افادات: حضرت مولانا مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم
نائب شیخ الحدیث و صدر مفتی دار العلوم حیدرآباد
ضبط وترتیب: محمد عبد العلیم قاسمی
(صفر المظفر ۱۴۴۵ھ)
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره و نؤمن به و نتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضللہ فلا هادي له ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ونشهد أن سيدنا ونبينا محمدا عبده ورسوله، أما بعد! فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (الإسراء: ۳۲)
میرے محترم بزرگو اور دینی بھائیو! اللہ تعالی نے جب انسان کو اس دنیا میں آباد فرمایا تو وہ چیزیں بھی پیدا فرمائیں جو اس کی ضرورت پوری کرسکیں، اس کو اشرف المخلوقات بنایا اور ساری چیزوں کو اس کی خدمت کے لیے مسخر کیا، اور روحانی طور پر اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا، ان انبیاء کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت اور بنیادی تعلیمات میں سے اہم تعلیم عفت و عصمت ہے، اللہ تعالی کی نظر میں عفت و عصمت اتنی اہمیت کی حامل چیز ہے کہ اس نے تمام انبیاء کو پاک دامن رکھا، کوئی بھی نبی زنا سے پیدا نہیں ہوا اور نہ ان کے آباء و اجداد میں کوئی زانی تھا۔
عفت اور سیرتِ رسول
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے لیے خطوط لکھے، چنانچہ ہرقل کو بھی خط بھیجا گیا، جب اس کے پاس خط پہنچا تو اس نے کہا کہ اس نبی کے علاقے کا اگر کوئی شخص روم میں آیا ہوا ہو تو اس کو دربار میں بلاؤ میں اس سے کچھ تحقیقات کرنا چاہتا ہوں، تلاش کی گئی تو ابوسفیان اور ان کے ساتھی ملے جو بہ غرض تجارت روم آئے ہوئے تھے، اس وقت تک ابوسفیان مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، جب ان کو ہرقل کے دربار میں حاضر کیا گیا تو اس نے دس سوال پوچھے، جن میں ایک سوال یہ تھا کہ نبی کی تعلیمات کیا ہیں، تو ابوسفیان نے بنیادی تعلیمات میں سے عفت و عصمت کا ذکر کیا کہ یہ نبی ہمیں جنسی بے راہ روی اور زنا کاری سے روکتا ہے اور اپنے آپ کو پاک دامن رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔
زنا کی سنگینی اسلام کی نگاہ میں
زنا بہت ہی سنگین جرم ہے، اسی وجہ سے قرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ زنا مت کرو؛ بلکہ یہ تعلیم دی گئی کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ، ارشاد ربانی ہے:
وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا۔ (الاسراء: ۳۲)
اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ روی ہے۔
اور دوسری آیت میں مقت کا بھی اضافہ ہے:
وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا. (النساء:٢٢) القرآن
یہ بڑی بےحیائی ہے، گھناؤنا عمل ہے، اور بےراہ روی کی بات ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کسی بھی چیز میں برائی تین طرح سے ہوتی ہے، ایک عقلًا، دوسرا شرعًا اور تیسرا عرفًا، ان تینوں لحاظ سے اگر کوئی چیز بری سمجھی جاتی ہو تو وہ اشد ترین برائی ہوتی ہے، زنا بھی انہی چیزوں میں داخل ہے، کسی کی بیٹی یا بیوی یا ماں یا بہن کو اپنے لیے حلال سمجھ لینے اور ان سے جنسی تعلق قائم کرنے کو عقل بھی برا کہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی غیرت مند اور سلیم الفطرت شخص بالکل یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے خاندان کی خواتین – خواہ قریبی رشتے دار ہوں یا دور کے – کے ساتھ کوئی اس طرح کا برا عمل کرے۔
