حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
تمہید
ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ میں بہار کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ یہ خطہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ تہذیبی، تاریخی، تمدنی، تعلیمی، اور سیاسی حوالے سے بھی خاصا زرخیز رہا ہے۔ جمہوریت، مساوات، اور سیکولرزم کے جذبے کو ترقی دینے اور پروان چڑھانے میں بہار کے عوام کا کلیدی رول اور کردار رہا ہے۔ یہاں کی سیاست نے ہمیشہ قومی اور ملکی سطح پر اثرات مرتب کیے ہیں اور وقتاً فوقتاً ایسی قیادت پیدا کی ہے، جو ملک گیر سطح پر تبدیلی کی علامت بنی، جئے پرکاش نارائن اس کی ایک واضح مثال ہیں۔
ماضی کا منظرنامہ
بہار کی سیاست آزادی کے بعد کانگریس کے غلبے اور اقتدار سے شروع ہوئی، جب ملک بھر میں یہ پارٹی قومی اتحاد، ترقی اور سیکولر اقدار کی نمائندہ سمجھی جاتی تھی۔ 1970ء کی دہائی میں جے پرکاش نارائن کی قیادت میں بہار سے ہی "سماجی انصاف” کی تحریک نے جنم لیا، جس نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف ملک گیر تحریک کو جنم دیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی اور بہار سے وابستہ کئی قائدین قومی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آئے، مثلاً لالو پرساد یادو، نتیش کمار، رام ولاس پاسوان وغیرہ۔ لیکن یہ اتحاد زیادہ مضبوط نہیں رہ سکا اور جلد ہی اس کا شیرازہ بکھر گیا اور طاش کے پتے کی طرح یہ جنتا پارٹی بکھر گئی اور پھر جلد ہی کانگریس اقتدار میں آگئی، کانگریس کا یہ زوال وقتی ثابت ہوا ، اس لیے کہ اس وقت کانگریس میں اعلیٰ ذہانت کے لوگ تھے ،خصوصا کانگریس کا برہمن لابی ، جو اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینا خوب جانتا تھا ۔
یہی وہ دور تھا، جب ذات پات کی بنیاد پر سیاست نے زور پکڑا اور "پسماندہ طبقات” کی نمائندگی کرنے والی علاقائی پارٹیاں ابھریں۔ لالو پرساد یادو نے "سوشلسٹ” سیاست کے نام پر ایک نیا بیانیہ دیا، جس میں انہوں نے غریبوں، دلتوں، اور اقلیتوں کے مسائل کو اجاگر کیا۔ الگ الگ صوبے میں چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں بنیں اور بعض نے مضبوطی سے سالوں سال حکومت کی۔
حالیہ منظرنامہ
گزشتہ دو دہائیوں میں بہار کی سیاست بہت سے نشیب و فراز اور کئی موڑوں سے گزری ہے۔ نتیش کمار کی قیادت میں "گڈ گورننس” کا نعرہ بلند ہوا۔ انہوں نے بجلی، سڑک، تعلیم، اور صحت جیسے شعبوں میں کچھ حد تک بہتری لانے کی کوشش کی۔ لیکن سیاسی اتحاد و انحراف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان تعلقات کبھی مضبوط ہوئے تو کبھی ٹوٹ گئے۔
2024ء کے عام انتخابات کے بعد کی صورتِ حال میں یہ بات واضح ہو گئی کہ بہار کا ووٹر اب زیادہ باشعور ہو چکا ہے۔ ذات پات سے بالاتر ہو کر ترقی، روزگار، تعلیم، اور سیکورٹی جیسے مسائل پر بات ہونے لگی ہے۔ "انڈیا” اتحاد بمقابلہ این ڈی اے کے سیاسی بیانیے میں عوام کی توجہ ایک بار پھر سیکولرزم، جمہوریت، اور آئینی حقوق کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔
سیکولرزم پر عوام کا اعتماد
بہار کی ایک اہم خوبی اس کے عوام کا سیکولر مزاج ہے۔ یہاں مختلف مذہبی و سماجی طبقات صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، یہ گنگا جمنی تہذیب کا رول ماڈل ہے،۔ چاہے فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا مذہبی منافرت کی سیاست، بہار کے عوام نے ہمیشہ اعتدال پسندی اور آپسی بھائی چارے کو ترجیح دی ہے۔
یہاں کے تعلیمی ادارے، ادب و ثقافت، کلچر، اور سیاسی تحریکات ہمیشہ ایک تکثیری سماج کی عکاسی کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب ملک بھر میں سیکولرزم کے اصولوں پر سوال اٹھ رہے ہیں، بہار کے عوام نے ان اصولوں پر اپنا بھروسہ برقرار رکھا ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹرز کے ساتھ ساتھ دلت، او بی سی، اور کچھ حد تک اعلیٰ ذاتوں نے بھی مذہبی منافرت کے خلاف اپنا مؤقف ظاہر کیا۔
