تحریر/مولانا محمد قمرالزماں ندوی
پیشکش / صفوان قمر شیبانی
قرآن و حدیث میں شب قدر کی عظمت و فضیلت بہت اہمیت کے ساتھ متعدد جگہ بیان کی گئ ہے ،اور ایک مکمل سورہ ،سورہ قدر کے نام سے اللہ تعالٰی نے نازل فرمایا ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
انا انزلناہ فی لیلة القدر وما ادراک ما لیلة القدر لیلة القدر خیر من الف شھر تنزل الملائكة و الروح فیھا باذن ربھم من کل امرسلام ھی حتی مطلع الفجر (سورہ قدر )
بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا ہے ،اور آپ کو خبر ہے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے،اس رات فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کے لئے ،سلامتی ( ہی سلامتی ) ہے ،وہ رہتی ہے طلوع فجر تک ۔
یہ پوری سورہ شب قدر کی فضیلت اور اہمیت سے متعلق ہے اس سورہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس رات کو دیگر راتوں پر کتنی فوقیت اور برتری حاصل ہے ۔
خدائے وحدہ لا شریک نے ہی تمام زمان و مکان میں پھیلی ہوئ ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے ،کسی کو فضیلت و برتری سے نوازا اور کسی کو ذلت و پستی کے قعر مذلت میں ڈال دیا، یہ سب خدا کی حکمت ہے اور اس کی شان عالی کو زبیا ہے ،جس طرح تمام مہینوں پر رمضان المبارک کو اہمیت و فضیلت حاصل ہے اور جمعہ کو تمام دنوں کا سردار بنایا گیا ہے ،اسی طرح شب قدر کو تمام راتوں سے افضل اور ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ۰۰ شب قدر میں جو ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کرے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے، ( متفق علیہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات بیدار رہتے تھے، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے ،اور کمر کس لیتے تھے ۔ ( متفق علیہ )
امت محمدیہ چوں کہ پہلی امتوں کے مقابلے میں جسمانی طاقت کے اعتبار سے کمزور ہے اور اس کی زندگی نسبتا کم ہوتی ہے ،اس لئے وہ اپنی جسمانی کمزوری اور کم عمری کی وجہ سے اللہ کی عبادت و بندگی میں سابقہ امتوں کی برابری نہیں کر سکتی تھی ، لہذا اللہ تعالی نے اس پر خصوصی عنایت اور رحم و کرم کا معاملہ فرماکر شب قدر عطا کی اور اس کی خیر و برکت اور خصوصیت کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ سورت نازل فرمائ،اور دیگر مواقع پر بھی قرآن میں اس کی اہمیت کو واضح کیا ۔
مفسر قرآن مولانا قاضی ثناء اللہ پانی رح پتی کی تحقیق کے مطابق، اس سورت کے شان نزول کے سلسلے میں جتنی روایات آئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ صحیح وہ روایت ہے ،جو موطا امام مالک میں مرسلا ذکر کی گئ ہے –
امام مالک رح لکھتے ہیں :
۰۰ میں نے ایک قابل اعتماد عالم سے سنا ہے ،وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی عمریں چونکہ تھوڑی ہیں اس لئے دوسری امتوں کے اعمال کی تعداد کے برابر تو ان کے اعمال نہیں ہو سکتے ،کیونکہ ان کی عمریں زیادہ تھیں ،اس لئے اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے
سورہ قدر کے ذیل میں جو تفسیری روایات مفسرین نے ذکر کی ہیں ان سب کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ *قرآن مجید* لوح محفوظ سے آسمانی دنیا کے بیت العزہ میں شب قدر میں نازل کیا گیا، پھر حسب ضرورت حضرت جبرئیل علیہ السلام تھوڑا تھوڑا *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* کو پہنچاتے رہے اور اس طرح ۲۳ سال کی مدت میں پورا قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ۔
اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ شب قدر کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دیا اور بتایا کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے شب قدر کا ہزار مہینوں سے بہتر ہونا تو بیان کیا ہے ،لیکن بہتر ہونے کی کوئی حد مثلا دوگنی ،تین گنی،چوگنی ،دس گنی یا سو گنی وغیرہ بیان نہیں کی ہے، اس لئے ہزار مہینہ کا ثواب تو متعین اور یقینی ہے ہی ، اس سے زیادہ کی بھی امید کی جاسکتی ہے ،اس سورہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس رات میں روح القدس ،یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ، اپنے رب کے حکم سے، ہر قسم کے امور خیر لے کر آسمان سے اترتے ہیں، عظیم الشان خیر و برکت سے زمین والوں کو مستفید کرتے ہیں، جتنے بندگان خدا،کھڑے یا بیٹھے نماز میں یا ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں، ان سب کے لئے رحمت اور سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ۔ ( ماخوذ و مستفاد تفسیر حقانی،مظہری،فوائد عثمانی اور معارف القرآن)
شب قدر کون سی رات ہے ،بعض خاص حکمت و مصلحت کی وجہ سے اس کی تعیین نہیں کی گئی ہے، *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* چوں کہ ایمان والوں کے لئے روف و رحیم تھے ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا بھی کہ متعین رات کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دے دیں اور اس ارادے سے نکلے بھی تھے لیکن دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں میں مصالحت کرانے لگے ،اسی درمیان میں آپ کے ذہن مبارک سے تعیین بھلا دی گئ، صحابئ رسول *حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ* سے مروی ہے، *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا :
*خرجت لاخبرکم بلیلة القدر ،فتلاحی فلان و فلان ،فرفعت ،و عسی ان یکون خیرا لکم* ( صحیح بخاری، ۲۰۲۳)
میں تم لوگوں کو شب قدر کی تعیین بتانے نکلا تھا ،لیکن فلاں اور فلاں باہم لڑ رہے تھے ،اس لئے تعیین اٹھا لی گئی، کیا بعید یہ اتھا لینا تمہارے لئے بہتر ہو ۔
علماء کرام نے اس کی حکمت و مصلحت کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ کسی قدر یوں ہے :
۰۰حکمت اس کے اخفاء و پوشیدگی میں یہ ہے کہ اس کا طالب سال بھر عبادت میں مشغول رہے گناہوں سے بچے اور توبہ کرے اور اخیر رمضان شریف، خصوصا عشرئہ اخیر میں تو بڑی کوشش کرے،نیکی کرنا اس رات میں بڑی قبولیت کا باعث ہے، مگر اس رات گناہ کرنا بھی قہر الہی کا سبب ہے۰۰ ۔
تاریخ کے تعیین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، جو مفتئ اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع صاحب رح کے بہ قول چالیس تک اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رح کے قول کے مطابق پچاس کے قریب ہیں، بعض علماء کہتے ہیں کہ شب قدر سال میں ایک بار آتی ہے، مہینے کی کوئ تعیین نہیں، مگر اکثر کا قول یہ ہے کہ رمضان المبارک میں یہ رات ہوتی ہے،پھر اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں بالخصوص اس کی طاق راتوں( ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷،اور ۲۹ کی راتوں ) میں تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ بہ کثرت احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں، البتہ علماء کی ایک جماعت نے ستائیسویں رات کو راجح قرار دیا ہے ،جو لوگوں میں مشہور و مقبول ہے ۔
اوپر اس جانب اشارہ ہوا تھا کہ امت محمدیہ چونکہ پہلی امتوں کے مقابلے میں جسمانی اعتبار سے کمزور ہے اور اس کی زندگی دوسری امتوں کے مقابلے میں نسبتا کم ہے، اس لیے وہ اپنی جسمانی کمزوری اور کم عمری کی وجہ سے اللہ کی عبادت و بندگی میں سابقہ امتوں کی برابری نہیں کرسکتی تھی، لہذا الله تعالٰی نے اس پر خصوصی عنایت اور رحم و کرم کا معاملہ فرماکر اسے شب قدر عطا کی، اور اس کی خیر و برکت اور خصوصیت کو بیان کرنے کے لیے سورہ قدر کے نام سے ایک پوری سورت نازل فرمائی اور دیگر مواقع پر بھی قرآن میں اس کی اہمیت کو واضح کیا۔۔۔۔۔
حدیث شریف میں آتا ہے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *تحروا لیلة القدر فی العشر الاواخر من رمضان* (صحیح بخاری ۲۰۲۰)
شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی ایک دوسری روایت اور حضرت جابر بن سمرہ ،حضرت معاویہ بن ابی سفیان، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن عباس اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کی روایات ستائسویں شب میں ہونا ثابت ہے ۔ (ملاحظہ ہو تفسیر مظہری )