ہاں! جس کی فطرت ہی مسخ ہوچکی ہو، جس کی غیرت کا جنازہ نکل گیا ہو اور جنسی خواہشات کے پورا کرنے کے معاملے میں جانوروں کی صف میں آچکا ہو، جس کو شریعت دیوث کہتی ہے، تو ایسے شخص کو نہ خود کی بے راہ روی پر افسوس ہوتا ہے اور نہ اپنی بیوی، بہن کی بدچلنی سے اس کا ضمیر متاثر ہوتا ہے، اور اپنی خباثت کی بنا پر وہ اس کو سند جواز دیتے ہوئے آزادئ نسواں سے تعبیر کرتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ فہمائش
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو اسی مذکورہ انداز سے سمجھایا، چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! ﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے! لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی ﷺ نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ! وہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔
پھر نبی ﷺ نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی: اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔(مسند احمد)
شرعا، عقلا اور عرفا ہر لحاظ سے برا عمل
حاصل یہ کہ زنا عقلا بھی بہت غلط عمل ہے، اسی کی جانب قرآن میں فاحشۃ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا، شرعا بھی برا عمل ہے جس کی طرف لفظ مقتا کے ذریعے اشارہ کیا گیا جس کے معنی گناہ کے آتے ہیں، اور عرفا اس کی برائی کو ساء سبیلا کے جملے سے ذکر کیا گیا۔
چور دروازے اور ان پر قدغن
قرآن نے صرف زنا کی مذمت ہی بیان نہیں کی؛ بلکہ اس کے اسباب پر روک بھی لگائی ہے، اور یہ شریعت اسلامیہ کا امتیاز ہے کہ جہاں وہ کسی چیز کو ممنوع قرار دیتی ہے تو وہیں اس تک پہنچانے والے امور کی نشان دہی بھی کرتی ہے اور ان سے بچنے کی تاکید کرتی ہے، اس کی بہت سے نظیریں موجود ہیں، سود حرام ہے تو اس تک پہنچانے والی چیزیں بھی حرام ہیں، شراب حرام ہے تو وہاں تک پہنچانے والی چیزیں بھی حرام ہیں، یہ امتیاز صرف شریعت اسلامیہ اور اسلامی قانون کو حاصل ہے، دیگر قوانین میںن دیکھا جائے تو چیز کو تو ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے؛ لیکن اس کے اسباب کو اختیار کرنے کے سلسلے میں بالکل چھوٹ دے دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ جگہ جگہ لڑکیوں اور عورتوں کی عصمت دری و آبرو ریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں ایسے افسوس ناک ماحول میں اگر کوئی لڑکیوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں ان کاموں سے رکنے کے لیے کہتا ہے جو اس طرح کے واقعات کا سبب ہیں تو فورا بہت سے لبرل لوگ چراغ پا ہوجاتے ہیں اور نام نہاد آزادی کا راگ الاپنے لگتے ہیں، حد تو یہ ہوگئی کہ جب ایک وزیر نے اس طرح کی بات کہی کہ عورتوں کو کپڑے ڈھنگ کے پہننے چاہئیں تو سپریم کورٹ کی طرف سے اس کو نشانہ بنایا گیا، ایسا کہنے پر ملامت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ عورتوں پر پابندی لگانا ہے اور ان کے حقِ آزادی کے خلاف ہے۔
ایسی بے ہودہ اور غیر فطری امور سے شریعت منزہ ہے، اس کا امتیاز ہے کہ کسی برے عمل پر قدغن کے ساتھ اس کے اسباب پر بھی وہ روک لگاتی ہے، چنانچہ شریعت نے جہاں زنا پر روک لگائی وہیں اس کے اسباب اور دواعی کو بھی منع کیا ہے۔
عورتوں کو شرعی ہدایات
عورت کو حکم دیا گیا کہ وہ زیادہ تر گھر میں رہے، بلا ضرورت گھر سے باہر نکلے، اگر ضرورت پیش آجائے اور باہر نکلنا ناگزیر ہوجائے تو ایسا لباس پہن کر نکلے جو بھڑکیلا نہ ہو، لوگوں کی توجہ کھینچنے والا نہ ہو، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اگر تم اپنی عورتوں کو بلا ضرورت باہر جانے سے روکنا چاہتے ہو تو ان پر صرف ایک پابندی لگاؤ کہ وہ خوش نما کپڑے پہن کر نہ نکلیں؛ بلکہ میلے کچیلے کپڑے پہن کر باہر جائیں، اگر تم یہ پابندی لگانے میں کامیاب ہوجاؤ تو صرف یہی ایک پابندی بڑی حد تک عورتوں کو باہر جانے سے روک دے گی۔
