عید کا دن : از مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
(مولانا دریابادی کا یہ نشریہ۱۲/اکتوبر۱۹۴۲ءکی شام کوعیدالفطر کے موقع پرلکھنؤریڈیو اسٹیشن سے نشرہوا تھا۔اس تقریر سےتہذیبی اور ثقافتی عناصر کے علاوہ عید کی مقدس تقریب کا نہ صرف شرعی طریقہ پورے طورپراظہر اورعیاں ہوتا ہے، بلکہ اس کی انفرادیت و عظمت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ م ۔ ق۔ ن
"عیدکادن ہماری بول چال اورشاعروں کے روزمرہ میں اگراپنا ثانی کوئی رکھتا ہے تو وہ شب برات کی رات ہے۔ گویا یاروں کاکہنا یہ ہے کہ شب برات اگر نام ہے حلوہ اڑانے کا آتش بازی چھڑانے کا،توعیدبھی نام ہے گلے ملنے ملانے کا سوئیاں کھانے کھلانے کا۔لیکن شعروشاعری کے ’ضلع‘ اورادب کے ’اردوبازار‘ سے اگر دین داروں کے عبادت خانہ کی طرف قدم رنجہ فرمائیے تو نقشہ ہی جدا پائیے ۔
فجرکے اول وقت اذان ہوئی کہ گھرگھر چہل پہل شروع ہوگئی۔ بچے روزجگانے سے بھی نہ جاگتے تھے ،آج بے اٹھائے آپ ہی اٹھ بیٹھے ۔ رات بھر مارے خوشی کے نیند ہی کسے آئی تھی؟بڑے بوڑھوں نے رات کی نفلیں تک توچھوڑی نہ تھیں، دعائیں مانگتے مانگتے صبح ہی کردی تھی، پھرجماعت میں دیرکیوں کرنے لگے۔ آج مسلمان گھروں میں نہان ہے، جسے دیکھیے اپنی جگہ لوئی کوہنے [علاج بالغسل کا موجد] بنا ہوا غسل کے انتظام میں سرگرم ۔ مہینہ بھرآخر روح کو رگڑ رگڑ کرصاف کیا ہے نفس کوطرح طرح صیقل کیاہے، حق ہے کہ آج جسم بھی روح کی ہم رنگی اختیار کرے اورظاہرباطن کی لطافتوں کاساتھ دے!
غرض نکھری روح ،ستھراجسم، اجلے کپڑے، روزہ دار مسلمان اس شان اور اس آن کے ساتھ گھرسے نکلا، غریبوں کی ضرورتیں پوری کرتاہوا، یتیموں بیواؤں کے حلق میں دانہ ڈالتا ہوا، مفلسوں کی کھلی ہوئی مٹھیاں بندکرتا ہوا کہ شریعت میں اس کانام صدقۂ فطرہے اور یہ واجب ہے۔ کوئی دینے میں دیرکرے گا تو اپنے روزوں کے اجرکو ادھڑمیں لٹکائے رہے گا۔ قدم عیدگاہ کی راہ پر پڑ رہے ہیں اورزبان ولب ہیں کہ اللہ کانام جپ رہے ہیں ۔ آج مسلمان کی خوشی کادن ہے۔آج وہ اپنے سالانہ جشن میں پورے ارمان نکال کر رہے گا۔ گانا نہ بجانا، ناچ نہ مجرا، گالیاں نہ بدمستیاں، زبانوں پر بس نعرہ تکبیر اورزمزمۂ توحید، اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ۔ اللہ اللہ مسرت کی مدہوشیوں میں اتنا ہوش، دو ایک دن نہیں پورا مہینہ انھوں نے مجاہدوں میں گزار دیا ہے، دن دن بھربھوکے رہے ہیں پیاسے رہے ہیں، کھانے کے ایک دانہ سے پانی کے ایک قطرہ سے اپنے کوروکے رہے ہیں۔ راتیں جاگ جاگ کرکاٹی ہیں، تراویح کی لمبی لمبی نمازیں پڑھی ہیں۔ تہجد کے بعد لمبی لمبی دعائیں مانگی ہیں، عیدکی مسرت انھیں نہ ہوگی تو اورکس کوہوگی؟
