محمد قمر الزماں ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
دنیا میں جتنے انسان ہیں، ان میں خامیوں کیساتھ خوبیاں اور اچھائیاں بھی ہیں،انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے ،ان میں بیک وقت ملکوتی صفات بھی ہیں اور حیوانی و بہیمی صفات و خصلت بھی ، فالھمھا فجورھا و تقواھا ،اس کے نفس کا خاصہ اور اس کی فطرت ثانیہ بتائی گئی ہے ۔ الانسان مرکب من الخطاء و النسیان بھی کہا گیا ہے ۔
مولانا محمد احمد صاحب پرتاپگڑھی رح کا مقام انسانیت پر کیا حقیقت پر مبنی شعر ہے ۔
کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعتراف قصور ہے
ہے ملک کو جس کی خبر نہیں وہ حضور میرا حضور ہے
خدا کی کوئی کی مخلوق ایسی ناقص نہیں ہوسکتی، کہ اس میں خیر،خوبی نہ ہو اور بھلائی کا کوئی پہلو اور عنصر نہ ہو۔ان خوبیوں کا پوری کشادہ قلبی اور فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کرنا چاہیے ۔یہی اس کے ساتھ انصاف ہے، اس کی خامیوں کو یاد رکھنا ،اس کا تذکرہ کرتے رہنا اور اس کی خوبیوں اور اچھائیوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دینے کی کوشش کرنا نا انصافی ہے ۔قرآن مجید نے اسی لئے ہدایت دی ہے کہ ،،کسی قوم کی برائی اس کے ساتھ انصاف کا راستہ اور رویہ اختیار کرنے میں حارج نہ ہو جائے ۔ زمانئہ جاہلیت کا ایک شاعر تھا امیہ بن صلت ۔کافر تھا اور کفر پر ہی اس کی موت ہوئی ۔اس کے بعض اشعار بڑے اچھے اور حکیمانہ تھے اور وہ حقائق پر مبنی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشعار کی تعریف کی اور ان اشعار کے محاسن کا برملا اعتراف کیا ۔
اسلامی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ اگر آپ کو کسی کے کسی عمل پر شک و شبہ ہوا اور انہوں اس کی تاویل اور توضیح کردی اور اپنی مجبوری بتا دی، تو آپ اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے اس کی وضاحت کو تسلیم کرلیں اور اس کے باطن اور اندورن کو جھانکنے کی خواہ مخواہ کوشش نہ کریں اور آپ اس کے پابند بھی نہیں ہیں کہ دوسروں کے باطن میں جھانکیں اور دوسروں سے بدظن رہیں ۔ بعض لوگوں کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے عمل سے نالاں ، غیر مطمئن رہتے ہیں اور اس میں خامیاں اور کمیاں ہی تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کے اندر منفی پہلو تلاش کرتے ہیں ،ہہ عادت اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ۔ اسلام اس کی ہمت افزائی نہیں کرتا، بلکہ ایسے لوگوں کے روئے کو غیر شرعی قرار دیتا ہے ۔۔۔
ایک جنگ کے موقع پر جب زور کا معرکہ گرم تھا ، ایک کافر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تلوار کی زد میں آگیا – فوراً اس نے زور سے کلمہ پڑھ لیا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ – لیکن حضرت اسامہ نے اپنا ہاتھ نہیں روکا اور اس کا کام تمام کردیا – جنگ سے واپسی پر وہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس واقعہ کا بھی تذکرہ کیا – یہ سننا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا – آپ نے خفگی سے سوال کیا : ” اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا ، پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا ؟ “حضرت اسامہ نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! اس نے دل سے تھوڑے ہی کلمہ پڑھا تھا – وہ تو محض اپنی جان بچانا چاہتا تھا – “
آپ نے فرمایا :
أفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ ، حَتّى تَعْلَمَ أقَالَهَا أمْ لَا ؟”
(کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ، کہ اس نے اخلاص سے کلمہ نہیں پڑھا ہے – )
یہ جملہ آپ بار بار دہراتے رہے ، یہاں تک کہ (حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ) میری خواہش ہونے لگی کہ کاش میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہوتا ، تاکہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہوجاتے – “
(بخاری : 4269 ، 6872 ، مسلم : 96)
اس حدیث کی بصیرت افروز تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب لکھتے ہیں:
"اس حدیث سے دین کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے – وہ یہ کہ کسی مسلمان کو دوسرے کے دل میں جھانک کر اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے – اس نے کوئی غلط بات کہی ہے تو اسے غلط کہا جائے ، کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کی تردید کی جائے اور صحیح نقطۂ نظر دلائل کے ساتھ واضح کیا جائے ، لیکن اس کی نیت پر حملے نہ کیے جائیں اور اس کی غلط بات اور غلط عمل کو مذموم اغراض و مقاصد سے نہ جوڑا جائے –
آج کل عموماً اس دینی اصول کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا – کسی سے کچھ اختلاف ہوگیا ، بس فوراً اس کی نیت پر حملے شروع کر دیے جاتے ہیں – اس معاملے میں دین دار لوگ بھی پیچھے نہیں ہیں – عموماً اس طرح کے جملے فوراً ان کی زبان یا قلم کی نوک پر آجاتے ہیں :
وہ منافق ہے –
بڑا متکبّر ہے –
خود غرض ہے –
دوسروں کے مفادات کے لیے کام کررہا ہے –
اونچا عہدہ چاہتا ہے –
ذمے داروں سے قربت کا آرزو مند ہے –
اپنا جثّہ بڑا کرنا چاہتا ہے –
اپنی نوکری پکّی کرنا چاہتا ہے –
اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے –
بہت سے لوگ جن سے اختلاف کرتے ہیں ان کے بارے میں بے تکلّف ایسی باتیں کہنے لگتے ہیں – انہیں توجہ دلائی جائے کہ یہ سب کہنا درست نہیں ہیں تو بھی نہیں مانتے – ان لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ کسی کے دل میں جھانکنے کا حق اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو نہیں دیا ہے – کسی کی نیت پر حملے کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے غضب کو دعوت دیتا ہے ، اس لیے ہر حال میں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ” ( مستفاد از تحریر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت ہے کہ ہم منکر پر نکیر کریں، غلط کو غلط کہیں، نقد و احتساب کریں ۔تاکہ سماج میں برائی اور غلط بات پنپنے نا پائے، لیکن نرمی اور حکمت و موعظت کیساتھ ، موقع و محل کی رعایت کیساتھ، منکر کے درجہ اور حیثیت کو دیکھتے ہوئے مثبت انداز لیے ہوئے ، نیزاپنا محاسبہ بھی کرتے ہوئے یہ نا ہوکہ ہمیشہ بس دوسروں کی اصلاح پیش نظر رہے اور اپنی اصلاح سے غافل اور بے پرواہ ۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