شریعت میں یہ بھی حکم ہے کہ بجنے والا زیور پہن کر عورت نہ نکلے، اسی طرح خوشبو لگاکر نہ نکلے، اجنبی سے گفتگو تو اولاً کرے ہی نہیں؛ لیکن اگر بات کرنا پڑجائے تو لہجہ میں نرمی اور زبان میں شیرینی نہ ہو؛ بلکہ تندی اور کچھ تلخی ہو؛ تاکہ سامنے والے کے دل میں کوئی برا خیال نہ آجائے، یہ بھی حکم ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھے، قرآن میں جہاں یہ حکم مذکور ہے وہیں آگے متصلا شرمگاہوں کی حفاظت کا بھی حکم ہے:
وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ. (النور:٣١)
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ دونوں میں باہم ربط ہے، اگر نگاہ محفوظ ہوگی تو شرمگاہ بھی محفوظ ہوگی اور اگر نگاہ ادھر ادھر بھٹکتی رہے گی تو پھر شرم گاہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔
سماج میں زنا کا سد باب کرنے کے لیے عورتوں پر یہ پابندیاں ہیں۔
گھر پر کوئی شخص آجائے اور پردے کے پیچھے سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو وہاں بھی سخت لہجہ اختیار کرنے کا حکم ہے زبان میں اور لہجے میں نرمی اور شیرینی سے منع کیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾
لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو۔
اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہیے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گنگنانا کتنا برا ہوگا۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثماني)
اسی طرح اگر غیر محرم كو کوئی چیز طلب کرنا ہو تو اس کو بھی پردے کے پیچھے سے مانگنے کا حکم ہے،چنانچہ کہا گیا:
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ۔ (۵۳)
اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔
اسلامی معاشرت کا یہ دوسرا حکم ہے اور اس کے ذریعے خواتین کے لئے پردہ واجب کیا گیا ہے، یہاں اگرچہ براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن حکم عام ہے۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی )
ایک عبرت آموز واقعہ
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ کا واقعہ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی آپ بیتی میں نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: میں بچہ تھا، ابھی بالغ نہیں ہوا تھا، ان کے گھر میں آنا جانا تھا، اور حضرت سہارنپوری کی اہلیہ بھی مجھے بیٹا کہہ کر پکارتی تھیں، لیکن جب سن بلوغ کو میں پہنچ گیا تو مجھے بے محابا گھر آمد و رفت سے حضرت نے منع کردیا، ایک مرتبہ حضرت کو گھر سے چابی منگوانے کی ضرورت پیش آگئی تو آپ کو لانے کے لیے بھیجا، آپ نے جاکر گھر پر دستک دی اور مدعا عرض کیا، تو اندر سے چابی اس طرح دی گئی کہ حقہ میں کوئلہ وغیرہ کا جو چمٹا ہوتا ہے اس میں چابی پھنساکر پردے کے پیچھے سے حوالے کی گئی، اتنا پردہ کا لحاظ تھا۔
اس طرح کا اہتمام جب مسلمانوں کے درمیان تھا تو مسلم معاشرہ گناہوں سے بے حیائی سے بدکاری سے اور زنا کاری سے بچا ہوا تھا۔
مردوں کو شرعی ہدایات
مردوں پر بھی پابندیاں ہیں، اور ان کو بھی اپنی ناجائز خواہشات کو دبانے اور کچلنے کا حکم ہے، چنانچہ انہیں بھی نگاہیں نیچے رکھنے کی تعلیم دی گئی، ارشاد ربانی ہے:
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ. (النور: ۳۰)
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔
اس سے نظر نیچے رکھنے، نامحرم کو نہ دیکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو مستقل حکم دیا گیا ہے ورنہ دیگر عبادات اور احکام میں عام طور پر دونوں کو الگ الگ خطاب نہیں کیا گیا ہے۔
