حضرت مولانا محمد قمرالزماں ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہوتا ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجئے
*مذکورہ* شعر ایک دل جلا اور دل شکستہ شاعر *ساغر صدیقی* کا ہے ،جس کی زندگی کے نشیب و فراز پڑھ کر بہت ترس اور رحم آتا ہے۔ دیدئہ عبرت نگاہ ہو تو بہت کچھ سمجھنے اور سبق لینے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ صحیح تربیت نہ ہونے اور وقت پر مربی و اتالیق اور نگراں و سرپرست نہ ملنے کی وجہ سے یا اس طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے غلط دوستی، بری صحبت ، غلط ماحول اور یارانہ سے انسان کی زندگی کس قدر تباہ و برباد و عبرت نشاں ہوجاتی ہے،اور کیسی کیسی صلاحیت والے اور قابل و لائق افراد بگاڑ و فساد کے قعر مذلت میں گر جاتے ہیں۔ کہ پھر ان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ
دیکھو انہیں جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
*ساغر* صدیقی نے خود ایک بار اپنے بارے میں کہا تھا ۰۰
،،میری ماں دلی کی تھی ،باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا زندگی لاہور میں گزاری ،میں بھی عجیب چوں چوں کا مربہ ہوں،،
*ساغر صدیقی ۱۹۲۸ ء میں انبالہ مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد اختر شاہ تھا، والد کا نام حبیب حسن خاں تھا ۔ کم عمری ہی میں شاعری شروع کر دی تھی، ایک زمانے تک علوم شرقیہ کالج کے مشاعرہ میں ان کی شاعری کی دھوم رہی ۔ وہاں کا سالانہ مشاعرہ ان کے بغیر ادھورا رہتا ۔ ایک زمانہ میں ماہنامہ تصویر کے ایڈیٹر بھی رہیے۔ فلمی اخبار اور ماہنامہ بھی نکالا ۔ تقسیم ملک کے وقت جب کہ ان کی عمر صرف ۱۹ سال کی تھی، وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں کے ادبی حلقہ سے جڑ گئے ۔ بر صغیر* کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ان کی یارانہ اور دوستانہ تعلقات و مراسم تھے ۔ ۱۹۵۸ء میں ایک صحافی سے ان کی دوستی اور راہ و رسم ہوا اور جس کی غلط صحبت اور دوستی نے ساغر صدیقی کی زندگی برباد کر ڈالی اور وہ نشے ( چرس / افیم و مارفینا) کا ایسا عادی ہوا کہ ان کی زندگی لوگوں کے لئے داستان عبرت بن گئ ۔ خاندان بکھر چکا تھا اس بکھراؤ کی وجہ سے خاندان کا کوئی ایسا مربی، سرپرست اور نگران نہیں ملا ،جو ان کو اس بیماری اور ام الخبائث سے (انہیں) روکتا اور ان کو برباد ہونے سے بچاتا ۔ دوستوں نے دغا کیا، تو حکومت نے بھی کبھی ان کی حالت زار پر ترس نہیں کھایا ۔ جنرل ایوب خاں کی شان اور اس کی حکومت کے بارے میں ایک بار انہوں نے کوئی قصیدہ لکھا اور جنرل صاحب کی خوب تعریف کی ان کی حکومت کو سراہا ،جنرل ایوب خاں نے خوش ہوکر ان کو ایک تقریب میں بلا کر انعام دینا چاہا اور ان کو دعوت دی، ساغر نے اس کو اپنی ۰۰انا ۰۰اور ۰۰خود داری۰۰ کے خلاف جانا اور انعام لینے سے انکار کر دیا اور ماچس کے ڈبے پر ایک شعر لکھ کر صدر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا ۔ شاید وہ شعر تھا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی خوبصورت نظمیں لکھتے تھے ،اور پھر انہیں بلند آواز میں خالی نگاہوں کے ساتھ پڑھتے ،پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ہوتیں، اس کے بعد کاغذ کے پرزوں کا ڈھیر بنا کر اسے آگ لگا دیتے ۔ ساغر صدیقی کے دوستوں نے اس کے ساتھ بے وفائی کی اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، ان کے بیشتر دوستوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا ۔یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا افیم اور مارفینا کے ٹیکے کی شیشیاں اور گولیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے ،اپنے نام سے پڑھتے اور شائع کراتے معاوضہ لیتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے ۔ مہدی حسن خان سمیت کتنے ہی اپنے ضمیر کے مجرم ہیں ۔ جو ان کی غزلیں ،نظمیں گاتے رہے اور داد و تحسین لیتے اور سمیٹتے رہے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے لیکن اس درویش کی کوئی خبر نہ لی، کہ وہ کس حال میں ہے ۔ کچھ نے تو ان کی کہی ہوئی غزلیں ادبی رسالوں کو مہنگے داموں میں بیچیں اور بعض تو اس حد تک چلے گئے کہ انہیں اپنے نام سے بھی چھپوا دیا ۔ جب دنیا اس باصلاحیت انسان کو بھول گئی، ساغر نے بھی دنیا کو تیاگ دیا ۔ سالوں وہ اسی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتے رہے، لوگ انہیں فقیر یا بھکاری سمجھ کر کھانے کو کچھ دے دیتے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حال میں بھی وہ زبردست شاعری کرتے رہے ،حالانکہ لاغر پن اور شدید جسمانی کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے خود اپنے منھ سے بولنا اور ایک باقاعدہ جملہ ادا کرنا ممکن نہ رہا ۔ کئی سال تک ایک آوارہ کتا ان کا ساتھی بنا رہا ،انہیں جو کچھ کھانے کو دکان داروں سے ملتا دونوں بانٹ کر کھاتے ۔ فٹ پاتھ پر ہمیشہ سوتے سخت سردی کے زمانے میں ہوٹل کے تندور پر ہوٹل بند ہوجانے کے بعد سوجاتے اور اسی طرح سردی کی رات گزار دیتے ۔ ایک بار کسی دوست نے شاید امین گیلانی نے ایک لحاف بنوا کر دیا لحاف لے کر جب وہ فٹ پاتھ کی طرف بڑھے تو دیکھا ایک فقیر ،بھکاری سردی سے کانپ رہا ہے، فورا وہ لحاف اسی کو دے دیا ۔ اور خود ہمیشہ بغیر لحاف اور کمبل کے سردی کی رات گزار دی ۔ اس کتے کے ساتھ اس کی ایسی دوستی ہوگئی اور کتے کو ان کے ساتھ ایسی انسیت ہوگئی تھی کہ وہ کتا ان کے ساتھ ہی رہتا اور ان کے ساتھ ہی سوتا ۔ سڑک کے جس کونے پر ساغر اپنا بستر بناتے وہ بھی وہیں پڑ جاتا ۔ پندرہ سال تک مارفین اور چرس و افیم کے نشے ،ڈپریشن اور آوارگی کی زندگی نے آخر اپنا رنگ دکھایا چنانچہ ۱۹ جولائی انیس سو چوہتر صبح کے وقت ان کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جاکر انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا ۔ وہ ٹھنڈ لگنے سے نیند کے دوران ہی فوت ہوگئے ۔ ان کی عمر صرف چھیالیس برس تھی ۔ وہ کتا جو چھ سال تک ان کے ساتھ رہا اس جگہ سے نہ ہلا جہاں ساغر صدیقی فوت ہوئے ۔ بل کہ آخر ساغر کی موت کے ایک سال بعد وہ بھی مرگیا ،ٹھیک اسی جگہ جہاں ساغر نے اپنی جان دی تھی ۔
ساغر نے غزل ،نظم قطعہ رباعی ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے ۔ وہ خود تو اسے کیا چھپواتے، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبہ اور پائی تک نہ دیا ۔ چھ شعری مجموعے اس کی زندگی میں لاہور سے چھپے ۔ غم بہار۔ زہر آرزو۔ لوح جنوں۔ سبز گنبد اور شب آگئی، ساغر کا کلام ادبی اعتبار سے بہت جاندار ہے اور زندہ رہنے کا مستحق ہے ۔
ان کی ایک غزل ہے ۔
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
ان گنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بج گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
جس سے اشنائہ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دئے
یقینا ساغر کی شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا ان کی ایک غزل ہے ، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں پیتے ہیں کہ عالم سے بے خبر ہو جاتے ہیں، تو انہوں نے یہ غزل کہی ۔
میں تلخئی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شئی کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور!
