مرد و عورت میں فرق مراتب !

حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

دین و دنیا کے تمام امور و معاملات خوش اسلوبی اور حسن و خوبی کے ساتھ انجام دینے کے لیے اسلام نے مرد و عورت دونوں کو بڑی اہمیت دی ہے، اور دونوں کی ذمہ داریوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کردیا ہے ۔ بقول حضرت امجد حیدرآبادی مرحوم /ع

مرد بے زوج در لعل و لیت اند
درخانئہ تنہا بلحد چوں میت اند
تدبیر پذیر دززن و شو منزل
گوئی ہر دو دو مصرعئہ یک بیت اند
البتہ اسلام نے مرد و عورت کے اختیارات و حقوق اور ذمہ داریوں کو صاف صاف بیان کردیا ہے ، بعض لیبرل اور تجدد پسند حضرات کا یہ کہنا ہے کہ سرے سے مرد و عورت میں کسی قسم کا فرق نہیں رکھا گیا ہے، اور ہر جگہ دونوں کے حقوق و فرائض یکساں اور مساوی ہیں، ذمہ داریاں اور عملی میدان میں عہدے و مناصب میں بھی کوئی تفاوت نہیں، یہ نظریہ اور خیال درست نہیں ہے ۔
آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں آج کی مجلس میں اس پہلو پر غور کریں کہ مرد و عورت کے مراتب میں کیا فرق ہے اور اس فرق مراتب کی حیثیت کیا ہے اور کس درجہ کی ہے اور یہ فرق مراتب کیوں ضروری ہے ؟
اسلام مرد و عورت کے مراتب میں فرق کو تفوق، تکبر یا فضیلتِ ذاتی کے طور پر پیش نہیں کرتا، بلکہ یہ ذمہ داری (responsibility)، فطرت (nature) اور معاشرتی توازن کے تناظر میں ہے۔
ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس فرق کو واضح کیا جا رہا ہے۔
قرآن مجید کی روشنی میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں اور مراتب:

  1. روحانی اور انسانی برابری
    اسلام میں مرد و عورت دونوں روحانی اعتبار سے برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے، نہ کہ جنس۔
    ،،ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم،،
    ’’بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
    📖 (سورہ الحجرات 49:13)
    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مرد یا عورت ہونا کوئی فضیلت کا معیار نہیں، بلکہ تقویٰ ہی اصل فضیلت ہے۔
  2. مرد کو قوام مقرر کرنا:
    ،،الرجال قوامون علی النساء ،،
    ’’مرد عورتوں کے نگہبان و ذمہ دار ہیں…‘‘
    📖 (سورہ النساء 4:34)

یہ آیت مرد کو سربراہی (قوامیت) عطا کرتی ہے، مگر اس کا مطلب ظلم، جبر یا فوقیت نہیں ہے۔
بلکہ اس کی بنیاد ہے ،
اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی (یعنی مختلف صلاحیتیں دی)

مرد نفقہ دیتے ہیں (یعنی مالی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں)

قوامیت کا مطلب ہے۔
ذمہ داری اٹھانا،تحفظ دینا،رہنمائی کرنا،اور انصاف کے ساتھ سربراہی کرنا۔

  1. معاشرتی تقسیمِ کار:

اسلام نے مرد و عورت کے کاموں میں فطری فرق رکھا ہے، مگر ان کا مقام برابر ہے۔
مثلاً:
مرد کی بنیادی ذمہ داری عورت کی بنیادی ذمہ داری

معاشی کفالت گھریلو نظم و نسق، اولاد کی تربیت
خاندان کی قیادت محبت، سکون اور رحمت کا ماحول دینا۔
دفاع اور قیامِ عدل بچوں کی تربیت اور نسلِ انسانی کی پرورش وغیرہ

احادیثِ نبویہ کی روشنی میں:

  1. مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم:

،،انما النساء شقائق الرجال،،
’’عورتیں مردوں کی شریک و ہم مثل ہیں۔‘‘
(سنن ابی داؤد)
یعنی عورت مرد کی ضد یا ماتحت نہیں، بلکہ اس کی ہم پلہ اور شریکِ زندگی ہے۔

  1. ذمہ داری کے لحاظ سے فرق:
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ،،کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ ،،
    ’’تم میں ہر شخص نگران ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
    (بخاری و مسلم)