اسی طرح حدیث میں کہا گیا کہ انسان کی انکھیں بھی زنا کرتی ہیں کہ ان کے ذریعے آدمی غیر محرم کو دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ غیر محرم کو چھو کر لذت حاصل کرتا ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ غیر محرم کی طرف جاتا ہے، دل بھی زنا کرتا ہے جس سے وہ غیر محرم کے خیالات دل میں لا کر لطف اندوز ہوتا ہے اور منصوبے بناتا ہے کہ ملاقات کس طرح ہوگی ملاقات کے بعد کیا کیا باتیں ہوں گی وغیرہ وغیرہ، اور پھر شرمگاہ اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب، اگر واقعتا وہ زنا کر لے تو ان تمام اعضاء کی تصدیق ہوجاتی ہے اور اگر اللہ کے فضل سے زنا سے بچ جائے تو تکذیب ہو جاتی ہے، ارشاد رسول ہے:
إنَّ اللَّهَ كَتَبَ علَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أدْرَكَ ذلكَ لا مَحَالَةَ، فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ. (بخاری)
زنا کی روک تھام ہی کے لیے اجازت لے کر گھر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور بلا اجازت گھسنے سے منع کیا گیا قران کے اندر اس کے تفصیلی احکام موجود ہیں،ارشاد ربانی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿النور: ۲۷﴾
اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو، اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، امید ہے کہ تم خیال رکھوگے۔
یہاں سے معاشرے میں بےحیائی پھیلنے کے بنیادی اسباب پر پہرہ بٹھانے کے لیے کچھ احکام دئیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس میں ایک تو حکمت یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بےجا مداخلت نہ ہو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ دوسرے بلا اجازت کسی کے گھر میں چلے جانے سے بے حیائی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور اجازت لینے کا طریقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ باہر سے السلام علیکم کہا جائے، یا اگر یہ خیال ہو کہ گھر والا سلام نہیں سن سکے گا، اور اجازت دستک دے کر یا گھنٹی بجا کرلی جا رہی ہے تو جب گھر والا سامنے آجائے اس وقت اسے سلام کیا جائے۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور صرف بالغ مرد و عورت کو یہ حکم نہیں ہے؛ بلکہ غلام باندی اور نابالغ بچوں تک کو اجازت لینے کا پابند کیا گیا، قرآن کہتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ﴿۵۸﴾
اے ایمان والو ! جو غلام لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہیں، اور تم میں سے جو بچے ابھی بلوغ تک نہیں پہنچے ان کو چاہیے کہ وہ تین اوقات میں (تمہارے پاس آنے کے لیے) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز فجر سے پہلے، اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھا کرتے ہو، اور نماز عشاء کے بعد یہ تین وقت تمہارے پردے کے اوقات ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ نہ تم پر کوئی تنگی ہے، نہ ان پر۔
مسلم معاشرے کی حالت زار
اج مختلف بہانوں سے آفس میں، سواری پر سوار ہونے کی حالت میں، بازاروں میں گھومتے پھرتے بد نظری اور غلط طریقے سے ہاتھ لگانا یہ سب عام ہو چکا ہے، گھروں میں بھی غیر محرم رشتہ داروں سے ملنے ملانے کی ازادی ہے، اگر کوئی مرد یا عورت شریعت کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے پردہ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور غیر محرم کے سامنے نہیں آتا تو الٹا اسی پر طعنہ دیا جاتا ہے اور اس کے اس عمل کی مذمت کی جاتی ہے، یہ کہہ کر اس جرم کو ہلکا کر دیا جاتا ہے کہ یہ تو چچا زاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ہے، تمہارا دیور ہے، اس طرح کی باتیں کہہ کر اس کے گناہ ہونے کا احساس ہی دل سے نکال دیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد جو مراحل پیش اتے ہیں اور بدکاری کے واقعات جس طرح پیش آتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں، ان حالات کو دیکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بالکل واضح طور پر صادق آتی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب تم نیکی کروگے تو تم پر آوازیں کسی جائیں گی، اور برائی کروگے تو واہ واہی ہوگی، ٹھیک یہی دور چل رہا ہے۔
