عید کا پیغام = امت کے نام
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
آج پچیسواں روزہ ہے، چار یا پانچ دن بعد ہم سب روزے کی تکمیل کے شکرانے کے طور پر عید کی دو گانہ ادا کریں گے،خوشیاں منائیں گے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کریں گے ۔ گلے شکوے دور کرکے ایک دوسرے سے قریب ہوں گے، معافی تلافی کریں گے، اور ایک دوسرے سے چشم پوشی اور درگزر کرتے ہوئے محبت اور بھائی چارے والی زندگی گزارنے کا عزم اور اظہار کریں گے۔ نیز اس پر عمل بھی کریں گے۔۔ ہمارے بہت سے قارئین خصوصا ائمہ و خطباء کی خواہش ہے کہ خطاب عید پر پہلے سے مضمون تیار کرکے بھیج دوں ،انہیں حضرات کی خواہش پر پیشگی خطاب عید الفطر قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش ہے ۔ م ق ن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی زبان میں ہر ایک مکرر یعنی دوبارہ آنے والی کیفیت کو خواہ خوشی ہو یا غم عید کہتے ہیں، عرف عام میں یہ خوشی کے دن کے لئے مخصوص کر لیا گیا ہے ۔ علماء اور اہل علم نے عید کا مفہوم اور اس کی تشریح اس طرح بھی کی ہے کہ : مہینہ بھر کی روحانی و نورانی ریاضتوں اور نفسانی و اخلاقی طہارتوں و پاکیزگیوں کے بعد ایک نئی روحانی زندگی کے عود کر آنے کی وجہ سے بھی اس کو عید کہا جاتا ہے ۔
ایک مہینہ اللہ کے واسطے اور اس کے حکم و آڈر کی بنا پر مومن بندہ بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کرتا ہے، نفسانی خواہشات کو دباتا ہے اور پھر جب عید کے دن پھر سے رخصت ملنے پر جو طبعی خوشی ہوتی ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ اسی طرح رات کی تراویح اور قیام الیل اور رمضان میں صدقات و خیرات کرکے جب مومن بندہ فارغ ہوتا ہے، تو وہ خاص لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے اور شکرانے کے طور پر دوگانہ ادا کرتا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی نماز عید (عیدالفطر) سن ۲/ ھجری میں ادا کی اور پھر اسے کبھی ترک نہیں فرمایا،لہذا یہ نماز واجب کے درجہ میں ہے اور بعض علماء احناف کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔ عید الفطر کے دن کی اہمیت و فضیلت پر بے شمار احادیث موجود ہیں اور قرآن مجید کی آیات میں بھی اس کی جانب اشارہ موجود ہے ۔ چند احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی عظمت و رفعت کا اندازہ ہو سکے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن تین سو مرتبہ ۰۰ سبحان اللہ و بحمدہ پرھا اور مسلمان متوفیٰ روحوں کو اس کا ثواب ھدیہ کیا تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں، جب وہ مرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا ۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے، اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن سب کے دل مر جائیں گے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلة الجائزہ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے ۔ بعض ضعیف روایت میں ہے پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے بارے میں فرمایا ۰۰ یوم اکل و شرب و بعال ۰۰ آج کا یہ دن کھانے پینے اور ازدواجی مسرتوں کا دن ہے ۔ آج کوئی انتہائی پرہیز گاری دکھانے کے لئے روزہ رکھنا چاہے تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اور یہ روزہ حرام اور ناجائز ہوگا جس کا توڑنا ضروری ہے ۔ بعض ضعیف حدیث میں ہے۔حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
آج خدا کی طرف سے بندوں کی دعوت ہے،آج کھانا پینا اور جنسی تعلق عین منشاء الہی ہے
اسلام نے عید اور تہیوار کے طور پر مسلمانوں کو صرف دو دن دئے ہیں، ایک عید الفطر اور دوسرا بقرعید ۔اور ان دونوں تہواروں کو منانے کے لئے جن دنوں کا انتخاب کیا وہ بھی دنیا سے نرالے ہیں۔ جناں چہ عید الفطر رمضان گزارنے کے بعد رکھی گئی کہ میرے بندے پورا مہینہ عبادت میں مشغول رہے، پورے مہینے انہوں نے میری خاطر کھانا پینا چھوڑے رکھا، نفسانی خواہشات کو چھوڑے رکھا اور پورا مہینہ عبادت کے اندر گزارا۔ اس کی خوشی اور انعام میں یہ عید الفطر عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ بخاری۔۔
آج یقیناً خوشی کا دن ہے، سارے ایمان والے خوش ہیں۔ مگر یہ خوشی نئے کپڑوں کی وجہ سے نہیں، عمدہ اور لذیذ کھانے کی وجہ سے نہیں، کسی کھیل اور تماشا کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اس لیے خوش ہیں کہ آج ان سے ان کا رب راضی ہے۔ انہوں نے مسلسل ایک مہینے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا، دن کو روزہ رکھا، رات میں تراویح ادا کی، تہجد بھی ادا کی،قرآن کی تلاوت کا معمول رکھا، ہر طرح کے گناہوں سے بچ کر ایک پاکیزہ زندگی گزاری، ان سب اعمال کی وجہ سے اللہ ان سے راضی ہوگئے اور ظاہر ہے کہ جب بندے سے اس کا مالک راضی ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اس کے لیے کیا خوشی ہوسکتی ہے، اسی لئے کہا گیا ہے و رضوان من اللہ اکبر۔۔ سورہ توبہ ۷۲.. یعنی اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی نعمت ہے۔۔
