افادات: حضرت مولانا مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہمنائب شیخ الحدیث و صدر مفتی دار العلوم حیدرآبادضبط وترتیب: محمد عبد العلیم قاسمی(جمادی الاولی ۱۴۴۵ھ)
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره و نؤمن به و نتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضللہ فلا هادي له ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ونشهد أن سيدنا ونبينا محمدا عبده ورسوله، أما بعد! فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم:وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ. (البقرة: 48)
میرے محترم بزرگو اور دینی بھائیوا ابھی جس آیت کریمہ کی تلاوت کی گئی ہے وہ در حقیقت ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو بحکم خداوندی بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے لگے، یہ سلسلہ سولہ یا سترہ مہینوں تک جاری رہا؛ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ملے، یہ خواہش اس لیے تھی کہ بیت اللہ ملت ابراہیمی کی نشانی و یادگار تھا، حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے طوفان نوح کے بعد اس کی تعمیر فرمائی تھی، اسی خواہش کی بنا پر آپ کی نگاہیں نماز میں بھی آسمان کی جانب اٹھتی تھیں، بالآخر ایک دن اللہ تعالی کی جانب سے حکم آہی گیا کہ اب سے اہل اسلام کا قبلہ بیت اللہ کو متعین کیا جاتا ہے، اس حکم کے آتے ہی مخالفین نے کافی کچھ کہنا سنانا شروع کردیا اور پروپیگنڈہ کیا کہ سارے انبیاء کا قبلہ بیت المقدس تھا، اس نبی نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے بیت اللہ کو قبلہ بنالیا، اور اگر بیت المقدس غلط قبلہ تھا تو اتنا لمبا عرصہ اس جانب رخ کرکے کیوں نماز پڑھ رہے تھے، حالاں کہ ظاہر ہے کہ یہ سب اللہ کے حکم سے ہورہا تھا، پہلے اللہ کا حکم بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا تھا تو اس کو قبلہ بنایا گیا، اور بعد میں بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم آیا تو اس پر عمل آوری کی گئی، بندہ کسی قبلہ کا پابند نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالی کے حکم کا تابع ہے۔
بحث و مباحثہ کے بجائے عملی زندگی کی تعمیر
لیکن جب یہود نے زبردست پروپیگنڈہ چلانا شروع کیا اور مسلمانوں سے الجھنے لگے تو یہ آیت نازل ہوئی:
وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (البقرۃ: 148)
اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے؛ لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم جہاں بھی ہوگے اللہ تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔ یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی )لوگ قبلے کی تبدیلی پر اعتراض کررہے تھے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے اپنے قبلے الگ الگ بنارکھے ہیں اور تمہارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو کسی ایک قبلے پر جمع کرسکو، لہذا اب ان لوگوں سے قبلے کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں اپنے کام میں لگ جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اپنے نامہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اضافہ کرو اور اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، آخری انجام یہ ہوگا کہ تمام مذہبوں والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلائے گا اور اس وقت ان سب کی ترکی تمام ہوجائے گی وہاں سب کا قبلہ ایک ہی ہوجائے گا، کیونکہ سب اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
دین میں مسابقت کا جذبہ
یہ اسلام کا امتیاز ہے، اسلام عبادات میں بھی مسابقہ کا تصور دیتا ہے، ایک شخص پنج وقتہ نماز با جماعت ادا کررہا ہے، تو دوسرا اس کو دیکھ کر یہ کوشش کرے کہ میں تکبیر اولی کے ساتھ پڑھوں گا، تیسرا یہ کوشش کرے کہ میں پہلی صف میں امام کے قریب نماز پڑھوں گا، چوتھا یہ کوشش کرے کہ میں فرائض کے ساتھ سنن بھی پڑھوں گا، غرض اس طرح ایک ایک عبادت آگے بڑھنے کے جذبے کے ساتھ اپنی زندگی میں لانا چاہیے، آج ہمارا مزاج دنیوی چیزوں میں مسابقے کا ہے، کسی کی عمدہ گاڑی دیکھ کر ہمارے دل میں بھی اس کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے، کسی کا عمدہ مکان دیکھ کر ہم بھی اس جیسا مکان ہونے کی تمنا کرنے لگتے ہیں، کسی کے اعلی معیارِ زندگی دیکھ کر ہم بھی اس کے مطابق بننا چاہتے ہیں، شریعت نے اس کو پسند نہیں کیا ہے، شریعت کی نظر میں اس دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس لیے شریعت مؤمن سے یہی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ عبادات میں آگے بڑھے۔
