(رکشہ ڈرائیور کی بیٹی بنی مہاراشٹر کی پہلی مسلم خاتون آئی اے ایس ، یہ نمایاں کامیابی مسلم بچوں اور بچیوں اور ان گارجین اور سرپرستوں کے لئے یقینا ایک سبق ، نمونہ اور آڈیل ہے ، جو یقینا ان سب کو مہمیز لگا سکتے ہیں ۔۔)
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن مضامین اور علمی، ادبی و فکری چیزوں کو میں بہت اہتمام اور توجہ سے پڑھتا ہوں اور جن تحریروں اور ویڈیو یا آڈیو کو عموما بعد میں پڑھنے اور دیکھنے اور سننے کے لئے محفوظ کرلیتا ہوں ،اس کا تعلق عموما کسی امتحان یا مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے تاثرات اور ان کی محنت شاقہ کی کہانی اور منزل کو پالینے اور ہدف کو حاصل کرلینے کی تڑپ اور جہد و جہد کی داستان ہے ۔
ابھی کل ایک خبر نظر سے گزری اور سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ ایک رکشہ ڈرائیور کی بیٹی مہاراشٹر کی پہلی مسلم خاتون آیی اے ایس بنی ۔ خبر سن کر اور پڑھ کر مسرت ہوئی، حوصلہ ملا اور اس سوچ اور فکر کو مزید تقویت ملی کہ جد و جہد محنت، لگن،شوق اور جذبہ زندگی کے سفر کا توشہ ہوں تو مشکلیں اور دشواریاں راستے کا غبار تو بن سکتی ہیں رکاوٹ نہیں اور مضبوط ارادوں،امنگوں اور حوصلوں کے آگے ان ان ترشوں کی حیثیت قدموں کی دھول سے زیادہ نہیں رہتی ، بہن ادیبہ انعم بنت اشفاق احمد نے اٹوٹ ارادوں اور مضبوط حوصلوں کا ثبوت دیا اور اپنی محنت جد و جہد اور شوق و لگن سے یہ ثابت کر دکھایا کہ منزل کے حصول میں اور ہدف کو پانے میں مال و دولت اور امیری کا کوئی بہت دخل نہیں ہے ،اصل ہے ہمت ،محنت ،لگن اور شوق و جذبہ ،اگر یہ چیزیں میسر ہوں تو کامیابی حاصل کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی اور یہ سچ ہے کہ
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفاں کو الٹ دیتا ہے ساحل تنہا
ادیبہ انعم بنت اشفاق احمد کی کامیابی کی کہانی اور داستان آپ بھی سنیں اور اپنے بچوں کو بھی سنائیں تاکہ یہ روداد اور کہانی ان کے لئے اور سب کے لئے مہمیز کا کام کرے ۔
"میں نے اپنا گھر بیچ دیا، میں نے اپنا رکشہ بیچ دیا لیکن میں نے کچھ نہیں کھویا۔ کیونکہ، اس پیسے سے، میری بیٹی ایک بڑی افسر بن گئی۔ اپنی بیٹی کو آئی اے ایس آفیسر بنانے کے لیے اگر مجھے خود کو بیچنا پڑتا تو بھی میں خود کو بیچ دیتا۔ لیکن، میں کبھی مایوس نہیں ہوتا۔”
یہ جذباتی الفاظ اس باپ کے ہیں جس کی بیٹی نے اُس کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا، سماج میں باپ کی عزت کو چار چاند لگا دیئے۔مہاراشٹر کے ایوت محل ضلع کی طالبہ ادیبہ اشفاق احمد نے یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کے نتائج میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔ ایک آٹو ڈرائیور کی بیٹی نے ایسا کارنامہ انجام دیا جو ریاست میں اس سے پہلےکوئی مسلم طالبہ انجام نہیں دے سکی۔ ادیبہ مہاراشٹر کی پہلی مسلم آئی اے ایس افسر بننے کے راستے پر ہے۔ جسے کمیونٹی میں بہت سے لوگ تاریخی قرار دے رہے ہیں۔یو پی ایس سی میں آٹو ڈرائیور اشفاق احمد کی بیٹی ادیبہ انعم نے 142 واں رینک حاصل کیا ہے جو کہ ایوت محل ضلع کے لیے فخر کی بات ہے۔
یو پی ایس سی امتحانات کے لیے کلاسز اور سہولیات کی کمی کے باوجود، ایوت محل کی اس ہونہار طالبہ نے اپنی محنت اور لگن سے مقصد کو حاصل کر لیا۔ ضلع کے بہت سے طلباء اپنے مقصد کو پورا کرنے اور امتحان کی تیاری کے لیے پونے، ممبئی اور دہلی جاتے ہیں۔ دوسری جانب جو طلباء غربت کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہیں وہ آن لائن کورسز مکمل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
