محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
میں مطمئن ہوں اگر چہ خراب ہے ماحول
خزاں کے بعد کا موسم بہار ہوتا ہے
حضرات اور میرے دینی بھائیو!
اس وقت پوری دنیا میں ہم مسلمان عجیب دو راہے پر کھڑے ہیں، حالات انتہائی کشیدہ اور نازک ہیں،دشمن ہر چہار جانب سے ہم پر حملہ آور ہیں،وہ ہماری شناخت اور ملی وجود کو مٹانا چاہتے ہیں، طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں،ہمارے مذہبی مقامات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں،تعلیمی ،سیاسی اور معاشی طور پر ہم کو بے وزن کرنے کی پلانگ کر رہے ہیں،غرض ہم کو مٹانے اور ہماری شریعت کو ختم کرنے کی ہر روز اور ہر وقت وہ پلانگ کر رہے ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہم مسلمان حالات سے مایوس نہیں ہیں ۔ اللہ کی ذات پر ہم سب کا مضبوط یقین اور بھروسہ ہے، کہ وہ ہمیں بے سہارا اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے، اللہ کی نصرت اور مدد ضرور آئے گی۔ اس وقت ضروت ہے کہ ہم خوف و ہراس اور بزدلی و کم ہمتی و شکست خوردگی کے ماحول سے اپنے کو نکالیں، اور اپنے اندر صبر، ہمت، استقامت، جرآت، حوصلہ، حق گوئی،بے باکی اور شجاعت و بہادری کے اوصاف پیدا کریں، ہمارے قائدین اور جو حضرات بھی اس کے لیے آگے بڑھ کر کام کر رہے ہیں ہیں ،ہم ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ جس مجلس اور جس جگہ رہیں وہاں لوگوں میں حوصلہ افزائی اور جرآت کی بات کریں اور لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ یہ جان اللہ کی امانت ہے، اگر ملت کی سربلندی کے لئے اور اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لئے نیز ملک میں امن و امان اور سلامتی پیدا کرنے کے لئے، جان کا نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت بھی پڑے گی، تو ہم اس ملک کی سلامتی اور امن و شانتی کے لیے اس میں دریغ نہیں کریں گے اور اس قربانی کو اپنے لئے سعادت سمجھیں گے، اس ملک میں امن و شانتی،مانوتا ، انسانیت و محبت پریم، اور بھائی چارہ کی فضا قائم رکھیں گے، نیز اس کے لیے ہر طرح کی کوشش کریں گے مشکل و پریشانی پر صبر کریں گے اور استقامت و حوصلہ کا ثبوت دیں گے۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان والوں کو راہ حق کی کٹھنائیوں دقتوں،پریشانیوں اور دشوار مراحل پر استقامت اختیار کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو استقامت کی راہ اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ۔
انما الھکم الہ واحد فاستقیموا الیہ و استغفروہ (حم السجدہ :۶۔)
تمہارا معبود تو بس ایک خدا ہے ۔ لہذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اسی سے معافی کے طلب گار بنو ۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (ھود ۱۲۱)
تو اے نبی! تم اور تمہارے ساتھی جنہوں نے توبہ کرلی ہے راہ استقامت پر ثابت قدم رہیں جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور حد سے نہ بڑھو کہ وہ اللہ تمہارے اعمال پر نگاہ رکھتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب مکہ میں فضا تنگ کر دی گئی اور عرب کا تپتا ہو ریگستان دیں حق کی مخالفت میں غیظ و غضب کا بھڑکتا ہوا تنور بن گیا اور مکہ کے سارے لوگ آپ کی دشمنی اور ایمان والوں سے عداوت پر متحد ہوگے اور عرب کی وسیع زمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی، تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کو اعلان حق اور حق پر جمے رہنے اور استقامت اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ۔
فلذلک فادع و استقم کما امرت و لا تتبع اھواءھم
اس لئے اب تم اسی دین کی طرف سب کو بلاو اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے مت چلو ۔
