ترتیب/ حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ یوپی
اللّہ تعالیٰ نے سورہ رعد آیت نمبر 11/ میں صاف اعلان کردیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا ،جب تک کہ وہ (قوم) خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی ۔
مشہور سیاسی رہنما جنگ آزادی میں پیش پیش مولانا ظفر علی خاں صاحب مرحوم نے جو ایک بڑے شاعر بھی تھے، لوگوں کو جگانے ، بیدار کرنے اور ان کے اندر شعور کرنے کے لیے ایک ہی شعر میں پوری بات بتلادی ،جو آج بھی سماج و سوسائٹی میں دبے کچلے ہندوستانی باشندگان کو اور بالخصوص مسلمانوں کو لمحہ فکر دے رہی ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی!
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا!
غالباً اس شعر کو بابائے اردو صحافت نے (سورۃ الرعد کی آیت کریمہ:۱۱) کو ذہن میں رکھتے ہوئے دل کی گہرائیوں سےکہا ہوگا، جس کی ترجمانی اس طرح ہے۔
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسانی زندگی نقل وحرکت، سعی وعمل سے ہی عبارت ہے، ورنہ اسے فالج زدہ یا نیم مردہ اجسام کہا جائے گا۔ اگر انسان کی بناوٹ و ساخت پر غور کرے اور اس کی صلاحیتوں و طاقتوں اور جرأت و برداشت، لیاقت واستعداد کا اندازہ کرے تو معلوم ہوگا کہ تخلیق انسان کا مقصد اور ان کی زندگی، حرکت عمل کے بغیر ناممکن ہے۔
اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
دوستو بزرگو اور بھائیو!!! ’’یہ ہاتھ اور ان کی قوت گرفت، یہ پائوں اور ان کی قوت خرام، یہ آنکھیں اوران کی قوت بصارت، یہ کان اور ان کی قوت سماعت یہ زبان اورا س کی قوت گویائی وبیان، یہ دل اور اس کی قوت احساس، یہ دماغ اور اس کی صلاحیت فکر وخیال اور قوت عقل و تدبیر وغیرہ ساری کی ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ انسانی زندگی سعی و عمل اور نقل و حرکت ہی سے عبارت ہے، آیت شریفہ ’’ وان لیس الانسان الا ما سعیٰ، و ان سعیه سوف یری‘‘ میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اگر انسان کی داخلی حیثیت کی طرف سے صرفِ نظر کرکے اس کے خارجی ماحول کو دیکھا جائے تو بھی ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اجرام فلکی کی گردش، صبح و شام کا ظہور، برق و باراں کے ہنگامے، ہوائوں کی تعریف اور بحر ذخار کا تلاطم غرض کہ کائنات کی ایک ایک شئے کی جنبش و حرکت زبان و حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے۔ (اقتباس از اسلم طارق بھٹی)
علامہ اقبالؒ حرکت عمل کو زندگی قرار دیتے ہیں: وہ فرماتے ہیں ،،
کیوں تعجب ہے مری صحرا نَوردی پر تجھے
یہ تُگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل
علامہؒ کی نگاہ میں صحر نَوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے، جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے اور انسان کیلئے حرکت وعمل کے بغیر زندگی حقیقی زیست نہیں کہلاتی۔
آج ہمارے سامنے جو حالات آ رہے ہیں یہ وہی حرکت وعمل کے انجماد اور غیر متحرک ہوجانے کا نتیجہ اور انجام ہے، شعور والی آنکھ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب ساری دنیا میں ہر نیا دن نئی آزمائش اور ظلم وستم کی خبر کے ساتھ نمودار ہوتا ہے٫ یعنی کمزوروں کو خوبصورت انداز میں غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیا جانا وغیرہ ؛
