مفتی محمد سلمان منصور پوری
نائب مفتی مدرسہ شاہی مرادآباد
فہرست
- آسمانی ہدایت کے بغیر نجات نہیں
- آسمانی ہدایت کے ذرائع
- رسولوں کے بعض امتیازات
- سابقہ رسولوں اور کتابوں پر ایمان
- حضرت خاتم النبیین کی بعثتِ مبارکہ
- حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری اور عالمی پیغمبر ہیں
- تا قیامت شریعت پر عمل کیسے؟
الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، أما بعد!
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولاً اپنی حکمتِ بالغہ سے انسانوں کی پیدائش کافیصلہ فرمایا، اور نوعِ انسانی کے سب سے پہلے فرد سیدناحضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت وتکریم فرماتے ہوئے ان کو مسجودِ ملائکہ بنایا، جس کی تفصیلات قرآنِ کریم میں کئی جگہ موجود ہیں۔
اس کے بعد جب دنیا کو آباد کرنے کی غرض سے سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں اُترنے کا حکم ہوا، تو اُسی وقت یہ واضح کردیاگیا کہ انسانوں کو دنیا میں من مانی اور من چاہی زندگی گذارنے کے لئے نہیں بھیجاجارہا ہے؛ بلکہ وہ دنیا میں جاکر آسمانی ہدایتوں کے پابند رہیںگے، جبھی اُنہیں کامیابی اور نجات ملے گی۔ اور اگرانہوں نے خداوندی احکام اور ہدایات کی پابندی نہ کی تو ان کا انجام اچھا نہ ہوگا، اِسی کو قرآنِ پاک کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے:
قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّيْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِآَیَاتِنَا اُولٰٓـئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ۔ (البقرۃ: ۳۸-۳۹)
ہم نے حکم دیا کہ یہاں سے تم سب نیچے جاؤ، پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوںگے، اور جو لوگ منکر ہوئے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، وہ ہیں دوزخ میں جانے والے وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے۔
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ انسان کی حقیقی کامیابی کا مدار اپنے خالق ومالک کی اطاعت پر ہی موقوف ہے؛ بلکہ بالفاظِ دیگریہ کہنا چاہئے کہ جو انسان اپنے رب کی معرفت واطاعت سے بہرہ ور ہو، وہی حقیقت میں انسانیت کی تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے، اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے، وہ اگرچہ دیکھنے میں انسان نظرآتا ہو؛ لیکن دراصل وہ جانوروں اور چوپایوں سے بھی بدتر ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالإِْنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓـئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ۔ (الأعراف: ۱۷۹)
اور ہم نے جہنم کے واسطے بہت سے جن اور انسان پیدا کئے، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ چوپاؤں کی طرح؛ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، وہی لوگ غفلت میں پڑے ہیں۔
لہٰذا یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان کے لئے آسمانی ہدایت کے بغیر کامیابی کاکوئی تصور نہیں۔
آسمانی ہدایت کے ذرائع
اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت بندوں تک کیسے پہنچے؟ تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں یہ نظام قائم فرمایا کہ انسانوں ہی میں سے کچھ منتخب بندوں کو اپنے اور بندوںکے درمیان واسطہ بنایا، اور ان پر کتابیں، صحیفے اور ہدایتیں بذریعہ وحی نازل فرمائیں، ایسے منتخب انسانوں کو ’’رسول‘‘ اور ’’نبی‘‘ کہاجاتا ہے، رسول کے معنی ’’قاصد‘‘ کے آتے ہیں، اورنبی کے معنی ’’اللہ کی طرف سے غیبی خبریں بتانے والے‘‘ کے آتے ہیں۔ (مستفاد: فتح الملہم ۱؍۱۱۲)
ان انبیاء علیہم السلام کاسلسلہ سیدنا حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع ہوا، اور ہمارے آقا اور سردار، سرور عالم، خاتم النبیین،حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا، اس درمیان ہزاروں انبیاء علیہم السلام وقفہ وقفہ سے دنیا کے مختلف خطوںمیں مبعوث کئے گئے، جن کی بنیادی تعلیمات -یعنی عقیدۂ توحید، رسالت اور آخرت – مشترک تھیں؛ البتہ جزئی احکامات میں قدرے فرق رہا، یہ سب انبیاء علیہم السلام اپنی خداداد صلاحیتوں اورحیرت انگیزکمالات کی وجہ سے بقیہ تمام انسانوں سے ممتاز رہے، اور ان کے ہاتھوں پر ایسے معجزات اورناقابل تردید نشانیاںظاہر ہوئیں جنہیں دیکھ کر لوگ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ واقعی اللہ کے منتخب بندے اور رسول ہیں۔
رسولوں کے بعض امتیازات
خاص طور پر تمام انبیاء علیہم السلام میں دو باتیں سب سے نمایاں تھیں :
(۱) کسی بھی نبی نے دنیا میں کسی استاذ کے سامنے شاگردی اختیار نہیں کی؛ بلکہ ان کو جو بھی معلومات اور کمالات حاصل ہوئے، وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے، ان کی تحصیل کی میں کسی انسان کا واسطہ نہ تھا۔
