فیمینزم (Feminism) ایک
ایسا لفظ جو کبھی عورت کی نجات، انصاف، اور برابری کی جدوجہد کا نشان تھا، آج سرمایہ دارانہ ذہنیت، میڈیا کی چکاچوند، اور اشتہار بازی کی بھیڑ میں اپنے اصل معنی کھو چکا ہے۔ موجودہ دور کا فیمینزم (Faminism)، بجائے اس کے کہ عورت کو عزت، وقار اور حقیقی تحفظ دے، اُسے محض ایک "برانڈ” اور "ریٹنگ” کا ذریعہ بنا چکا ہے۔
یہ مضمون "فیمینزمفیمینزم، (Faminism) تحفظ نہیں محض اشتہار ہے” نہ صرف ایک فکری جائزہ ہے، بلکہ ایک تنبیہ بھی ہے , کہ عورت کے نام پر جاری یہ دکھاوٹی جنگ درحقیقت اُس کی روحانی و معاشرتی تباہی کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ مصنفہ نے تاریخ، مذہب، مغرب کی روش، اور موجودہ معاشرتی رویوں کا جامع تجزیہ کرتے ہوئے اس سوال کو جنم دیا ہے:
کیا ہمیں فیمینزم کے نام پر عورت کا جسم چاہیے یا اس کا وقار؟
یہ تحریر ان تمام قارئین کے لیے ہے جو عورت کو صرف مظلوم نہیں، ایک مکمل انسان مانتے ہیں , اور چاہتے ہیں کہ وہ اشتہاروں سے نہیں، عزت، علم، اور رشتوں سے پہچانی جائے۔..
فیمینزم:(Feminism) تحفظ نہیں اشتہار ہے
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک عورت کا وجود ایک مسلسل جدوجہد کی علامت رہا ہے۔ کبھی وہ دیوی بنا کر پوجی گئی، کبھی جہالت کے اندھیروں میں زندہ دفن کی گئی، اور کبھی نام نہاد ترقی یافتہ سماج میں آزادی کے نام پر ننگی اشتہاراتی تختی بنا دی گئی۔ وقت بدلا، ادوار بدلے، مگر عورت کے حقیقی وقار اور تحفظ کی تلاش آج بھی جاری ہے۔
جب ہم موجودہ دنیا میں "فیمینزم” یا "نسوانیت” کی تحریک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت تلخ انداز میں سامنے آتی ہے کہ آج کا فیمینزم، تحفظ کی نہیں بلکہ اشتہار بازی کی تحریک بن چکی ہے۔ عورت کے درد، اس کی آزادی، اس کے حقوق کا پرچار کرنے والی یہ تحریک اب بیشتر مقامات پر تجارتی ایجنڈوں، میڈیا کی چکاچوند اور سرمایہ دارانہ مفادات کا ہتھیار بن چکی ہے۔
فیمینزم (Feminism) آغاز: ایک حقیقی ضرورت
یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ فیمینزم کا ابتدائی مقصد اعلیٰ تھا۔ یورپ اور امریکہ میں انیسویں اور بیسویں صدی میں جب عورت کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا، تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا، اور معاشی خودمختاری ایک خواب تھی، تب عورتوں نے مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ تحریک دراصل برابری کی، وقار کی، اور قانونی تحفظ کی تحریک تھی۔
اسی کے زیرِ اثر دنیا بھر میں عورتوں نے اپنے حقوق کی بازیافت کا مطالبہ کیا۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کھلیں، ووٹ کا حق ملا، لیبر قوانین بدلے، اور گھریلو تشدد، جہیز، وراثت، اور ملازمت میں امتیاز جیسے موضوعات پر بیداری پیدا ہوئی۔ یہاں تک تو فیمینزم کا سفر مثبت، بامقصد اور اصلاحی تھا۔
مگر پھر۔۔۔ تحریک کا رخ بدل گیا..
