حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
انسان کی فطرت و طبیعت میں جذبات کا ایک،وسیع، گہرا اور ناقابلِ انکار عنصر موجود ہے۔ جذبات ہی انسان کو عمل پر آمادہ کرتے ہیں، مہمیز لگاتے ہیں، ایثار و قربانی پر تیار کرتے ہیں اور بسا اوقات ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔ مگر یہی جذبات جب عقل و حکمت اور شعور و ادراک کے تابع نہ رہیں، تو نعمت سے زحمت بن جاتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں خصوصا نوجوانوں میں اور سیاسی و تحریکی میدان میں جذباتیت ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ لوگ سوچنے، سمجھنے اور توازن قائم رکھنے کے بجائے صرف جذباتی نعرے لگانے اور شور مچانے کو عمل سمجھنے لگے ہیں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے بہت پہلے قوم کی اس پریشانی و کمزوری اور ملت کے نوجوانوں کے اس مرض کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا ؛
"تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آدمی کسی بھی ملک میں رہے، کسی معاشرہ میں رہے ،کسی ماحول میں رہے، وہاں اس کو عقل سلیم سے اور حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے ،محض جذباتی نہیں ہونا چاہیے ،مسلمانوں میں یہ کمزوری بہت دنوں سے ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہت جلدی بہہ جاتے ہیں ، جو شخص کوئی نعرہ لگا دے ، جلی کٹی سنائے ،دل کے پھپھولے پھوڑے ،مسلمان اس سے بہت خوش ییں، اور خندق پھاندنے کے لیے تیار ہیں اور کوئی شخص ذرا دھیمی آنچ پر رکھے تو وہ کچھ نہیں ،کوئی سمجھائے کہ دیکھو بھائی اصلاح ہونی چاہیے پھر کوئی تحریک اٹھ سکتی ہے ، اس سے مسلمانوں کو کوئی مناسبت نہیں ہے،،
(روداد چمن / 234)
جذباتیت، عمل کا محرک یا گمراہی کا دروازہ؟
جذبات اگر عقل و شعور کے تابع ہوں تو یہ ایمان کی حرارت اور عزمِ عمل بن جاتے ہیں، مگر جب یہ فہم و فراست سے آزاد ہو جائیں تو تنگ نظری، انتہا پسندی اور افتراق پیدا کرتے ہیں۔
آج کے نوجوان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ جذبات کے طوفان میں بہہ نہ جائے بلکہ عقل، علم اور بصیرت کے ساتھ راستہ متعین کرے۔
جذباتی فیصلہ وقتی تسکین تو دے سکتا ہے مگر اس کا انجام اکثر ندامت و شرمندگی میں ہوتا ہے۔ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ محض جوش و خروش پر کھڑی تحریکیں دیرپا نہیں رہتیں۔ پائیدار تبدیلی ہمیشہ شعور، فہم، نظم و ضبط اور تدبر سے جنم لیتی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
ولا تقف مالیس لک بہ علم ،،
(جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو۔)
یہ آیت جذباتیت کے خلاف ایک فکری منشور ہے، کہ ہر قول و عمل علم، بصیرت اور حقیقت پر مبنی ہو۔
شخصیت پرستی فکری غلامی کا دوسرا نام
جذباتیت کا فطری نتیجہ شخصیت پرستی ہے۔ جب سوچنے والے دم توڑ دیں اور صرف بولنے والے رہ جائیں تو قومیں افراد کی اسیر بن جاتی ہیں۔
شخصیت پرستی کسی بھی تحریک یا جماعت کی فکری موت ہے۔
یہ وہ کیفیت ہے، جس میں اصول پیچھے رہ جاتے ہیں اور اشخاص آگے بڑھ جاتے ہیں۔
لوگ نظریات کو نہیں، چہروں کو سلام کرتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے، جہاں حق کی جگہ وفاداری لے لیتی ہے اور قوم فکری زوال و انحطاط اور تنزل و پستی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
دانشمند انسان کسی رہنما سے محبت ضرور کرتا ہے، مگر اندھی تقلید نہیں۔ وہ رہنماؤں کو آئینے کی طرح دیکھتا ہے، جہاں کردار صاف ہو تو انعکاس روشن ہوتا ہے، اور جہاں دھند ہو وہاں سوال اُٹھاتا ہے۔
تحریکوں کا اصل جوہر اصولوں کی پاسداری ہے، نہ کہ شخصیات کی پرستش۔
جس قوم میں سوال پوچھنا جرم بن جائے، وہاں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔
اعتدال ، عقل و عمل کا توازن
اسلام کی روح اعتدال ہے۔ "اُمّتِ وَسَط” کا لقب ہمیں اسی لیے دیا گیا کہ ہم نہ جذبات میں بہنے والے ہوں نہ سرد مزاج بے، کہ بے حس بن جائیں۔
تحریکی اور سیاسی زندگی میں اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ ہم جذبات کو نظم کے تابع رکھیں، محبت کو عقل کے سانچے میں ڈھالیں، اور اختلاف کو شائستگی کے دائرے میں لائیں۔
اعتدال کا یہ مفہوم صرف رویے تک محدود نہیں، بلکہ فکر، گفتار اور کردار تینوں پر محیط ہے۔
یہی وہ راستہ اور روش ہے، جس پر چل کر قومیں پختہ شعور حاصل کرتی ہیں۔
اعتدال کا معنی یہ نہیں کہ انسان کمزور ہو جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ طاقت کو حکمت سے استعمال کرنے والا بن جائے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
،، خیر الامور اوسطھا ،،
یعنی بہترین عمل وہ ہے جس میں توازن و اعتدال ہو۔
نوجوانوں کے لیے پیغامِ عقل و بصیرت
یہ دور جذباتیت اور شور و غوغا کا ہے، مگر میرے نوجوانو! تمہیں صدا اور آواز حکمت و دانائی اور بصیرت کے ساتھ بلند کرنی ہے، اور جذباتیت اور منفی رد عمل سے ہمیشہ پرہیز کرنا ہے۔
قوموں کی تقدیر صرف جوش و خروش اور جذبات و خیالات سے نہیں، فکر و کردار سے بنتی ہے۔
تمہارا فرض ہے کہ تم جذبات کو قوتِ محرکہ بناؤ مگر فیصلے علم اور عقل سے کرو۔
شخصیتوں سے محبت کرو، مگر ان کے بجائے اصولوں کے وفادار رہو۔
تمہاری تحریک جذبات کا نہیں، حکمت و دانش اور عقل و خرد کا قافلہ بنے۔
تمہاری سیاست نعرے کی نہیں، نظریے کی آئینہ دار ہو۔
جب قوم کا نوجوان اعتدال، فہم اور حکمت کا پیکر بن جائے تو قومیں زوال سے نکل کر عروج و کمال کی راہوں پر گامزن ہوتی ہیں، اقبال و سر بلندی ان کا مقدر بنتی ہے۔
جذباتیت اگر ضبط میں نہ رہے، تو وہ قوم کو فتنہ میں ڈال دیتی ہے،
اور شخصیت پرستی اگر حد سے بڑھے تو اصولوں کو دفن کر دیتی ہے۔
نجات کا راستہ صرف اعتدال، تو زان، بصیرت اور اصول پسندی میں ہے۔
ہمیں اپنی تحریکی و سیاسی زندگی کو عقل، شریعت اور حکمت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔
یہی وہ راستہ ہے جو امت کو وحدت، استحکام اور وقار عطا کر سکتا ہے۔
ورنہ نعرے بدلتے رہیں گے، چہرے بدل جائیں گے، مگر حال وہی رہے گا۔
قوموں کی بیداری ہمیشہ عقل و علم سے ہوتی ہے، شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی سے نہیں۔
ایک آخری بات کہہ کر آج کی مجلس ختم کرتا ہوں اور یہ میری بات نہیں ہے، بلکہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اکثر اپنی مجلس اور تقریر و تحریر میں فرمایا کرتے تھے کہ
،، آپ اپنے ذہن کو اجتماعی بنائیے ،صرف اپنے مفاد کو سوچنا کہ ہمیں فائدہ ہو جائے، دین و ملت پر جو گزر جائے ، شریعت پر جو کچھ گزر جائے، ہم سب کی فکر کیا کرسکتے ہیں ۔ اس ذہن نے بڑا نقصان پہنچایا ہے،، ۔
مولانا رح فرمایا کرتے تھے کہ آپ کو ہندوستان میں رہ کر اپنی مثبت صلاحیت کا ثبوت دینا چاہیے ، آپ جہاں رہیں ایک پیغام رکھتے ہوں ،آپ کی زندگی دوسروں کی زندگی سے ممتاز ہو، صاف نظر آئے ،کھلی آنکھوں دکھائی دے کہ آپ مسلمان ہیں ۔
آج ہندوستان کے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آپ جہاں رہیں آپ کا کیریکٹر بلند ہو، آپ کے اخلاق جدا گانہ ہوں، آپ کا طرز عمل مختلف ہو،آپ کسی اور ٹکسال کے ڈھلے ہوئے سکے معلوم ہوں، معلوم ہو کہ ہاں ٹکسال محمدی کے ڈھلے ہوئے سکے ہیں ، جھوٹ بولنا آپ حرام سمجھیں ، دھوکہ دینا آپ گناہ عظیم سمجھیں ، وعدہ خلافی کو جرم سمجھیں ، کسی مسلمان کو آپ سے تکلیف نہ پہنچے ۔یہ سیرت اگر ہماری اور آپ کی ہوگی تو اسلام کتنی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں پھیلے گا ہم اندازہ نہیں کرسکتے ۔