صحابہ کا جذبۂ مسابقت فی الدین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ تنگ دست مہاجر رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: بلند درجے اور دائمی نعمت تو زیادہ مال والے لوگ لے گئے! آپﷺ نے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ اسی طرح نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں، وہ اسی طرح روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں اور وہ صدقہ کرتے ہیں جبکہ ہم صدقہ نہیں کر سکتے، وہ (بندھے ہوؤں اور غلاموں کو) آزاد کرتے ہیں جبکہ ہم آزاد نہیں کر سکتے، تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تو کیا پھر میں تمھیں ایسی چیز نہ سکھاؤں جس سے تم ان لوگوں کو پا لو گے جو تم سے سبقت لے گئے ہیں اور اس کے ذریعے سے ان سے بھی سبقت لے جاؤ گے جو تم سے بعد (آنے والے) ہیں؟ اور تم سے وہی افضل ہو گا جو تمھاری طرح عمل کرے گا۔‘‘ انھوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! (ضرور بتائیں) آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ہر نماز کے بعد تینتیس(33) مرتبہ تسبیح، تکبیر اور تحمید (سُبْحَانَ اللہِ ، اَللہُ اَکْبَرُ ، اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) کا ورد کیا کرو‘‘ ابو صالح نےکہا: فقرائے مہاجرین دوبارہ رسو ل اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی جو ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں سن لیا ہے اور اسی طرح عمل کرنا شروع کر دیا ہے (وہ بھی تسبیح، تکبیر اور تحمید کرنے لگے ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمادے۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۵۹۵)
نبی کریم ﷺ کا جذبۂ مسابقت
اسلام کی سب سے پہلی لڑائی غزوۂ بدر میں سواریوں کی قلت تھی، اتنی قلت کہ ایک اونٹ پر کئی لوگ باری باری سوار ہوا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اونٹ میں حضرت علی اور حضرت ابولبابہ تھے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اترنے کی باری آئی تو ان دو صحابہ نے عرض کیا: حضور! آپ سوار ہی رہیں، ہم پیدل چل لیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جو جواب ارشاد فرمایا وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے اور دین و تقوی کے سب سے اعلی معیار پر فائز ہونے کے باوجود خیر کے کاموں میں اور ثواب کے حصول میں آپ کے جذبۂ سبقت کو واضح کرتا ہے، آپ نے فرمایا:
ما أنتما بأقوى منِّي، ولا أنا بأغنى عن الأجر منكما۔
کہ تم دونوں مجھ سے طاقتور نہیں ہو کہ پورا راستہ پیدل چل سکو؛ بلکہ مجھ میں زیادہ طاقت ہے (واقعی ہر نبی جسمانی لحاظ سے بھی طاقتور ہوتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنتی مردوں کے مقابلہ میں چالیس انسان کی قوت دی گئی تھی، (بخاری)اور جنت میں ایک مرد کو دنیا کے انسان کے مقابلے میں ایک سو ہوگی،(فتح الباری) گویا حضورﷺ کے اندر چار ہزار انسانوں کی قوت تھی، اور اسی لیے آپ تو صوم وصال رکھا کرتے تھے؛ لیکن صحابہ کو اس سے منع کردیا تھا۔) اور جس طرح تم دونوں ثواب حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہو مجھے بھی ثواب کی حاجت ہے۔یہ ایک نبی کا جذبہ ہے جس کے سارے گناہ معاف ہیں، جس کے لیے سب سے بلند و اعلی ٹھکانہ مقرر ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے اندر مسابقت فی الدین کا جذبہ پیدا کریں، جب یہ جذبہ پیدا ہوگا تو دین کے ایک ایک جزئیہ پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت پر عمل کرنا ہمارے لیے آسان ہوجائے گا، اعمال صالحہ کی کمی و قلت کو علاماتِ قیامت میں سے شمار کیا گیا ہے، یہ کمی ہمارے اندر در نہ آئے؛ بلکہ ہمارے اعمال صالحہ میں — خواہ ان اعمال کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے معاشرت سے یا اخلاق سے — روز بروز اضافہ ہوتا رہے، اللہ تعالی توفیق عمل نصیب فرمائے، آمین۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