مرد: اپنے گھر کا نگہبان
عورت: شوہر کے گھر اور بچوں کی نگران۔
یہ تقسیم اختیار کے ساتھ جوابدہی کی طرف بھی اشارہ ہے۔
مرتبہ کے اعتبار سے مرد کو قوامیت دی گئی ، ذمہ داری کے ساتھ
برابری تقویٰ، عبادات، جزا و سزا میں مکمل مساوات
فضیلت کسی جنس کو دوسری پر ذاتی فضیلت نہیں ، اصل فضیلت کردار سے ہے۔
مقصد فرق تفریق کے لیے نہیں، تکمیلِ انسانیت کے لیے ہے۔
نظامِ زندگی عدل، توازن اور فطرت کے مطابق ہر ایک کا کردار متعین ہے۔
اسلام مرد و عورت کو مکمل انسان اور معاشرتی ستون مانتا ہے، مگر ان کی ذمہ داریوں کی نوعیت مختلف ہے ، یہ فرق تکبر، برتری یا محرومی کی علامت نہیں۔
مراتب کا فرق ذمہ داری کا فرق ہے، نہ کہ فضیلت کا ۔
بلکہ نظامِ عدل کا حصہ ہے۔
ذیل میں ہم قرآن پاک کی ان آیات کو پیشِ کر رہے ہیں، جن پر غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ مرد و عورت کے مراتب میں کیا فرق ہے؟
حسب ذیل آیات قرانی باہمی فرق کو واضح کر رہی ہے۔
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ
(سورہ البقرة 2:228)
اور مردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
(سورہ النساء 4:34)
مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ
(سورہ النساء 4:34)
اور اس سبب سے کہ انہوں نے اپنے مالوں میں سے خرچ کیا۔
فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
(سورہ النساء 4:24)
پھر انہیں ان کے مہر بطور فریضہ ادا کرو۔
كانتا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ
(سورہ التحريم 66:10)
وہ دونوں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں۔
الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ
(سورہ البقرة 2:237)
وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ (اختیار) ہے۔
وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(سورہ البقرة 2:227)
اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کریں تو بیشک اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔
حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
(سورہ البقرة 2:230)
یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔
فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ
(سورہ النساء 4:25)
پس ان عورتوں سے ان کے اہل کی اجازت سے نکاح کرو۔
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ
(سورہ البقرة 2:223)
تمہاری عورتیں تمہارے لیے کھیت ہیں۔
وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنّ
(سورہ النساء 4:34)
اور انہیں بستروں میں الگ کر دو اور (بطور تادیب) مارو۔
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
(سورہ النساء 4:3)
پس نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں عورتوں میں سے دو دو، تین تین، اور چار چار۔
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ
(سورہ الأحزاب 33:32)
اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ
(سورہ النساء 4:24)
اور شوہر والی عورتیں (تم پر) حرام ہیں۔
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
(سورہ البقرة 2:228)
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
(سورہ البقرة 2:234)
اور جو لوگ تم میں سے وفات پائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ چار مہینے اور دس دن انتظار کریں۔
لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ
(سورہ النساء 4:11)
لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ
(سورہ الأحزاب 33:33)
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔
أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ
(سورہ الزخرف 43:18)
کیا وہ جو زیور میں پرورش پاتی ہے اور جھگڑے میں اپنا مدعا واضح نہیں کر سکتی۔
فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ
(سورہ البقرة 2:222)
پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو۔وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ
(سورہ آل عمران 3:36)
اور مرد عورت کی مانند نہیں۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ
(سورہ يوسف 12:109)
اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن پر ہم وحی کرتے تھے۔بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ
(سورہ النساء 4:34)
بسبب اس کے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔
ایک سرسری تلاش و جستجو میں یہ چند آیتیں سامنے آگئیں ،اگر غور و خوض کیا جائے تو اور آیتیں بھی اس مضمون کی مل سکتی ہیں ۔
اوپر کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مرد کا ایک خاص مقام اور خاص درجہ ہے، جو حق تعالیٰ نے قدرتی طور پر عطا کیا ہے ،اس درجہ کی برتری کو گھٹانا،یا اس کو ہٹا دینا ممکن نہیں ۔
البتہ اس قدرتی فرق کو مٹانے کی سعی و کوشش
،، فساد ،، پھیلا سکتی ہے ۔
حق تعالیٰ نے عورتوں کو فضائل علمی و عملی کے اکتساب سے روکا نہیں ، لیکن تحصیل علم و کمال کے بعد انہیں باہر کی زندگی میں بھی بے حجاب ہوکر حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اس کی وجہ انسانی زندگی کی تقسیم فطری طور پر دو حصوں میں ہے، ایک باہر کی زندگی جس کی ذمہ داری مرد پر ہے ،ایک اندر کی ذمہ داری جس کا تعلق عورتوں سے ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ ان ذمہ داریوں کو ہر طبقہ خود ہی بہتر طور سے انجام دے سکتا ہے ،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ان دونوں نے ایک دوسرے کے فرائض میں دخل اندازی کی تو پورے نظام زندگی میں اختلال پیدا ہوسکتا ہے جیسا کہ آج ہو رہا ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