دن خاصا چڑھ چکا، گلی گلی سے مسلمان نکل رہے ہیں ، بوڑھے بھی بچے بھی ادھیڑبھی ، کوئی پیدل کوئی سوار، سب عیدگاہ کی طرف روانہ ،کوئی میلہ ہے؟ کوئی تماشا ہے؟ کوئی دنگل ہے؟ کوئی کارنیوال ہے؟ جی نہیں صرف نماز پڑھنے ، ایک ان دیکھے حاکم کے آگے جھکنے اورگرنے۔ لیکن یہ اتنی بڑی تعداد میں نمازی کہاں سے پیداہوئے؟ نماز تو آخر روز ہی فرض تھی روز اتنا مجمع کیوں نہیں ہوتا؟ اوراس ہجوم میں تو وہ بھی نظرآرہے ہیں جوایک ایک اٹھوارہ کیامعنی ایک ایک سال گزرجاتاہے اورسجدہ نہیں کرتے، تویہ بات کیاہے جو عیدگاہ کی کشش ان بے نمازیوں کوبھی کھینچے لیے جارہی ہے؟ یاد آیا وہ ایک سچے نے کہا تھا نا کہ عیدکے تڑکے سے ایک اللہ کافرشتہ پکار کرتا رہتاہے لوگوں نماز کے لیے چلو۔ ہونہ ہویہ اسی کااثر ہے اسی نورکا ظہورہے۔ فرشتہ کی آواز سننے کی تاب توبھلاہمارے یہ مادی کان کیا لاسکتے ہیں،لیکن دل کے کانوں نے سُنا اورسال سال بھرکے بے نمازی آج نمازی بن گئے۔
عیدکادن صدقہ وخیرات کادن ہے، چھَٹی نماز کا دن ہے، مالی اوربدنی دونوں عبادتوں میں مزیداضافہ کا دن ہے، اللہ اور بندوں دونوں کے حق اداکرنے میں اور زائد فکر و اہتمام کا دن ہے۔ عیدکی نماز روزکی پانچ نمازوں کے علاوہ ایک چھَٹی نمازہے، صبح کے بعد اوردوپہر سے پہلے، رکعتیں کل دو،لیکن تکبیریں کئی زائد۔ عیدگاہ عیدگاہ کا نام کئی بار آچکا، خیال ہوتاہوگا کہ کوئی بڑی عالی شان عمارت ہوگی، آراستہ وقابل دید ۔ جی یہ کچھ نہیں نہ تصویریں نہ فرنیچر، نہ ہا ل نہ برآمدہ، نہ دالان نہ شہ نشین ، نہ بالاخانے نہ دریچے۔ مکانیت اتنی بھی نہیں جتنی کہ معمولی مسجدکی ہوتی ہے۔ پٹی ہوئی چھت تک سے محرومی، دھوپ کابچاؤ نہ بارش سے پناہ ،بس ایک لمبی سیدھی سی قناتی دیوار مغرب کی جانب، بیچ میں ایک منبر اور سامنے ایک چبوترہ ۔کل یہ کائنات اوراس میں کشش اس غضب کی!بے جسم وبے مکان، بے صورت وبے تصویروالے خداکی عبادت گاہ ہونی چاہیے بھی ایسی ہی سادہ، ایسی ہی بے رنگ !خالق کائنات کی عظمت اور مخلوق کے ہیچ ہونے کاتصور جیسااس ماحول میں پیدا ہوسکتا ہے اورکہیں کہاں ممکن ؟
نمازی جمع ہولیے تواب نمازکی تیاریاں شروع ہوگئیں ۔گھنٹہ گھنٹی توکبھی بھی نہیں ہوتا آج اذان بھی نہ ہوئی۔ خلقت خود ہی ٹوٹی پڑتی ہے دوڑی ہوئی کھنچی ہوئی چلی آرہی ہے، پھربلانے کی پکارنے کی ضرورت ہی کیا۔ صفیں کھڑی ہونے لگیں اورکچھ دیراُن کی درستی ہوگی۔ اسلام کانظام سارے کاسارا نیم عسکری ہے، صفوں کی درستی کی اس میں بڑی اہمیت ہے، اس کی قدرکوئی فوج والوں سے پوچھے ۔خیرصفیں ٹھیک ہوگئیں اورسب ایک ساتھ کھڑے ہوگئے ۔بوڑھے بھی جوان بھی، امیربھی غریب بھی، خادم بھی مخدوم بھی، زردار بھی ناداربھی، محمودبھی ایازبھی، عطرمیں ڈوبے ہوئے رئیس بھی، پسینے میں لت پت مزدور بھی، قدم سے قدم ملائے ہوئے شانہ سے شانہ بھڑائے ہوئے ۔