(۲) ہر نبی ہرطرح کی برائی اور گناہ سے محفوظ رکھا گیا، تمام تر جسمانی قوت وطاقت اور استعداد پائے جانے کے باوجود حرام باتوں سے محفوظ رہنا، جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’عصمت‘‘ کہتے ہیں، یہ انبیاء علیہم السلام کا خاص امتیاز رہا، اور یہ اس وجہ سے تھا؛ تاکہ جب وہ اپنی قوم کو بھلائی کی طرف دعوت دینے کے لئے جائیں تو کوئی شخص ان کے کردار پر انگلی رکھنے کی ہمت نہ کرسکے۔ (شرح فقہ اکبر ۵۶)
ان انبیاء علیہم السلام پر اللہ کی طرف سے ’’وحی‘‘ کا نزول ہوتا تھا، جو دو طرح کی ہوتی تھی، بعض وحی ایسی ہوتی تھیں جن کاتعلق کتابِ خداوندی سے تھا، اور دیگروحی عام ہدایات سے متعلق ہوتی تھیں، ان کو بعینہٖ کتاب کی طرح پڑھنا ضروری نہ تھا، اول کو ’’وحی متلو‘‘ اور دوسری کو ’’وحی غیر متلو‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔
سابقہ رسولوں اور کتابوں پر ایمان
انبیاء پر نازل شدہ کتابیں اپنے اپنے زمانہ میں واجب الاتباع تھی، اسی لئے قرآنِ پاک میں جہاں ایمانیات کا ذکر ہے، ان میں رسولوں کے ساتھ اُن پر نازل شدہ کتابوں پر بھی یقین کو ضروری قرار دیا گیا ہے، جیساکہ ارشادِخداوندی ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِيْ أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلَآئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیْدًا۔ (النساء: ۱۴۶)
اے ایمان والو! یقین کرو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتابپر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو پہلے (رسولوں پر) نازل کی تھی، اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور آخرت کے دن پر، وہ بہک کر بہت دور جاپڑا۔
نیز ارشادِ خداوندی ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَآئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ (البقرۃ: ۲۸۵)
مان لیا رسول نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی (یقین کرلیا) سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے (یعنی سب کو مانتے ہیں) اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا، اے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے اپنے زمانہ میں تمام انبیاء علیہم السلام بھی مرکز ہدایت اور مطاع تھے، اسی طرح ان پر نازل ہونے والی کتابیں بھی حتمی حیثیت رکھتی تھیں، اور ان کی رہنمائی کے بغیر نجات کا کوئی سوال نہ تھا، اور ان رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ کل قیامت میں کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے پاس ہدایت نہیں پہنچی۔ اسی کو قدرے تفصیل کے ساتھ قرآنِ پاک کی ان آیات میں واضح فرمایاگیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
ارشادِ خداوندی ہے:
إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا أَوْحَیْنَا إِلٰی نُوْحٍ وَالنَّبِیِّْیْنَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَوْحَیْنَا إِلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِیْسَی وَأَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَہَارُوْنَ وَسُلَیْمَانَ وَاٰتَیْنَا دَاوُوْدَ زَبُوْرًا۔ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا۔ رُسُلًا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلٰی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ (النساء: ۱۶۳-۱۶۴-۱۶۵)
ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان کے بعد آنے والے نبیوں پر، اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور عیسی، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی، اور بھیجے ایسے رسول جن کے احوال ہم نے آپ کو اس سے پہلے سنائے، اور ایسے رسول جن کے حالات کا آپ کے سامنے ہم نے ذکر نہیں کیا، اورباتیں کی اللہ نے موسیٰ سے بول کر،اور ہم نے پیغمبر بھیجے خوش خبری اور ڈرانے والے؛ تاکہ باقی نہ رہے لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد، اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔
الغرض سیدنا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت فرمائی تھی، اسی کے مطابق دنیا میں پیغمبروں کے ذریعہ رہنمائی کا تسلسل جاری رکھا گیا۔
حضرت خاتم النبیین ں کی بعثتِ مبارکہ
تاآںکہ وہ مبارک دور آیا جب ان سب ہدایتوںکی آخری مرحلہ میں تکمیل ہوگئی، اور سید الاولین والآخرین، امام الانبیاء والمرسلین، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر کائنات کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے، اورآپ کو ’’خاتم النبیین‘‘ کا لقب عطا ہوا؛ کیوںکہ آپ پر نازل کردہ شریعت کے بعد اب مزید کسی ہدایت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ چناںچہ حجۃ الوداع کے موقع پر قرآنِ کریم کی ایک آیت کے ذریعہ یہ اعلان کرایا گیا:
أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا۔ (المائدۃ: ۳)
آج میںپورا کرچکا تمہارے لئے تمہارا دین، اور میں نے تم پر اپنا احسان مکمل کردیا، اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
نیز اعلان ہوا :
إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الإِْسْلَامُ۔ (اٰل عمران: ۱۹)
بے شک اللہ کے نزدیک دین یہی اسلام (حکم برداری) ہے۔
نیز ارشاد ہوا:
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الإِْسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (اٰل عمران: ۸۵)
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب چاہے تو ہرگز اس کی طرف سے قبول نہ ہوگا، اور وہ آخرت میں خسارے والوںمیںہوگا۔
اور متعدد جگہ ارشاد فرمایا گیا:
ہُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ (براء ۃ : ۳۳)
اسی نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور کیا دین دے کر؛ تاکہ اس کو غلبہ دے ہر دین پر،اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔
اورپیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کوحکم دیا گیا کہ آپ اعلان فرمادیں:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ، فَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یوسف: ۱۰۸)
آپ فرمادیجئے کہ یہ میری راہ ہے، میں اور جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ سمجھ بوجھ کر اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکین میںسے نہیں ہوں۔
مذکورہ بالا آیات یہ واضح کررہی ہیں کہ اب انسانیت کی نجات اور فلاح صرف اور صرف شریعتِ محمدی کی پیروی ہی میں منحصر ہے، اب تمام سابقہ شریعتیں اور کتابیں دینِ محمدی کی آمد کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری اور عالمی پیغمبر ہیں
سرور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت ختم ہو چکا ہے اب آپ کے بعد کسی کو نبوت سے نہیں نوازا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ [الأحزاب :۴۰]
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (سب نبیوں پرمہر ) ہیں۔
اور ’’خاتم النبیین‘‘ کی تشریح خود نبی اکرم علیہ الصلاۃ و السلام نے ’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کہہ کر ارشاد فرما دی ہے۔ (ابوداؤد شریف ۲؍۲۲۴ عن ثوبانؓ) اس لئے اس میں کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمہ گیر اور عالمی رسالت و نبوت کا اعلان درجہ ذیل آیت میں کیا گیا:
قُلْ یٰٓأَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ، فَآمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّيِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ۔ [الأعراف: ۱۵۸]
اے پیغمبر! آپ اعلان فرمادیجئے کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبیٔ امی پر ایمان لاؤ جو کہ یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اب تا قیامت ذریعۂ نجات و ہدایت صرف اور صرف شریعت محمدی ہے اس کے بغیر اخروی نجات کا کوئی تصور نہیں؛ اسی لئے نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ عالی ہے:
لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ إِلاَّ اتِّبَاعِيْ۔ (الأسرار المرفوعۃ ۲۵۸ رقم: ۳۷۹،
مسند أحمد ۳؍۳۳۸ رقم: ۱۴۵۶۵، إسنادہ حسن)
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حیات ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر چارۂ کار نہ تھا۔
پس اب کسی انسان کو اس میں شبہ نہ رہناچاہئے کہ کوئی سابقہ آسمانی دین؛ اسلام کے علاوہ اب تقربِ خداوندی اورنجات کا ذریعہ نہیں بن سکتا، اور جب آسمانی مذاہب کا یہ حال ہے تو غیرآسمانی مذاہب کے معتبر ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تا قیامت شریعت پر عمل کیسے؟
جب یہ بات طے ہوگئی کہ دین محمدی کے علاوہ کوئی راہِ عمل نہیں ہے، تواب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں (عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات) کے بارے میں شریعت سے رہنمائی کیسے حاصل ہو؟ جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ بن سکے، تو اس بارے میں اگر یہ صورت اپنائی جاتی کہ قیامت تک پیش آنے والے تمام جزئیات وکلیات کو بذریعہ وحی تفصیلاً بیان کیا جاتا، تو اتنی طوالت ہوجاتی کہ اس کا سنبھال کر رکھنا سخت مشکل ہوتا اور بعد کے غیرمتصور حالات کاپیشگی ادراک کرنا بھی انسان کے بس سے باہر ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی رہنمائی کے لئے یہ صورت اختیار فرمائی کہ بنیادی طور پر کتاب وسنت میں اصول ذکر فرمادئے، اور پھر امت کے مجتہدین کو ہدایت کی گئی کہ وہ تخریج واستنباط کرکے پیش آمدہ مسائل کے احکامات متعین کریں، اور جو لوگ اجتہاد کی مطلوبہ شرائط کے حامل نہ ہوں ان کو پابند کیا گیا کہ وہ واقف کاروں سے مسائل معلوم کرکے عمل کرلیا کریں۔ پھر جب امت کے معتبر اور باصلاحت علماء نے اس راہ میں خدمت شروع کی تو تمام شرعی احکامات کے لئے تین مصادر : (۱) کتاب اللہ (۲)سنتِ رسول اللہ (۳) اور اجماعِ کو بنیاد بنایا (۴) اور مذکورہ مصادر سے مستفاد ’’قیاس‘‘ کو قانونِ شریعت کا چوتھا ماخذ قرار دیا، انہی چار بنیادوں پر پوری ’’فقہ اسلامی‘‘ کا مدار ہے۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