بے حیائی اسباب اور سد باب
جب سے موبائل فون عام ہو چکا ہے شرم و حیا رخصت ہو چکی ہے بچے بالغ ہونے سے پہلے ہی بہت سے نامناسب اعمال میں مبتلا ہو جا رہے ہیں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آزادانہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس استعمال کرنے کی چھوٹ دینا اور اس کی کوئی نگرانی نہ کرنا بہت سی برائیوں کا پیش خیمہ بن رہا ہے، نوجوانوں کے اندر جنسی تشدد کی بیماری پیدا ہورہی ہے، جائز طریقے سے اگر خواہش پوری نہ ہوسکے تو وہ غلط طریقے سے اپنی خواہشات کو پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کے اندر زنا کے واقعات پے در پے پیش آرہے ہیں، بعض واقعات ایسے بھی ہیں جن میں عورت کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے، لڑکیوں میں محبت کی شادی اور غیروں کے ساتھ بھاگنے کے واقعات بکثرت پیش آرہے ہیں، ہندوستان کی رپورٹ یہ ہے کہ زنا اس ملک میں ہونے والی برائیوں میں چوتھے نمبر پر ہے اور ہر سال اس میں دو سو تین سو فیصد اضافہ ہورہا ہے، ان تمام کے پیچھے ایک بنیادی اور اہم وجہ نیٹ کا اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے۔
اپنا جائزہ تو لیجیے، سرپرست ہونے کے ناطے آپ نے کیا ذمہ داری نبھائی، کیا اپ نے کبھی اس تعلق سے اپنے بچے کی نگرانی کی، کن دوستوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے، سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ وقفہ کیوں گزارتا ہے، ہمیشہ اس کے ہاتھ میں فون کیوں رہتا ہے اس کی رسائی کن ویب سائٹ تک ہو رہی ہے، کہیں مخرب اخلاق اور فحش چیزیں اس کے حال اور مستقبل کو تو برباد نہیں کر رہی ہیں، کہیں کسی لڑکی کے ساتھ وہ عشق میں مجازی میں مبتلا تو نہیں ہے، کیا اپ نے کبھی سرپرست ہونے کے ناطے ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اور اپنے بیٹے کی کونسلنگ اور ذہن سازی کی؟ سرپرست اندھے لاڈ میں ان تمام سے انکھیں بند کر لیتے ہیں، پھر جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے اور بیٹی گھر سے فرار ہوجاتی ہے تو واویلا مچانے لگتے ہیں اور اپنی جھوٹی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے لڑکی کی جان لینے پر تل جاتے ہیں، سب سے پہلے تو خود کی جان لینی چاہیے! بیٹی تو ناسمجھ تھی اور اس نے نا تجربہ کاری کی وجہ سے یہ غلط قدم اٹھایا، آپ تو تجربہ کار تھے، زمانے کے حالات دیکھ رہے تھے، پھر بھی آپ نے مجرمانہ خاموشی برتی تو قصور تو زیادہ آپ کا ہے، اب رونے سے کیا فائدہ! کاش یہ احساس ذمہ داری کچھ پہلے پیدا ہوچکا ہوتا تو اولاد کا مستقبل برباد ہونے سے بچ جاتا، ان کا مستقبل خراب ہونے میں جہاں خود ان کی غلطی ہے وہیں سرپرستوں کا بھی قصور ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی خود بھی زنا سے اور زنا تک پہنچانے والی تمام چیزوں سے بچے، ساتھ ہی ساتھ اپنی ماتحتی میں رہنے والے افراد کی بھی نگرانی کرے اور ان کو بھی پوری طرح بچانے کی کوشش کرے، اور اوپر جو ہدایات مردوں اور عورتوں اور عورتوں کے سلسلے میں ذکر کی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر ان شرعی خطوط پر معاشرہ ترتیب دیا جائے تو یہ معاشرہ عفت و عصمت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے۔ آمین۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