مگر جلد ہی اس تحریک پر مغرب کی مادر پدر آزاد فکر، اشتہاراتی صنعت، اور سرمایہ دارانہ مفادات کا غلبہ ہو گیا۔ فیمینزم اب ایک فیشن بن گیا , ایک ایسا لیبل جو ہر وہ چیز بیچنے لگا جس کا عورت کے اصل تحفظ سے کوئی تعلق نہیں۔
عورت کا جسم "آزادی” کے نام پر بازار کی زینت بنا۔ اشتہارات، فلمیں، فیشن شوز اور سوشل میڈیا , ہر جگہ عورت کو "محض جسم” بنا کر پیش کیا گیا۔ "خودمختاری” کی آڑ میں عورت سے اس کی نسوانیت چھین لی گئی۔ شادی، ماں بننے، خاندان اور رشتے , سب کو "بے کاری” اور "روایتی قید” قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔
اشتہار اور عورت: کیا یہی آزادی ہے؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ آج کے فیمینزم کی زبان پر "آزادی” کا نعرہ تو ہے، مگر اس کے پس منظر میں صرف "فروخت” کا بازار آباد ہے؟ ہر اشتہار، ہر برانڈ عورت کو مرکزِ کشش بنا کر پیش کرتا ہے..چاہے وہ کار ہو یا کافی، کپڑے ہوں یا کاسمیٹکس۔ عورت کو "ریٹنگ” اور "ریونیو” کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا کی نمائش میں عورت کی سب سے بڑی "پہچان” اُس کا لباس، جسمانی نمائش، اور "سیلفی پرسنالٹی” بن گئی ہے۔ گویا اب تحفظ کی جگہ شہرت، عزت کی جگہ "فالوورز”، اور وقار کی جگہ "برانڈ ایمبسڈر” ہونا ہی کامیابی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
اسلامی تہذیب اور عورت کا وقار
اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی عورت کو عزت، وراثت، تعلیم، اور فیصلے کے مکمل حقوق عطا کیے۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی، بیٹی کو رحمت قرار دیا، بیوی کے ساتھ حسن سلوک کو نیکی کہا، اور عورت کی گواہی، مشورہ، علم، قیادت اور کاروبار کو جائز و معزز عمل قرار دیا۔
لیکن جدید فیمینزم اسلام کو ایک دقیانوسی رکاوٹ سمجھ کر مسترد کرتا ہے۔ پردے کو قید، نکاح کو غلامی، ماں بننے کو کمزوری، اور شوہر کے ساتھ محبت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور مغرب میں پروان چڑھنے والے اس ذہن کا نتیجہ ہے جس نے عورت کو مذہب سے دور، معاشرت سے باغی اور خاندان سے بیزار بنا دیا۔
جدید عورت کشمکش میں جکڑی ایک روح
آج کی فیمینسٹ عورت، جو سوشل میڈیا پر نعرے لگاتی ہے، جو اپنی تصویر میں مسکراتی ہے، جو آزادی کے ترانے گاتی ہے ، وہ اندر سے سب سے زیادہ تنہا ہے۔ وہ نہ ماں کی گود میں ہے، نہ شوہر کی رفاقت میں، نہ بہن کی دوستی میں ، وہ اک "برانڈ” بن چکی ہے، جسے ہر لمحہ اپنی موجودگی ثابت کرنی ہے۔
کیا یہی آزادی ہے؟
کیا ماں نہ بننے کا فیصلہ خودمختاری ہے؟
کیا شادی کو بوجھ سمجھنا ترقی ہے؟
کیا جسم کی نمائش وقار ہے؟
کیا شوہر کی محبت قید ہے؟
تحفظ کا مطلب ہے کہ عورت کا احترام کیا جائے، اس کی عزت محفوظ ہو، وہ سڑک، اسکول، دفتر، اور گھر میں خود کو غیر محفوظ محسوس نہ کرے۔ تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو تعلیم، ترقی، ملازمت، صحت، اور معاشرت میں برابر مواقع ملیں۔۔مگر اس کی نسوانیت، اس کے خاندانی رشتے، اس کے روحانی جذبات پامال نہ ہوں۔
مگر آج کا فیمینزم، تحفظ نہیں دیتا۔۔ یہ صرف ایک اشتہار ہے، جو عورت کو "پروڈکٹ” بناتا ہے، "ریٹنگ” کے گراف پر رکھتا ہے، اور پھر تنہائی، اضطراب، اور محرومی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔۔
عورت کی اصل پہچان اُس کے وقار میں ہے ، اور وہ وقار توازن سے آتا ہے۔ فیمینزم اگر عورت کے حقوق کے ساتھ اُس کی فطرت، اُس کی روحانی شناخت، اور اُس کی معاشرتی ساخت کا بھی خیال رکھے، تو یہ واقعی ایک اصلاحی تحریک بن سکتی ہے۔
خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزہراؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ، اور دیگر عظیم خواتینِ اسلام کی مثالیں بتاتی ہیں کہ نسوانیت کا مطلب فقط گھر بیٹھنا یا باہر نکلنا نہیں ، بلکہ یہ اپنی پہچان، کردار، علم، اور روحانی قدروں میں توازن پیدا کرنا ہے۔
ہم ایک ایسی عورت چاہتے ہیں جو باوقار ہو، تعلیم یافتہ ہو، مضبوط ہو، مگر اپنے رب، اپنی فطرت، اور اپنے خاندان سے جڑی ہو۔ ہم ایسا فیمینزم چاہتے ہیں جو عورت کو تجارتی مہرہ نہ بنائے، بلکہ انسانیت کا معزز چہرہ بنائے۔
فیمینزم کو اگر ہم صرف اشتہار بنا دیں گے، تو عورت کا اصل تحفظ کبھی ممکن نہ ہوگا۔ وہ جسمانی آزادی پا کر بھی روحانی قید میں رہے گی۔
اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے،
ہم عورت کو "برانڈ” بنانا چاہتے ہیں یا "باعزت انسان”؟
ہمیں اشتہار چاہیے یا تحفظ؟
اور اگر تحفظ چاہیے ،
تو ہمیں فیمینزم کو ازسرنو سوچنا ہوگا،
روحانی، اخلاقی اور معاشرتی توازن کے ساتھ۔
۔۔ڈاکٹرقمـرسُـرور_ ۔۔احمدنگر
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ : دینی تعلیمی ادارہ
مقصد : نئی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