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ایسے ایمان والوں کی بھر پور تعریف کی ہے جو ایمان و استقامت کے پیکر ہیں اور جنہوں نے اللہ کو اپنا رب مان کر ہر طرح کے خوف اور خطرے کو دل سے نکال دیا ہے ان لوگوں کے لئے یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ کامیابی تمہارے لیے ہی ہے اور یقینا وہ دن آئے گا جب تمہیں نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کسی قسم کا ڈر ۔،،
ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا الخ،،
استقامت یہ قرآنی تعبیر ہے، استقامت کے لفظی معنی تو سیدھے چلنے یا سیدھے رہنے کے ہیں، لیکن استقامت کا جو تصور اور خاکہ قرآن نے پیش کیا ہے اس اعتبار سے ،،استقامت،،کا مفہوم اور مطلب یہ کہ جس بات اور جس عقیدہ کو حق سمجھا جائے اس پر قائم اور دائم رہا جائے۔ مصائب و آلام اور مشکلات و مسائل آجائیں ۔ مخالفتیں ہوں یا ستایا جائے تو اسے برداشت کیا جائے اور حق سے منھ نہ موڑا جائے بلکہ اس راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ جما رہے ۔ اور آگے بڑھتا جائے ۔
دین میں استقامت کا کیا درجہ ہے اور یہ وصف اسلام میں کتنا مطلوب ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۔ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی کہتے ہیں :
میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے اسلام کے سلسلہ میں ایسی بات بتا دیجئے کہ میں اس کو آپ کے بعد پھر کسی سے نہ پوچھوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛: تم کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو ۔
جن آیات میں ایمان والوں کو راہ حق کی خاطر استقامت اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، ان آیات میں الفاظ اور جو تعبیر اختیار کیا گیا ہے ، وہ الفاظ بڑے جامع ہیں جو دنیا سے آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لئے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ کہ باطل طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں ان سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں تمہیں سہنی پڑیں ان پر کوئی رنج اور تکلیف نہیں ہونی چاہیے ۔ کیوں کہ آگے تمہارے لئے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے
صحابئہ کرام نے جب استقامت کی راہ اختیار کیا اور اس پر عمل کیا تو وہ پوری دنیا پر حکمراں بن گئے اور وہ نقوش ثبت کئے اور ایمانی و اخلاقی بہادری کے وہ کارنامے انجام دئے کہ دنیا کی تاریخ حیران و ششدر ہے اور تاریخ کی زبان سے مستقل آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔
ایمان و استقامت کی اس تاریخ کو مسلمانوں کو موجودہ حالات میں پھر دہرانے کی ضروت ہے ۔
مسلمانوں کا یہ ایمان اور یقین ہونا چاہیے کہ راہ حق میں مشکلات و مصائب کا آنا یہ قانون الہی ہے ۔ راہ حق میں ان حالات و واقعات کا پیش آنا اور ان میں مردان خدا کی استقامت کی آزمائش اللہ تعالی کا وہ اصول ہے جو ہمیشہ سے قائم ہے اور اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس میں کوئی شخص یا کوئی قوم پوری نہیں اترتی ۔
(مستفاد تفہیم / ماہ نامہ ندائے اعتدال شمارہ جون ۲۰۱۹ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمان والوں کو اور راہ حق کے مسافروں کو ہر دور میں آلام و مصائب مشکلات و مسائل اور ابتلاء و آزمائش سے دو چار ہونا پڑا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے ۔ قرآن مجید بھی اس پر شاہد ہے، کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں راہ حق کے مسافروں کو ،ایمان و عزیمت کے متوالوں کو اور ایک خدا کے پرستاروں کو مشکلات و مصائب اور آلام و آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ حق کی راہ میں مشکلات کا آنا اور اس میں مردان خدا کی استقامت کی آزمائش اللہ تعالی کا وہ اصول ہے جو ہمیشہ سے قائم ہے اور اس وقت تک قائم رہے گا جب تک دنیا قائم ہے اور جب تک اس میں کوئی شخص یا کوئی قوم پورے طور پر کھری نہیں اترتی ۔
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایمان والوں کو یوں مخاطب فرمایا ہے :
ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم الخ ( سورہ بقرہ ۲۱۴)
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا کہ یوں ہی جنت میں چلے جاو گے، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان والوں پر گزرا ہے ۔ ان پر سختیاں آئیں ،تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اس وقت ان سے کہا گیا کہ سنو ! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے ۔
صحابئہ کرام نے دین اور شریعت کی خاطر جس قدر سختیوں کو جھیلا اور برداشت کیا اور جس قدر آلام و مصائب کے ان پر پہاڑ ٹوٹے اس کا اندازہ ان آیات کریمہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں غزوئہ احزاب کی جو منظر کشی کی ہے اور ایمان والوں کی بے چینی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ عجیب ہے اور سخت ہولناک بھی ۔ ارشاد خداوندی ہے :
إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا الخ
جب کفار کی متحدہ فوجیں تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے چڑھ آئیں اور جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس وقت ایمان والے خوب آزمائے گئے ۔
ایمان والوں کو راہ حق میں آنے والے مشکلات پر صبر کرنے اور استقامت کو اختیار کرنے کی ترغیب و ہدایت کے لئے پچھلی امتوں کی استقامت کی مثالیں اور نمونے بھی کثرت سے قرآن مجید میں پیش کئے گئے ہیں ۔ طالوت کا اور اصحاب اخدود کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے ۔ طالوت کے مختصر سے لشکر نے قلت تعداد کے باوجود اور بھوک و پیاس کے باوجود غنیم کے بہت سے لشکر کا مقابلہ کیا اور آخر کامیاب ہوا ۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ دعا جاری تھی
ربنا افرغ علینا صبرا و ثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکافرین (بقرہ ۲۵۰)
اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کی طاقت اور ہمت دے اور ہمارے قدم جما دے اور اس کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ۔
اصحاب اخدود کا جو واقعہ پیش آیا اس کی مختصر تفصیل اور تاریخ یہ ہے کے یمن میں حضرت عیسی علیہ السلام کی امت کے کچھ مخلص اور پکے مسلمانوں کو یہودیوں نے طرح طرح کی تکلیفیں دیں ان کو ہر طرح سے ستایا اور آخر کار ان کو گڈھا کھود کر آگ میں جھونک دیا مگر دین حق کے وہ دیوانے اور ایمان و یقین کے متوالے راہ حق سے برگشتہ نہ ہوئے ۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے کہ ایک دفعہ ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مصیبتوں کا تذکرہ کیا اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا حال بیان کیا اور درخواست کی کہ ہمارے لئے دعا کر دیجئے ۔ چوں کہ یہ ایک طرح کی بے چینی بے کلی اور بے تابی کا اظہار تھا ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خباب !
تم سے پہلے کے لوگوں میں ایسا مرد بھی ہوا ہے جس کو زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا اور آرہ سے اس کو چیر کر دو ٹکڑا کر دیا جاتا تھا ، مگر یہ اس کو دین حق سے رو گرداں نہیں کرتا تھا ۔ اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈی سے نوچ کر تار تار کردیا جاتا تھا ، مگر یہ بھی اس کو اس کے دین سے ہٹا نہ پاتا تھا ۔( بخاری کتاب المناقب )
علامہ شبلی نعمانی رح نے سیرت النبی جلد اول میں مکہ میں مسلمانوں پر ہوئے ظلم اور ان پر مسلمانوں کی استقامت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
بہر حال قریش نے جور و ظلم کے عبرت ناک کارنامے شروع کئے ۔ جب ٹھیک دو پہر ہوجاتی تو وہ غریب مسلمانوں کو پکڑتے ،عرب کی تیز دھوپ ریتیلی زمین کو دوپہر کے وقت جلتا توا بنا دیتی ہے ،ان غریبوں کو اسی توے پر لٹاتے ،چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائیں، بدن پر گرم بالو بچھاتے ،لوہے کو آگ پر گرم کرکے اس سے داغتے ،پانی میں ڈبکیاں دیتے ۔ یہ مصبتین اگر چہ تمام بیکس مسلماں پر عام تھیں لیکن ان میں جن لوگوں پر قریش زیادہ مہربان تھے ان کے نام یہ ہیں ۔