دوسری جانب ملت اسلامیہ ہند کی صورتحال ہے وہ بھی قابل توجہ ہے، یعنی ان کے اندر بے فکری اور عملی کوتاہی جو پنپ ر ہی ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ (الاماشا اللہ) اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اپنے مالک سے سچی وفاداری میں کمزور ہیں، ہماری زندگیوں میں نفاق کی کیفیت پائی جارہی ہے، تھوڑے سے مفادات دنیا کیلئے، دین پر کنارے کنارے چلنا ہنر سمجھا، اپنے مفاد کو ملت کے مفاد پر ترجیح دینے لگے، اللہ تعالیٰ کی محبت میں کمی، حکومت کی خوشنودی اسکی مراعات کے حصول میں دلچسپی ؛ ہمیشہ سکہ رائج الوقت کا پسندیدہ بنے رہنے ،انکے رنگ کا چولا پہن لینا مال و دولت پر فریفتہ ودلدادہ ہوجانا، اب سوچیئے کیا ہم اپنے آپ کو بدلے بغیر حالات کے بدلنے اور اس میں تبدیلی آنے کی امید کرسکتے ہیں؟ آج وہ کونسا کام ہے، ہم نہیں کررہے ہیں جو ایک دنیا پرست دین بیزار شخص کیا کرتا ہے (الاماشا اللہ) ملت اسلامیہ ہند کی حالت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بے عمل اور سہل پسند ہوچکی ہے، قرون اولیٰ کے صالح نفوس میں جوشاہینیت پائی جاتی تھی، اب آسمان ان شاہینوں سے خالی نظرآتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد و توکل میں کمی نے ہمارے اندر بے یار و مددگار ہونے کا احساس پیدا کردیا، عمل میں کوتاہی و کجی نے ملت کے اندر باطل سے مرعوبیت پیدا دیا، ایمان میں توحید، اعمال میں سنؐت نے، سابقون الاولون میں جوجذبہ وحوصلہ اور قربانی پیش کرنے کی اسپرٹ پیدا کرچکی تھی شاید ہم لوگ اسے اب بھلا بیٹھے !
آج باطل ہر طرف آنکھیں دکھا رہا ہے، گھمنڈ و تکبر سے پیش آ رہا ہے، اسطرح تنک مزاجی کے مظاہر ہر طرف اپنے جلوے بکھیر رہے ہیں ، اعلانیہ طور پر دن کے اجالے اور قانون کے رکھوالوں کی موجودگی میں مسلمانان ہند کے علاوہ پست کردہ ذاتوں کے بارے میں حقارت آمیز باتیں پھیلائی گئیں اور صاف ذہن ہندو برادری کو مشتعل کرنے کیلئے ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا، اس طرح ملک عزیز ہندوستان کی ہر ریاست میں ظلم کی چکی تیزگام ہوچکی ہے، جس میں مسلمان کچھ زیادہ پسے جارہے ہیں، یوں تو آزادی ہند کے بعد سے ہی مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہے اور اس کے لیے نصف صدی سے زمین ہموار کی گئی، لیکن مسلمانوں کے خلاف جو کام پچھلے60 برسوں میں نہیں ہوا جتنا کہ حالیہ گزرے ہوئے 15برسوں میں ہوا۔ ملک میں جمہوری طور طریقوں پر یقین نہ رکھنے والی مخالف اور فسطائیت و تشدد پر یقین رکھنے والی طاقتیں اس کی ہمہ رنگی تہذیب و تمدن کی جگہ ایک خاص طریقہ زندگی (ہندتوا) کو رواج دیناچاہتی ہیں، لہٰذا اب مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ان کے بنیادی عقائد اور عبادات پر بھی خطرات کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں اور ہر طرف شمال سے جنوب تک چھا چکے ہیں، اور روزانہ یہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں برس پڑتے ہیں، نتیجتاً اس ملک کی ایک بڑی اقلیت سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، شائد ان آنے والے حالات کے پیش نظر آگاہ کردیا گیا تھا کہ جو قوم اپنی حالت کو بدلنا نہیں چاہتی اور اپنی بے عملی کی زندگی سے نکلنا نہیں چاہتی تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں باعمل ہونے کی نہ توفیق بخشتا ہے اور نہ ہی اس مہلک مرض سے نجات دیتا ہے۔