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیا کے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو کانٹے ہیں ان سے گلہ کیا
پھولوں کے واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجئے حضور!
ان کی گذارشات سے گھبرا کے پی گیا
ایک اور غزل ہے ۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے خود اپنی نگاہوں پہ اعتماد نہیں
میرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
کہتے ہیں کہ ایک بڑے مشاعرہ میں جب ساغر صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا اور غزل پڑھ کر اپنی جگہ واپس آئے تو ان کے بعد جگر مرادآبادی کو دعوت سخن دی گئی، انہوں نے کہا کہ مشاعرہ کا جو حاصل تھا ،وہ ساغر کی غزل نے پوری کردی، اب کوئی غزل پڑھنے کی ضرورت کیا ہے؟ اور یہ کہہ کر اپنا کلام اسٹیج پر ہی پھاڑ دیا ۔ اس غزل کو آپ قارئین بھی سنیں اور محظوظ ہوں ۔
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے پلٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینہ کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقام خواجگی
ہرکس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر!
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغر راہ گزار عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
، ساغر صدیقی کی زندگی کی یہ تفصیلات لوگوں نے اپنی اپنی معلومات کے اعتبار سے بیان کیا ہے ،آپ گوگل اور فیس بک پر جاکر سرچ کریں گے تو وہاں بھی یہ تفصیلات آپ کو مل جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال ساغر کی زندگی یقینا دیدئہ عبرت نگاہ ہے ،اس لئے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور کبھی اپنی ذہانت و فطانت اور قابلیت پر ناز و فخر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایسے لوگوں کی معیت تلاش کرنی چاہیے جہاں اگر غفلت و کوتاہی ہو تو کوئی ہاتھ پکڑ کر صحیح راستہ بتانے والا موجود ہو ۔
ساتھی ہی نتائیج و عبر کے لیے یہ لکھنا پڑتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے آج کتنے نوجوان ہیں جو بہترین صلاحیت و استعداد کے مالک ہیں، جن کے اندر بے پناہ ذہانت اور قابلیت ہے ،لیکن ماحول اور صحیح تربیت نہ ملنے کی وجہ سے اور والدین کی بے توجہی اور غفلت کی وجہ سے وہ نوجوان بھی نشہ اور ڈرگس کے عادی ہوچکے ہیں اور اپنی قیمتی عمر اور قیمتی صلاحیت کو برباد کر رہے ہیں،خاندان اور سماج کے لئے درد سر اور مصیبت بن رہے ہیں ،نیز قوم و ملت کی جگ ہنسائی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔۔
آج سینکڑوں نوجوان ہیں جو ساغر صدیقی کی راہ اور ڈگر پر چل رہے ہیں،اور یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ ان کی صحیح تربیت سے والدین کے اندر غفلت پائی جارہی ہے ،ان نوجوانوں میں مقصد زندگی کا شعور بھی نہیں ہے ،غلط ماحول اور جہالت و ناخواندگی بھی اس کا سبب ہے،نیز خوف خدا اور خوف آخرت کا فقدان ،والدین کی غفلت و بے توجہی، اور موجودہ ملکی تعلیمی نظام اور متعفن ماحول بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے ،ضرورت ہے کہ ہم سب تعلیم سے کہیں زیادہ اولاد کی صحیح اور مناسب تربیت پر توجہ دیں اور ان کی زندگی کو امت کے لئے مفید بنائیں اور ان کو ضائع اور برباد ہونے سے بچائیں ۔۔۔۔۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