آگے علامہ شبلی نعمانی رح نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنھا حضرت ابو فکہیہ رضی اللہ عنہ حضرت لبینہ حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ پر ہوئے داستان ظلم و ستم اور جبر و تشدد کو وضاحت کہ ساتھ بیان کیا ہے تفصیل کے لیے آپ سیرت النبی جلد اول کا مطالعہ کریں ۔ اور اسلام کے ان جیالوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کرکے اپنے اندر ایمان و یقین ہمت و حوصلہ اور عزم و استقلال پیدا کریں ۔
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے ان انتہائی دشوار اور مشکل ترین حالات میں بھی جب کہ ہر وقت جان کا خطرہ تھا تو دوسری طرف لالچ اور طمع کے بے شمار مواقع تھے آپ نے کفار کی درخواست اور خواہش کے باوجود ان کی کسی دھمکی اور حملے کی پرواہ کئے بغیر نہ دب کر صلح کی اور نہ ان کے سامنے امن و سلامتی کی درخواستیں دیں ۔ شعب آبی طالب کا تین سالہ دور کس پریشانی بے چینی اور بے کلی کے ساتھ مسلمانوں نے گزارا وہ آج بھی تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے اور ایمان والوں کے لئے راہ استقامت اختیار کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے بھوکے بچوں کو بلکتے دیکھا ،کمزور مسلمانوں کو مکہ کی گلی میں گھسیٹتے پایا،مدینہ میں کفار کا نرغہ،معاشی مقاطعہ اور بار بار کے جان لیوا حملے برداشت کئے ،لیکن دشمن سے دب کر رہنے اور اپنی جان بچانے کے لیے درخواست دینے کا طریقہ اور رویہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر مادی مشکلات ،معاشی پریشانیوں افرادی قوت کی کمی ،دشمنوں کی بھاری تعداد کثیر وسائل اور پر ہجوم مخالفت اور ہجومی تشدد اور حملہ کے باوجود حالات کا جم کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ عزیمت کا راستہ اختیار کیا ۔ آپ کبھی بھی کفار کی کثرت تعداد اور کثرت ساز و سامان سے مرعوب نہیں ہوئے ۔ اور نہ ان کے رعب میں آکر اپنی پالیسی بدلی اور طرز عمل کو حالات کے خوف سے بدلا ۔ جتنی نرمی آپ کے اندر تھی اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کی خاطر استقامت اور سخت موقف بھی اختیار فرماتے تھے ۔ یہی حکم اللہ کی طرف سے اپ کو تھا ۔اور یہ سچ ہے کہ کافروں سے دب کر صلح کی درخواستیں کرنا اور اپنی پالیسیاں بدلنا یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :
فلا تھنوا و تدعوا الی السلم و انتم الاعلون ( محمد ۳۵)
پس تم سست نہ ہو اور صلح کی درخواستیں نہ پیش کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو ۔
(مستفاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت انقلاب بحوالہ ماہنامہ ندائے اعتدال علی گڑھ شمارہ جون ۲۰۱۹۶)
ہندوستان کے موجودہ حالات میں جہاں مسلمانوں پر حالات تنگ سے تنگ کئے جارہے ہیں ، ان کے لئے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں ، مسلمان بھگوا دہشت گردوں کے ہجومی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں ان کو چاہئے کہ ہمت اور صبر سے کام لیں، مایوسی اور خوف و ہراس دل سے نکال دیں ۔ مناسب وقت میں اپنا دفاع خود کریں دین و ایمان اور عقیدہ و عمل کی حفاظت کے لئے استقامت کا مظاہرہ کریں ۔ بحیثیت خیر امت اپنی دعوتی اور اصلاحی ذمہ داری نبھائیں ۔ حالات کا ڈٹ کر اور بہادری سے مقابلہ کریں ۔ قائدین امت سے بھی درخواست ہے کہ وہ امت کو کسی حال میں اپنی تقریروں تحریروں اور بیانات سے مایوس نہ کریں ۔ کم ہتی اور مایوسی سے امت کو نکالیں،ان کے اندر حوصلہ اور ہمت یقین اور جرآت صداقت اور شجاعت کا حوصلہ پیدا کریں ۔ اور امت کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ۔
میں مطمئن ہوں اگر چہ خراب ہے ماحول
خزاں کے بعد کا موسم بہار ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