آج ہمارے ملک میں فسطائیت، فرقہ پرستی و تعصب اور مذہبی طرف داری کا مرض عام ہوگیا جس کی زدمیں ملت اسلامیہ جکڑی جارہی ہے، اس مہلک مرض سے نکلنے کیلئے ہر آدمی اپنے اپنے طبع ذات طریقہ اپنا رہا ہے اور ہر طریقہ ونسخہ لاعلاج ثابت ہورہا ہے، شاد لکھنوی نے بہت درست بات کہی، وہ ایک شعر کے مصرع ثانی میں کہتے ہیں:
’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘
یہ امت اپنے پسندیدہ ملک عزیز ہندوستان میں پچھلے 70 برسوں میں مالی و جانی نقصان اٹھا چکی، عزت و آبرو کے علاوہ عصمتوں کو بھی لٹا چکی، اب جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے، وہ یہ کہ ان کا مذہبی تشخص اور ان کے شخصی مذہبی قوانین پر حملے ہورہے ہیں، پچھلے سالوں قرآن میں تبدیلی کی نا معقول بات کہی گئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا و ناشائستہ بیانات دئیے جاتے رہے، ایک خاص مذہبی اسٹیج سے مذہبی رہنمائوں نے مسلمانوں کے قتل عام پر لوگوں کو اکسایا، مسلم خواتین کے تعلق سے (ناقابل بیان) اعلانیہ طور پر گندی و بے حیا باتوں کا پرچار کیا گیا۔ اب مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اگرچہ کہ یہ ابھی تعلیمی اداروں تک محدود ہے لیکن آگے کے ایام میں اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اسلامی مدارس کے نصاب پر بھی انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ وہ دن قریب محسوس ہورہے ہیں کہ ان کے نصاب پر بھی کنٹرول کیا جائے گا، کرتا پاجامہ جالی دار ٹوپی کا بار بار حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ مسلمان آگے چل کراس امتیازی نشانی سے بھی الگ اور مجتنب ہوں۔ ایک اور دل دہلادینے والی بات یہ کہ مسلم نوجوان لڑکیوں کو نام نہاد محبت کے جال میں پھنسا کر مرتد بنا دینا اور کسی بھی نوجوان پر جھوٹے الزام لگا کر اس پر ہجومی تشدد کرتے ہوئے زخمی کرنا اور موت کے گھاٹ اتار دینا وغیرہ ان ساری باتوں پر امت کو سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینا چاہئے تھا، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ بے حسی وبے عملی کا شکار ہوچکا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ غلط روی، بے راہ روی اور جملہ غلط کاریوں سے مکمل طور پر اجتناب کرے اور جب تک ملت کے ایک ایک فرد کے اندر صالح ارتقائی کیفیت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک ایک صالح و پر امن اور قانون کی پاسداری و مثالی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ موجودہ حالات میں تبدیلی و حصول امن و سلامتی اور فلاح و کامیابی کی منزل تک پہنچنے کیلئے ملت اسلامیہ ہند کو کج اعتقادی اور عملی گمراہی سے انفرادی و اجتماعی ہر طور سےباہر نکالنا ہوگا، اگر ہم موجودہ ڈگر پر چلتے رہیں گے تو منزل مقصود کو پانا محال ہوجائے گا، نتیجتاً دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی مقدر بن جائے گی۔