مستقبل کی جھلک
بہار کا سیاسی مستقبل اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ نوجوان نسل اب تعلیم یافتہ ہو رہی ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی شعور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ نوجوان صرف ذات، مذہب یا علاقائیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دینا چاہتے، بلکہ ان کے لیے روزگار، تعلیم، صحت اور انسانی وقار اہم ہو چکا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اب اس بدلتے مزاج کا ادراک کرنا ہوگا۔ اگر وہ عوام کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے صرف جذباتی نعروں پر سیاست کریں گی، تو ان کا سیاسی زوال یقینی ہے۔
بہار کی سیاست ماضی میں جہاں ذات پات اور جذبات پر مبنی تھی، اب شعور، آگہی، اور آئینی اقدار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ موجودہ انتخابی رجحانات اور عوامی ردعمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہار کے لوگ نہ صرف سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اپنے حقِ رائے دہی کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔
اگر یہی رجحان برقرار رہا تو مستقبل میں بہار ایک بار پھر ملک کی رہنمائی کرنے والا صوبہ بن سکتا ہے، جہاں سیاست کا مقصد صرف اقتدار نہیں بلکہ عوام کی خدمت، انصاف، اور مساوات ہوگا۔
نتیش کمار کی مجبوری یا سیمابی پن
نتیش کمار کی مجبوری سمجھئے یا اس کی تلون مزاجی اور اقتدار کا چسکا کہ وہ ایک اسٹینڈ پر کبھی نہیں رہتے، اس کے یہاں سیاست میں یہ سب کچھ چلتا ہے ، ان کے نزدیک سیاسی وفاداری اور سماجی وفاداری دونوں الگ الگ ہیں ، سیاست میں ہوا کا رکھ اور اقتدار پر مضبوطی کیسے ہو ،ان کے نزدیک اصل یہ ہے ،وہ اس فکر کے ہیں کہ
چلو تم ادھر کو ہوا ہو، جدھر کی
، ان کے نزدیک سیاست شہ مات کا کھیل ہے ،یہاں وعدہ وفا کرنا کوئی ضروری نہیں ہے ، وہ ایک مجھے ہوئے سیاست داں ہیں ، چونکہ وہ جے پرکاش نارائن کے چیلا ہیں اور تربیت یافتہ ہیں ، اس لیے جمہوریت ،سیکولزم اور ہندو مسلم اتحاد پر اس کا آج بھی یقین اور بھروسہ ہے ، زعفرانی پارٹی کے ساتھ برسوں رہنے کے بعد بھی وہ زعفرانی رنگ میں کبھی نہیں رنگے ، بلکہ بہار کی پرم پرا ،ایکتا ، محبت اور اکھنڈتا کو باقی رکھنے کی کوشش کی، جو یہاں کی خمیر میں شامل ہے ۔
لیکن اس کی وجہ سے بعض جگہ اقلیتوں کا بالخصوص مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا اور اس کی حمایت کی وجہ سے ہی بہت سے مسلم مخالف بل پاس ہوگئے ۔
جہاں تک راشٹریہ جنتا دل کی بات ہے، اس کے سیکولر ہونے اور سب کے ساتھ اور سب کا عکاس میں کوئی شک نہیں ، لیکن بعض جگہ اس کی منفی سیاست سے خود اس پارٹی کو نقصان ہوتا ہے اور مسلمان اور سیکولر ووٹر اس سے کٹ جاتے ہیں ۔
کانگریس ابھی بھی پرانی حالت میں ہے ، بھاگلپور فساد نے اس پارٹی کو وہ جھٹکا دیا ہے اور وہ سبق سکھایا ہے کہ اس سے وہ آج تک نکل نہیں پائی ہے، اور اس کی وجہ پارٹی کی نفاق بھری پالیسی تھی اور ہے، اگر چہ اب ماضی کی تلافی کرنے کی کوشش میں ہے،اور سیکولر محاذ کا یہ سب سے مضبوط حصہ اور انگ ہے ۔
جہاں تک ایم آئی ایم کی بات ہے میرا نظریہ صاف ہے کہ بہار کے سیاسی میدان میں ان کو کودنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، ان کو اپنے صوبے میں پہلے مضبوط ہونا چاہیے، تب کہیں پیر پھیلاتے۔
۔بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہار
ایک طرف یہ گوتم بدھ ، مہاویر اور آخری سکھ دھرم گرو صاحب جی کی دھرتی ہے، تو دوسری طرف بڑے بڑے اولیاء اللہ اور مصلحین کی یہ زمین ہے، کاکی، فردوسی، اور مخدوم بہاری کی یہ زمین ہے، جنہوں نے امن و شانتی اور محبت کے پیغام کو عام کیا ۔
بہار والے سیکولر ازم کو پھر زندہ کریں گے
مجھے یقین ہے کہ اس بار خاص طور پر بہار کی جنتا اور وہاں کے باشعور رائے دہندگان سیکولزم اور جمہوریت کو مضبوط اور زندہ کرکے اور فاسشٹ طاقت کو شکست دے کر اپنی ایک تاریخ رقم کریں گے اور اپنے ووٹوں کو بکھرنے نہیں دیں گے ۔