اس رات میں کون سی عبادت کی جائے اور کیا اس سلسلہ میں کوئ خاص دعا اور عبادت حدیث و سنت سے ثابت ہے؟ آئیے اس سلسلہ میں کچھ معلومات حدیث سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم و سلف صالحین کے معمولات سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صحابئ رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من قام لیلة القدر ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ( صحیح بخاری ۲۰۱۴)
جس شخص نے ایمان و احتساب ( صفات خداوندی کے استحضار، اخلاص و للہیت اور اجر و ثواب کی امید ) کے ساتھ شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے ۔
اس لئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اللہ کی یاد کے ساتھ شب گزاری ہو،نوافل پڑھے جائیں، تلاوت کی حلاوت اور دعا کی لذت حاصل کی جائے ،تسبیحات و اذکار اور اوراد و وظائف کے لئے وقت فارغ کیا جائے درود شریف سے بھی زبان تر ہو اور رقت انگیز دعائیں بھی ہوں ،جن میں آخرت کی بھلائیاں طلب کی جائیں اور برائیوں سے پناہ چاہی جائے ۔
اس کے ساتھ صلہ رحمی کی طرف بھی ہم خاص توجہ دیں جن سے ہم نے قطع رحمی کرلی ہے یا جن کے حقوق اور نفقہ ہم پر عائد ہیں اور ہم اس کی ادائگی سے غفلت برتے ہوئے ہیں ان حقوق کو ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوں اور جو غلطی اور کوتاہی ہوگئ ہے اس پر نادم ہوں اور خدا کے حضور توبہ و استغفار کریں خصوصا والدین کی شان میں اور ان کی خدمت اور حقوق کی ادائیگی میں کوئ کمی ہوئ ہے تو ان سے معافی مانگیں اور پھر کوتاہی اور غلطی نہ کرنے کا عزم کریں ۔
اس رات ایک خاص دعا کثرت سے پڑھنا بھی حدیث سے ثابت ہے چنانچہ *ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا* کی دریافت پر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شب قدر میں پڑھنے کے لئے اس دعا کی تعلیم و تلقین کی تھی۔
*اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی* ( سنن ابن ماجہ؛ ۳۸۵۰/ ترمذی ۳۵۱۳)
بار الہا ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں، اس لئے مجھے معاف فرما دیجئے ۔
اس رات ہر مسلمان کو خاص طور پر یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ عشاء اور فجر کی نماز باجماعت اور تکبیر اولی کے اہتمام کے ساتھ ادا کرے ،کیونکہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت سے ادا کرلی تو آدھی رات کا ثواب پالیا اور جس شخص نے صبح کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو پوری رات شب بیداری اور عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا ۔ ( تفسیر مظہری بحوالہ صحیح مسلم )
یہ بات بھی ذھن نشین رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ* (کنز العمال: ۲۴۰۲۸)
جو شخص شب قدر کی خیر و برکت سے محروم رہا ،وہ ہر طرح کے خیر اور بھلائ سے محروم رہا ،مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل ہی محروم ،بد قسمت اور بد نصیب ہے ،اس لئے ہمیں چاہیے کہ غفلت اور سستی کو راہ نہ دیں بلکہ اس رات کی کما حقہ قدر کرکے بانصیب اور بافیض بنیں ۔
یہاں ایک اور حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ اخیر عشرہ میں شب قدر کے علاوہ ایک اور رات ہے جو شب مغفرت ہے وہ مزدوری پانے کا دن ہے۔ فضائل کے باب میں یہ حدیث موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں بطور خاص دی گئی ہیں، یہ کہ ان کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسند ہے۔ یہ کہ ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ جنت ہر روز آراستہ کی جاتی ہے پھر اللہ عزوجل و جل فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک تیری طرف آویں۔ اس ماہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟ فرمایا،، نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔
کاش ہمیں اس مبارک رات اور ان نعمتوں کی قدر ہوتی اور ان خصوصی عطایا کے حصول کی کوشش کرتے۔۔
نوٹ / صاحب تحریر کی طبیعت ان دونوں ناساز چل رہی لہٰذا آپ لوگوں سے خصوصی دعا کی درخواست ہے ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