سب ایک ہی امام کے پیچھے ،اس کی ایک آوازپر،سب اس کے پیچھے دست بستہ کھڑے ہوگئے، اسی کی آواز پرسب ایک ساتھ جھکیں گے،سب ایک ساتھ گریں گے، سب ایک ساتھ اٹھیں گے۔ شخصیتیں مٹ گئیں تفرقے فنا ہوگئے ، پرزے مشین میں فٹ ہوگئے، اینٹ اینٹ جڑ کردیواربن گئی۔ عبودیت کے روحانی پہلوؤں کوچھوڑیے ، ربط اجتماعی کاعجیب وغریب نظارہ! اپنوں کو قدر ہو یانہ ہو باہرکے اہل نظرتونظم واطاعت (ڈسپلن) کے اس پراثر منظرپر لوٹ لوٹ گئے ہیں۔ امریکہ کے ڈاکٹر Denisan اوریورپ کے بشپ Lfray,اور سرٹامس آرنلڈ،یہ تین نام تواس وقت برجستہ یادہی پڑگئے۔
امام نے سلام پھیراتوسب ہی نمازسے باہرآگئے ۔اب خطبہ کی باری آئی، امام نے خطبہ سنایا،اسلام کی سرکاری زبان عربی میں، عیدکے مسائل اورعیدکے فضائل پر۔یہ بھی ہولیا تو اب دعاکے لیے ہاتھ اٹھے اوردعامانگی گئی ذرالمبی سی۔ اس کے بعد سب اٹھ کھڑے ہوئے اورواپسی شروع ہوئی۔ عیدگاہ کے باہر جودکانیں لگی ہوئی ہیں ان کی سیرکرتے ہوئے ، سوداخریدتے ہوئے دین کے تحت اورضمن میں دنیاکابھی نفع کماتے ہوئے ۔ بازارکاسماں دکھانے میں کوئی سرورکاقلم اورفسانۂ عجائب کی زبان کہاں سے لائے! حلوائی صاحب ہیں کہ گاہکوں کے پرچانے میں لبھانے میں خودہی قندکی طرح گھلے جاتے ہیں، باتیں وہ میٹھی میٹھی بناتے ہیں کہ سننے والے ہونٹ چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ کبابیوں کے ہاں کی خوشبو ناک میں آجائے تومنعم کے منہ میں پانی بھرآئے اورمفلس کادل حسرت سے خود کباب ہوجائے۔ ہوا دیتے جاتے ہیں سرخ سرخ سیخوں کوبھی اور خریداروں کی آتش شوق کوبھی۔ کہیں چائے کے دَوردلوں کوگرمائے ہوئے کہیں کھلونے والے اپنی صداؤں سے آسمان سر پراٹھائے ہوئے۔ اِدھر پھیری والوں کی چیخ پکار، اُدھر حقہ پان سگریٹ کی دوکانوں پر بہار۔ نان بائیوں کے ہاں دیگیں چڑھی ہوئیں، برف والوں کے ہاں قلفیاں جمی ہوئیں۔
نمازیوں کی واپسی ہوئی تودوسرے راستہ سے اوراس راستہ میں بھی وہی توحید کا کلمہ پڑھتے پڑھاتے ، اللہ کی حمدسناتے، اللہ کی بڑائی جتاتے ۔گھرسے نکلے تھے عبدیت کا فرض اداکرنے، گھرمیں داخل ہوئے اس فرض کواداکرکے ۔ دن بھرملنے ملانے میں صرف ہوا، دوستوں سے عزیزوں سے، اپنوں سے بیگانوں سے ،جن کے ہاں کبھی نہیں جاتے تھے، آج جائیں گے۔ جوان کے ہاں کبھی نہیں آتے تھے آج آئیں گے۔ خاطرداریاں مہمان نوازیاں دن بھرجاری رہیں گی۔ اس میں نمازظہرکی بھی ہوگی عصرکی بھی، یہاں تک کہ وقت مغرب کاآجائے گااوراللہ اکبرکی آوازیں بلندہونا اورانسانی حلق کےTransmitter سے یہ نشرہونا تمام ہوگا۔ شروع ہواتھا اللہ اکبر کی کبریائی کے اعلان سے، ختم ہوگا اللہ اکبرکی کبریائی کے اعلان پر!”
(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی، ۲۰۱۶ء)
٭٭٭