افادات: حضرت مولانا مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم
نائب شیخ الحدیث و صدر مفتی دار العلوم حیدرآباد
ضبط وترتیب: محمد عبد العلیم قاسمی
(ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ)
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره و نؤمن به و نتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضللہ فلا هادي له ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ونشهد أن سيدنا ونبينا محمدا عبده ورسوله، أما بعد! فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ. (الفلق: ۵)
میرے محترم بزرگو اور دینی بھائیو! ابھی جن آیات کی تلاوت کی گئی ہے وہ سورۂ فلق کی ہیں، اس کے بعد سورۂ ناس ہے، یہ دونوں سورتیں قرآن کی سب سے آخری سورتیں ہیں، ان کو معوذتین بھی کہا جاتا ہے۔
سورۂ فلق و ناس کا شان نزول
ان دو سورتوں کا نزول اس وقت ہوا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں نے جادو کرادیا تھا، اور اس جادو کا اثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیوی معاملات میں ظاہر ہورہا تھا، جہاں تک دینی معاملات کی بات ہے تو ان میں جادو کا اثر نہیں ہوا، ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، اور اس میں آپ کچھ ترمیم کردیں، جو حکم آیا اس کے بر عکس بیان کردیں، نماز کون سی پڑھی کیسی پڑھی کیا سورتیں پڑھی، اس کو بھول جائیں، ہاں! دنیوی معاملات میں ایسا ہوتا تھا کہ آپ کوئی کام کرلیتے تھے؛ لیکن اس کام کا کرنا بعد میں یاد نہیں رہتا تھا، آپ کی اسی حالت کے دوران — جب کہ آپ لیٹے ہوئے آرام فرمارہے تھے — دو فرشتے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایک سرہانے اور دوسرا پائنتی کی جانب بیٹھا، پائنتی کے پاس بیٹھے ہوئے فرشتے نے پوچھا کہ ان کو کیا ہوگیا ہے؟ سرہانے والے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے، اس فرشتے نے دوبارہ سوال کیا کہ کس نے جادو کیا ہے؟ جواب ملا کہ ایک یہودی لبید بن اعصم نے کیا ہے، پھر سوال کیا کہ کس چیز پر جادو کیا گیا ہے، جواب ملا کہ کنگھیوں کے دندانے جو ٹوٹ گئے ہیں ان پر جادو کیا گیا ہے، اور بالوں پر گیارہ گرہ لگائے گئے ہیں، سوال ہوا کہ یہ چیزیں کہاں چھپائی گئی ہیں؟ جواب ملا کہ کھجور کے پھل کے غلاف کے اندر رکھ کر بنو زریق کے کنویں بئر ذروان میں ایک پتھر کے نیچے دبادیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ محو خواب تھے اور یہ ساری گفتگو آپ خواب کے عالم میں سن رہے تھے؛ لیکن چوں کہ انبیاء کا خواب بھی سچا اور حجت ہوتا ہے (یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب ہی کی بنیاد پر اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کا ارادہ کیا، حالاں کہ آپ کو کوئی واضح حکم نہیں ملا تھا اور کوئی صریح وحی نازل نہیں ہوئی تھی؛ لیکن صرف خواب کی بنیاد پر آپ نے یہ اقدام کیا، اور اس اطاعت کی قرآن میں تعریف بھی گئی) اس لیے آپ نے اس خواب کے مطابق بنو زریق کے کنویں کے پاس صحابہ کو بھیج کر وہ چیزیں منگوائیں، اسی موقعہ پر سورۂ فلق و سورۂ ناس کا نزول ہوا، ان دو سورتوں میں مجموعی طور پر ۱۱ آیات ہیں، ہر آیت پڑھنے پر ایک ایک گرہ کھلتی جاتی، جب آخری گرہ کھلی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی کیفیت ہوئی جیسی اس شخص کی ہوتی ہے جس کو باندھ دیا گیا ہو پھر اچانک بندھن کھل جائے تو جس طرح وہ ہشاش بشاش ہوجاتا ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی سکون و اطمینان کی کیفیت طاری ہوئی۔
سورۂ فلق و ناس کی اہمیت