عید کا یہ یہ تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار و روایات کی صحیح عکاسی بھی کرتا ہے ۔ اس تہیوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اور عبادت الہی سے شغف اور دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ عید الفطر اجتماعیت کا مظہر اور علامت و نشانی ہے ۔ یہ تہوار عدل و مساوات اور اتحاد و یکجہتی و امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے اور خاندان اور برادری کی بنیاد پر فوقیت اور بے جا برتری کی نفی کرتا ہے ،عید کی دوگانہ نماز ادا کرتے وقت مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یہاں زید و بکر ،ادنی و اعلیٰ اور غلام و آقا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ایک امام کی اقتدا میں سارے نمازی ایک ہی طرح سے نماز ادا کرتے ہیں ۔
عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد ہیں، اس عید پر اللہ تعالٰی نے خاص طور پر اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو ضرور شریک کریں ۔ روٹھے ہووں کو منائیں کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں بچوں سے پیار کریں ۔ بڑوں سے تعظیم و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طور پر افلاس اور غربت کے ماروں کو تلاش کرکے گلے سے لگائیں ۔ اس دن صاحب نصاب دوگانہ ادا کرنے سے پہلے صدقئہ فطر ضرور ادا کردیں ۔ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقئہ فطر ادا نہ کیا جائے ۔
دوسری قوموں اور دیگر اقوام و مذاہب کی طرح ہماری عید اور ہمارا تہوار رقص و سرور ناچ اور گانا یا موج و مستی کا نام نہیں ہے، بھلا اسلام ایسی خرافات کی اجازت ہی کیوں دے سکتا ہے ۔ بلکہ اسلام میں عید کی بنیاد اور اساس روح کی لطافت و پاکیزگی قلب کے تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت ایثار و ہمدردی اتحاد و اتفاق قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات عجز و انکسار اور صلاح و تقویٰ پہ قائم ہے ۔ عید صرف ظاہری اور علامتی خوشی و مسرت اور رواجی شادمانی کا نام نہیں ہے، بلکہ مذھبی تہیوار ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے ۔
یہ انعام کی رات اور اللہ سے اپنی پوری پوری مزدوری اور انعام لینے کی رات ہے ۔ اس رات اللہ تعالی بندوں کو انعام سے نوازتا ہے ۔ اور فرشتوں سے فخر سے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ !جس مزدور نے پوری مزدوری کی اور اپنا حق ادا کردیا اس کو کیا انعام ملنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو بزرگو اور بھائیو ۔
عید کی رات کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ چنانچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں ،جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ ژندہ کرے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ، لیلة الترویة آٹھ ذی الحجہ کی رات عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی شب لیلتہ النحر دس ذی الحجہ کی رات اور لیلة الفطر عید الفطر کی شب۔ . ابن عساکر ۔
دوستو بزرگو اور بھائیو!
یہ حقیقت ہے کہ ایک مزدور جب دن بھر محنت و مشقت اور جفا کشی کا مظاہرہ کرے آقا کی باتوں احکام اور اوامر کی اتباع کرے ،دھوپ کی تپش اور بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرے ،خود کو تھکائے جسم کو توڑے اور ہر حال میں حکم بجا لانے کی کوشش کرے تو دن کے اخیر حصے میں اسے امید ہوتی ہے کہ آقا کی جانب سے نوازش ہوگی انعام ملے گا نظر کرم کا وہ مستحق ہوگا اور اور اس کے پسینے کی کمائی مل جائے گی ،ظاہر ہے جب اسے یہ انعام اور کمائی ملتی ہے تو خوشی کا ایک عالم اور منظر ہوتا ہے وہ اپنی ساری تکالیف اور مشقت و پریشانی کو بھول جاتا ہے ،سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ جب یہ عام زندگی کا اصول ہے تو وہ رب العالمین جو سب سے عالی اور برتر پالنہار اور مالک و رازق ہے اس کا کیا حال ہوگا ؟ اس کی طرف سے جو انعام اور مزدوری ملے گی وہ کس قدر قیمتی اور کتنا مبارک ہوگا ۔جب اس کے بندے اطاعت و بندگی اور سر تسلیم خم کرنے میں ایک ماہ مکمل کریں گے ۔ روزہ ،نماز ذکر و اذکار تسبیح و تلاوت کے ساتھ خواہشات نفس سے پرہیز اور دل کی پاکیزگی اور ستہرائی میں لمحہ لمحہ گزاریں گے تو وہ کس قدر خوش ہوگا اور کیا کیا انعامات سے نوازے گا ؟۔
چنانچہ یہ مژدہ جاں فزاں ہے کہ ہر مومن ایک ماہ مکمل ہوتے ہی لیلة الجائزہ سے نوازا جاتا ہے، یہ عید کی شب ہوتی ہے جس کی فضیلت و اہمیت کے کئے کہنے ، یہ ایک بابرکت رات ہے ۔
دوستو !
