حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی
انسان انس سے نکلا ہے ، انس کے معنی میں بہت وسعت ہے، مناسبت، تعلق ،رشتہ ،پیار محبت ،درد شفقت اور جذئہ ہمدردی، یہ سب اس میں شامل ہیں ۔ اگر انسان کے اندر یہ چیزیں ہیں اور ان صفات سے متصف ہے، تو واقعتاً وہ انسان ہے اور اس کے اندر انسانیت باقی ہے۔ لیکن اگر ان چیزوں سے خالی اور ان صفات سے عاری ہے،تو وہ نام کا تو انسان ہے ،لیکن صحیح معنی میں وہ انسان نہیں ہے ۔
انسان کا مطلب ہے کہ اس کے اندر انس، ہم دردی، غمخواری،تعلق ، درد و محبت اور شفقت ہو ،ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا وہ ساتھی بنے ،کسی پر کوئی پریشانی اور مصیبت آئے تو اس کا دل کڑھے اور پسیج چائے ،پریشان اور بے چین ہو جائے ۔ اس کی کیفیت یہ ہو کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
آج بھی الحمد تمام تر برائیوں اور خرابیوں کے باوجود ایک بڑی تعداد ہے ،جو دوسرے کے درد اور تکلیف پر بے چین و پریشان ہو جاتے ہیں، جو دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں اور کسی کی بے بسی اور بے کسی پر رحم اور ترس کھاتے ہیں اور یہ کہہ کر آدمیت اور انسانیت کا ثبوت دیتے ہیں کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
ہم یہاں دو ایسے ہی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،جس سے پتہ چلے گا کہ انسانیت آج بھی ژندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیرالہ کے ایک ریستوران میں دو غریب بھوکے بچوں کو ایک ریستوران میں کھانا کھلانے والے شخص کو جب ہوٹل نے بل دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بل تھا ہی ایسا کہ آپ بھی جانیں گے تو جذباتی ہو جائیں گے۔
اس واقعے میں یہ ہے کہ ایک شخص ملپ پورم کے ایک ریستوران میں کھانا کھانے گیا۔ جب کھانا آ گیا تو اس کی پلیٹ کو باہر سے دو بچے حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس نے اشارہ کرکے انہیں اندر بلا لیا۔بچوں سے اس شخص نے پوچھا کہ کیا کھاو گے تو بچوں نے اس پلیٹ میں لگی چیزوں کو کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ بچے بھائی بہن تھے اور پاس ہی کسی جھگی میں رہتے تھے۔اس شخص نے دونوں کے لئے کھانے کا آرڈر دیا اور ان کے کھانے تک اس نے خود کچھ نہیں کھایا۔ دونوں بچے کھا کر اور ہاتھ دھو جب چلے گئے تو اس نے اپنا کھانا کھایا اور جب کھانے کا بل مانگا تو بل دیکھ کر وہ رو پڑاکیونکہ بل پر اماﺅنٹ نہیں لکھا تھا صرف ایک تبصرہ تھا
"ہمارے پاس ایسی کوئی مشین نہیں جو انسانیت کا بل بنا سکے”۔
ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کریں ۔۔۔
ایک ریڑھی والے سے دال چاول کھانے کے بعد میں نے پوچھا: بھائی! خوشاب کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سامنے اس ہوٹل کے پاس۔
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی۔ چائے واقعی بڑی مزیدار تھی۔ جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ چاول والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں۔ واپس دوڑتے ہوئے چاول والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں، میں نے آپ سے چاول تو کھائے ہیں؛ لیکن پیسے نہیں دیے؟
تو چاول والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا: بھائی! جس کے بچوں کی روزی اِن ہی چاولوں پہ لگی ہے، وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟
تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
تو کہنے لگے: بھائی! یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں، اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
بلاشبہ اس دنیا میں سارے انسان مفاد پرست اور خود غرض نہیں ہوتے ،بلکہ انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے انسان بھی اس دھرتی پر بستے ہیں ،جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا سر فخر سے بلند کر دیتے ہیں ۔ اس پر فتن دور میں بھی انسانیت کی فلاح و خیر خواہی ،انسانیت سے محبت اور انسان دوستی کے لیے بے لوث خدمات انجام دینے والے افراد موجود ہیں اور درحقیقت معاشرہ ان ہی نیک سیرت و مخلص کردار لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے ۔ (خطبات جمعہ)
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