اس سورت کے اندر مختلف چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے، اسی وجہ سے روایات میں آتا ہے کہ ہر نماز کے بعد یہ دو سورتیں پڑھنی چاہئیں، ان کی وجہ سے انسان مصائب و بلایا سے محفوظ رہتا ہے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سوتے وقت انہیں پڑھنا چاہیے، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی معمول تھا۔
حاسد کے شر سے پناہ
ابھی اتنا وقت نہیں ہے کہ دونوں سورتوں کی تفصیلی تشریح کی جائے، اسی لیے میں نے سورۂ فلق کی صرف ایک آیت کی تلاوت کی، اور اسی کی تھوڑی سی تشریح کرنا مقصود ہے، ارشاد ربانی ہے:
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ۔
کہ جب کوئی حاسد حسد کرنے پر اتر آئے اور مجھ پر کی گئی نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنے لگے تو میں اس کے شر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
حسد بہت ہی مذموم جذبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا عمل ہے، جس شخص کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ نہ دنیا میں چین و سکون کی زندگی گزار سکتا ہے اور نہ آخرت میں امن کی زندگی کا مستحق ہوسکتا ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتا۔
حسد کی سنگینی
حسد یہ ہے کہ دوسرے کی نعمت دیکھ کر دل میں یہ احساس ہو کہ اس کو یہ نعمت نہیں ملتی، چاہے مجھے وہ نعمت ملے یا نہ ملے،گویا حسد کرنے والا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر اعتراض کررہا ہے، اللہ نے جو اپنی نعمتیں بندوں پر تقسیم فرمائی ہیں کہ فلاں مال کا مستحق ہے؛ اس لیے اس کو مال دے دیا، فلاں علم کا مستحق ہے؛ اس لیے اس کو علم دے دیا، فلاں حسن کا مستحق ہے اس کو حسن دے دیا،اب حسد کرکے اس تقسیم پر وہ اعتراض کررہا ہے۔
حسد ابلیس کے مردود ہونے کی وجہ
سب سے پہلا حسد جو وجود انسانی کے بعد ہوا ہے وہ جنت میں ہوا، قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ ذکر کرکے اس سے عبرت لینے پر ابھارا گیا ہے، ہوا یوں یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنانا چاہا، چنانچہ انہیں پیدا فرماکر سارے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، سجدہ اس معنی کرکے تھا جیسے لوگ خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے سجدہ کرتے ہیں، اس کے سامنے رکوع و سجدہ کرتے ہیں، ایسے ہی حضرت آدم علیہ السلام کو گویا قبلہ کی حیثیت دے دی گئی تھی اور سجدہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کو ہی تھا؛ لیکن ابلیس جو جنات کی برادری سے تھا، اور انسان کی تخلیق سے پہلے یہی مخلوق اس دنیا میں آباد تھی، پھر ان کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے یہ زمین فرشتوں کو بھیج کر خالی کرایا گیا، اور انہیں پہاڑوں،ویرانوں اور غیر آباد جگہوں پر رہنے کا پابند کیا گیا، جنات بھی شریعت کے پابند ہوتے ہیں، وہ بھی خدائی احکام کے مکلف ہیں ، تو ابلیس بڑا عبادت گزار تھا، فرشتوں نے اس کی عبادت دیکھ کر سفارش کی کہ ابلیس کو دیگر جنات کی طرح در بدر نہ کیا جائے؛ بلکہ جنت میں ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے، اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور اجازت دے دی، تو ابلیس فرشتوں کے درمیان ہی ایک لمبے عرصے تک رہا، حتی کہ اس کو معلَّم الملکوت کہا جاتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے علم حاصل کیا ہے، لیکن اس کی ساری روحانی اور اخلاقی برائیاں ختم نہیں ہوئیں، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کا حکم فرمایا تو فرشتے تو سارے سجدہ ریز ہو گئے؛ لیکن ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا، جب اللہ تعالیٰ نے اس سے سبب پوچھا تو اس نے کہا : اے اللہ! آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے جس کی خاصیت اوپر اٹھنا ہوتی