ایوت محل(مہاراشٹرا) کی ادیبہ انعم اشفاق احمد نے پورے ہندوستان میں 142 واں رینک حاصل کیا ہے۔ ادیبہ کے پاس اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ وہ شاعر اشفاق شاد کی بیٹی ہیں۔ اشفاق آٹو چلاتے ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ آٹو بھی ان کا اپنا نہیں ہے۔ادیبہ نے اپنی ابتدائی تعلیم ظفر نگر ضلع پریشد اردو پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ انھوں نے یہاں پہلی سے ساتویں کلاس تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے آٹھویں سے دسویں جماعت تک کی تعلیم ضلع پریشد کے سابق گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سے حاصل کی۔
ادیبہ نے اپنی 11ویں اور 12ویں کی تعلیم ضلع پریشد سابق گورنمنٹ کالج، ایوت محل سے مکمل کی۔ اس کے بعد ادیبہ نے انعامدار سینئر کالج، پونے سے ریاضی میں بی ایس سی کیا۔ اس کے بعد، ادیبہ انعم نے پونے کی ایک اکیڈمی سے یو پی ایس سی فاؤنڈیشن کی کوچنگ لی۔ ادیبہ کو چوتھی کوشش میں کامیابی ملی۔
ادیبہ کا کہنا ہے کہ ان کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ ادیبہ نے کہا، ‘میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ لیکن سہولیات کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ تو میری حوصلہ شکنی ہوئی، لیکن ایوت محل میں سیوا این جی او کے سکریٹری نظام الدین شیخ نے مجھے حوصلہ دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح کوئی آئی اے ایس بن کر سماج اور ملک کی خدمت کرسکتا ہے۔ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔”
ادیبہ کا مزید کہنا ہے کہ ’میں نے یو پی ایس سی کرنے کا فیصلہ کیا، جب میں پہلی کوشش میں ناکام ہوئی تو مجھے مایوسی ہوئی، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے کوشش جاری رکھی اور چوتھی کوشش میں کامیاب ہوگئی۔ ادیبہ نے کہا کہ جب میرے والدین کو میری کامیابی کی خبر ملی تو وہ جذباتی ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔
ادیبہ کے والد کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ اس لیے انہیں اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنا گھر بیچنا پڑا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنا رکشہ بھی بیچ دیا۔
اشفاق احمد بتاتے ہیں، میں نے اپنی بیٹی کی تعلیم پر ایک روپیہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔ جب بیٹی کا فون آیا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، تو میں نے انھیں بتایا کہ میرے پاس پیسے ہیں۔
اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ لیکن، میں نے اسے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ اس کی پڑھائی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ "میں نے وہ رکشہ بھی بیچ دیا جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے استعمال میں تھا۔
اشفاق احمد کے مطابق انھوں نے بیٹی کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے لوگوں سے بہت قرض لیا، اس سب کے باوجود میری بیٹی کا نتیجہ اچھا نہیں آیا، لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی ایک دن آئی اے ایس آفیسر بنے گی، اور ہم نے اسے ہر بار یہی امید دلائی۔