عید الفطر یہ یقینا خوشی کا دن ہے اور یہ اللہ کے احسان کو یاد کرکے اس کا شکر ادا کرنے کا دن ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر و لتکملوا العدت و لتکبروا اللہ علی ماھداکم و لعلکم تشکرون ۔( سورہ بقرہ )
اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر ادا کرو ۔
دوستو بزرگو اور بھائیو!
عید کا دن اجتماعی عبادت و شادمانی اور خدا کی رضا و خوشنودی کا دن ہے ۔انسانی فطرت ہے کہ قوم کے سارے افراد خورد و کلاں چھوٹے بڑے بچے اور جوان جب کسی خاص مقصد کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر بڑی اور کشادہ جگہ میں جمع ہوتے ہیں، تو فطری طور پر ان کے اندر مسرت و شادمانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ دن ان کے لیے زندگی سے بھر پور دن بن جاتا ہے، اس دن ان کی افرادی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے ،عید کا دن بھی امت محمدیہ کے لیے ایسا ہی دن ہے ،جس میں اس کی خوشی و مسرت اور شادمانی کا ظہور ہوتا ہے اور ایک خاص مقصد سے جمع ہونے پر ان میں روح کی بالیدگی اور عظمت و جلالت اور شان و شوکت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مگر افسوس کہ جیسے جیسے ہم خیر القرون سے دور ہوتے جارہے ہیں نور نبوت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا،عید کا مقصد اور عید کا حقیقی پیغام و پیام بھی فوت ہوتا جارہا ہے اور عید کی روح و حقیقت پر توجہ کے بجائے رسوم و رواج اور عادات کا ظہور زیادہ ہونے لگا ہے ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ عید کی اصل حقیقت اور اصل روح کو عام کیا جائے اور اس کو عالمی اخوت اور عالمی وحدت کا ذریعہ بنایا جائے اور اس کے ذریعہ پوری انسانیت کو امن و سلامتی کا پیغام پہنچایا جائے ۔
دوستو یاد رکھیں!
ہماری حقیقی عید یہ نہیں کہ ہم نئے کپڑے زیب تن کرلیں ،سرمہ عمامہ اور عطر و مسواک کا اہتمام کرکے دو گانہ ادا کرلیں ، مٹھائیاں کھا کر بغل گیر ہوکر اور ایک دوسرے کو تہنیت پیش کریں بلکہ ہمیں اس حقیقی عید کا انتظار ہے جس دن ہمارے دل بھی صاف و شفاف اور آئینہ کے مثل ہوں ہمارے بچے بوڑھے عورتیں اور غرباء کیساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے ہر ایک کے زیر لب مسکراہٹ ہو فقر و درویشی کسی کے در پر دستک نہ دے ظالموں کی نگاہیں جھک جائیں اسلام کا پورے عالم میں بول بالا ہو عدل و انصاف کی فضا ہو ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو محبت و شفقت اور انسانیت کی باد بہاری چلے، انسانیت اور مانوتا کی فکر سب کو ہو اونچ نیچ اور نفرت و تعصب کا خاتمہ ہو۔
آج فلسطین میں اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا، لاشیں بچھی ہوئی ہیں، بچے بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہیں ، ہزاروں جانیں جاچکی ہیں ، غذاؤں کا قحط ہے ، دوائیوں کا بحران ہے ۔اسی طرح ملک
،شام میں جو خوں ریزی ہے، عالم اسلام میں جو بے چینی ہے ، ان تمام حالات میں ہم عید کی اصل خوشیاں کہاں حاصل کرسکتے ہیں؟ ، دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے، دل و دماغ ماؤف ہے ،سمجھ میں کچھ نہیں آتا ، عالم اسلام اور کے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ایسے میں اپنی خوشیوں کا اظہار کیسے کرپائیں گے ،جب تک فلسطین کے بلکتے اور سسکتے لوگوں کے لیے ہم کچھ نہ کرسکیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خصوصاً عالم اسلام کو کچھ کر گزرنے کی توفیق دے اور ہم دنیا سے اور خصوصاً فلسطین و غزہ اور شام و یمن اور دوسری جگہ سے ظلم کا خاتمہ کرسکیں ۔ اور امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرسکیں ۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے عید کی مسرت اور عید کی صحیح خوشی حاصل نہیں کرسکیں گے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کچھ کر گزرنے اور اپنی مفوضہ ذمے داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔۔۔
✍ منجانب: مکتب الصفه اچلپور کے مختلف شعبوں میں سے ایک شعبہ (خطیب حضرات کا معاون: خطاب جمعہ ) اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےتشکیل دیا گیا ہے۔ ہر ہفتے سلسلہ وار خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے مذکورہ گروپ سے جڑیں اور علماء کرام و خطیب حضرات کو بھی اس گروپ سے جڑنے کی دعوت دیں ۔
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