی ج ۲، ص ۳۷۳ ـ)
یہ حقیقت ہے کہ اگر سیاست دین سے جدا ہو چنگزی رہ جاتی ہے، آخر آج ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ کیوں سمجھ لیا، کیا دین کو سیاست، قیادت اور زعامت کی ضرورت نہیں ہے، کیا سیاست ایک کارگر وسیلہ نہیں ہے، کیا یہ دین اسلام کے تحفظ اور بقا کا ذریعہ نہیں ہے، کیا اس سے قوم عروج و ترقی حاصل نہیں کرتی، کیا اس سے قوم و ملت کو بالا دستی حاصل نہیں ہوتی، کیا ماضی میں ہم نے اس کے ذریعہ دنیا پر حکومت نہیں کی؟ دوستو! آج بھی جس طرح زندگی کے تمام شعبوں کے لیے افراد کار کی ضرورت ہے، اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی رجال کار کی ضرورت ہے۔
سچائی یہی ہے کہ ہم نے اس شعبہ کو چھوڑ دیا تو نااھل اور غیر مستحق لوگ اس پر قابض ہوگئے، ضرورت تھی کہ علماء کرام اپنی سرپرستی میں بعض نوجوانوں اور نئی نسل کے لوگوں کو سیاسی عمل کے لیے بھی تیار کرتے، ان کی تربیت کرتے، اگر ماضی میں یہ کام ہوا ہوتا تو آج ہم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا؟
ترکی میں اسلام کی نشأة ثانیہ کے علمبردار افراد میں سے ایک مرد جلیل پروفیسر نجم الدین اربکان رح تھے، وہ فرمایا کرتے تھے،، اگر تم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلوگے تو تم پر ایسے لوگ مسلط ہوں گے جو تمہاری طرف توجہ نہیں کریں گے،،( تصویر وطن از طارق ایوبی ندوی، ص، ۲۱۵)
ان تفصیلات کی روشنی میں امت مسلمہ کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اندر سیاسی اور ملی شعور پیدا کریں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے اس دولت سے نواز ہے وہ اس کا صحیح استعمال کریں۔ سیاسی صورتحال کی تبدیلی کے لیے موجودہ وقت میں خاص طور پر امت کو ایک قیادت کے سایے میں اپنے تمام اختلافات کے باوجود متحد ہو اور صورتحال کا مقابلہ کرے۔ بس اس اپیل اور پیغام پرآج کی مجلس ختم کرتا ہوں کہ
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی 💡🔦 ہوگی
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