ہے، اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا جس کی خاصیت نیچے جانا ہوتی ہے، (ایک طرف ابلیس کا یہ عمل ہے کہ غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی غلطی پر حجت بازی کرنے لگا، اور دوسری طرف حضرت آدم علیہ السلام کا عمل دیکھیے کہ جب اللہ تعالی نے آپ سے کہا تھا کہ جنت کے فلاں درخت سے نہ کھانا، مگر آپ نے بھول سے وہ کھالیا تو فورا اس غلطی پر نادم ہوئے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین) غرض اس طرح اس نے اپنے قلبی حسد کا اظہار کیا ، کہ کیسے آدم کو یہ مقام ملا کہ ان کو زمینی خلافت دی گئی مسجود ملائکہ بنایا گیا، یہ مقام تو مجھے ملنا چاہیے تھا، اس کا مستحق تو میں تھا، اسی حسد کی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہوا۔
حالاں کہ اگر آگ کے اندر ایک خوبی ہے تو خامی بھی ہے کہ وہ ہر چیز کو جلاکر بھسم کردیتی ہے، جب کہ مٹی کا حال یہ ہے کہ اس میں انسان بیج وغیرہ ڈالتا ہے تو وہ پھل کی صورت میں اس کو واپس لوٹاتی ہے جس سے انسان بھی مستفید ہوتا ہے اور جانور بھی فائدہ اٹھاتے ہیں، تو دونوں جانب خوبی بھی ہے خامی بھی، تو پھر کیسے کسی کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ابلیس نے خدائی فرمان آنے کے بعد عقلی گھوڑے دوڑائے، جو کہ بالکل ناجائز ہے، اللہ تعالیٰ کا صریح حکم آنے کے بعد اس کی تابع داری ضروری ہے، نص آنے کے بعدقیاس نہیں کیا جاتا؛ کیوں کہ عقل اس لائق نہیں ہے کہ وہ نصوص کا مقابلہ کرسکے اور خدائی احکام کی مصلحتوں کو سمجھ سکے؛ اس لیے قرآن و حدیث اور حکم الہی کے مقابل عقلی گھوڑے دوڑانا نادانی اور حماقت ہے، جس کا ابلیس نے ارتکاب کیا تھا اور آخر کار حق تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوا۔
حسد کی مذمت
حسد اور ایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے، حسد اور ایمان دو متضاد اور متعارض چیزیں ہیں، یہ محال ہے کہ کسی کامل مؤمن کے دل میں ذرہ برابر کسی دوسرے کی طرف سے حسد پایا جائے، حدیث میں ہے:
لا يجتمعانِ في قلبِ عبدٍ الإيمانُ والحسدُ. (نسائی)
کسی بندہ کے دل میں ایمان اور حسد دونوں ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
ایلوہ بہت ہی کڑوا ہوتا ہے، اس کو شہد میں ڈال دینے سے شہد جیسی میٹھی چیز بھی خوب کڑوی ہوجاتی ہے ایسے ہی اس شخص کا ایمان بھی کڑوا ہوجاتا ہے جو حسد کرتا ہو۔
ایسے سخت گناہ سے کلی طور پر بچنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر رضامند رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے کسی کو نعمت دی ہے تو اسی لیے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ اس کا مستحق اور اہل تھا، اور اگر ہمیں محروم رکھا ہے تو اسی لیے کہ وہ خوبی ہمارے اندر نہیں ہے، ہم ان خوبیوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کریں، اس نعمت کے حصول کی دعا کریں؛ لیکن یہ کسی بھی حال میں درست نہیں ہوسکتا کہ دوسرے کی نعمت کے زائل ہونے اور محروم کردیے جانے کی تمنا کریں، یہ بہت ہی گندا ، پلید اور لائق مذمت جذبہ ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
🎁 سلسلہ وار خطاب جمعہ : خطیب حضرات کے لئے تحفہ
✍ منجانب: مکتب الصفه اچلپور کے مختلف شعبوں میں سے ایک شعبہ (خطیب حضرات کا معاون: خطاب جمعہ ) اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےتشکیل دیا گیا ہے۔ ہر ہفتے سلسلہ وار خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے مذکورہ گروپ سے جڑیں اور علماء کرام و خطیب حضرات کو بھی اس گروپ سے جڑنے کی دعوت دیں ۔
📌 نوٹ : (اس خطاب جمعہ کو زیادہ سے زیادہ ائمہ حضرات تک پہنچانے کی کوشش کریں، یہ نیکی اور خیر کے کاموں میں تعاون ہوگا۔ )