آزادی ہند کے بعد سے آج تک ہم کئی منزلیں طے کر چکے، اب ہمارے سامنے ایک نئی اور کٹھن منزل ہے اسے پار کرنے کیلئے ہمیں ازسر نو غور کرنا ہوگا، بحیثیت مسلم و مومن اپنے حقیقی منصب ونصب العین پر پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ گامزن ہونا ہوگا، اپنی عبادات، اپنے اخلاق، اپنی معاشی ڈگر، اپنی معاشرت اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے سارے معاملات کا انفرادی و اجتماعی جائزہ لینا ہوگا، اس وقت پورے ملک بھر میں پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں، کئی مرحلے ہوچکے ہیں ،ایسے اہم موقع پر بصیرت مومن کا امتحان ہونے والا ہے کہ ہمارا ایک ایک ووٹ ملک کے مفاد اور امن عامہ کے فروغ کے لیے متحدہ طور پر استعمال ہو کہیں ایسانہ ہو کہ ہم اپنے روائتی انداز میں اپنے ووٹ کو بے قدر وبے وزن کردیں!!! اگر ہزار دوہزار روپیے میں اپنے ووٹ کو فروخت کردیں تو یہ ضمیر فروشی ہوگی جسکا خمیازہ 5برس تک نہ صرف اس ووٹ فروش کو بھگتنا پڑے گا بلکہ ملک کے لیے بھی سخت نقصاندہ ہوگا۔ لہذا اب اور ہم سب فراست سے کام لیں، تاکہ ملک سے نفرتی ماحول کا خاتمہ ہو قانون کی با لا دستی رہے جو کہ اب خطرہ میں نظر آرہی ہے۔ بہترین حکمت عملی کے ساتھ ووٹ کا استعمال کیا گیا تو ملک عزیز ہندوستان میں امن وسکون کے ساتھ سب کوبرابر کے حقوق بھی ملنے لگیں گے، ملک بھی دن دونی ترقی کرتا چلا جاے گا ، اگر ملک میں پاے جانے والے اقلیتوں بشمول مسلمانوں و پست کردہ برادریوں کا کارواں بے راہ روی و بے ڈھنگے طریقہ پر چلتا رہا تو ملک و باشندگان ملک کی ترقی بھلائی بہت دور ہوجائے گی، اسی فکر کو ذہن میں رکھ کر شاعر نے کہا ہے کہ ’
’غلط روی سے منازل کے بُعد بڑھتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک میں نئے نئے مسائل جو پیدا ہو رہے ہیں، امت وعوام کو جن مشکلات کا سامنا درپیش ہے اس پر قابو پانے کیلئے ملک کے فکر مند و اچھے شہریان کو میدان عمل میں آکر۔ متحرک قیادت کو پروان چڑھانا ہوگا جو کسی بھی مذہبی ومسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں و دبے کچلے دلت طبقات کو ووٹ کی انمول طاقت کا احساس دلا یا جاکر متحدہ ووٹ کے زریعہ فرقہ پرست وجنونی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھا جا سکے۔ ان میں اتحاد و اتفاق پیدا کرے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے علاوہ حقیقی نصب العین کی طرف رہنمائی بھی کرے۔ اب 2024 کا الکشن محبت و نفرت کے مابین ایک عظیم مقابلہ ہے لہذا جموریت پسند اور سیکولر نواز پارٹیوں کو اپنا ووٹ دیکر مضبوط کرنا بیحد ضروری ہے ،اگر ملک میں بسنے والے صاف ذہن و امن پسند ہندو بھائی بالخصوص دلت ومسلم بھائیوں سے تھوڑی بھی چوک ہوجائے تو پھر نفرت کے ہاتھوں محبت ہار جاے گی۔
متحد رہ کر ووٹ کریں آپس میں ٹوٹے نہیں بکھرے نہیں !
ورنہ
ہر طرف اپنے کو بکھرا پاؤ گے!!
آئینوں کو توڑ کے پچھتاؤ گے!!
نوٹ / یہ تحریر مشہور صحافی مولانا عبد الحفیظ اسلامی صاحب کی ہے ، جس کو معمولی تغیر و تبدل کیساتھ خطاب جمعہ کے لئے پیش کیا جارہا ہے ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