ووٹ کی دینی و شرعی حیثیت !

حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

انسانی معاشرہ نظم و نسق اور قیادت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ جس طرح فرد کی اصلاح کے بغیر ایک صالح معاشرہ وجود میں نہیں آتا، اسی طرح عدل، امن اور استحکام اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک امارت، قیادت دیانت دار اور امانت دار ہاتھوں میں نہ ہو۔ اسلام نے جہاں عبادات، معاشیات و اقتصادیات تجارت ،اخلاقیات اور معاشرت کے اصول متعین کیے ہیں، وہیں نظامِ حکومت اور قیادت کے باب میں بھی واضح ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو حکم دیا کہ وہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کریں اور اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے طے کریں۔ چنانچہ اسلام میں قیادت کا تصور محض اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور شرعی ذمہ داری ہے۔
جدید دور میں جمہوری نظام کے تحت عوام کے ہاتھ میں قیادت کے انتخاب کا بنیادی ذریعہ الیکشن اور ووٹ ہے۔ ووٹ دراصل ایک فیصلہ کن شہادت اور امانت ہے جس کے ذریعے ایک شہری اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت قوم و ملت کی قیادت کے اہل ہے۔ چنانچہ ووٹ کا درست استعمال محض سیاسی سرگرمی نہیں، بلکہ شرعی لحاظ سے ایک فرض اور امانت کا حق ادا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس ووٹ میں غفلت یا نااہل افراد کو ترجیح دینا دراصل امانت میں خیانت اور عدل کے نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، جس کی اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہے۔
آج کے جمہوری ممالک میں جہاں حکومت سازی کا پورا دار و مدار عوامی ووٹ پر قائم ہے، وہاں اس عمل کی دینی و اخلاقی حیثیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمان ووٹ کی اہمیت کو محض سیاسی ذمہ داری کے بجائے شرعی فریضہ سمجھیں اور اپنے فیصلے قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں کریں۔
زیرِ نظر مضمون اسی مقصد کے تحت تحریر کیا گیا ہے، جس میں الیکشن اور ووٹ کی شرعی حیثیت کو قرآن، حدیث، فقہ، عقل اور موجودہ جمہوری تقاضوں کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ امتِ مسلمہ کو یہ شعور حاصل ہو کہ ووٹ محض ایک کاغذی حق نہیں، بلکہ ایک دینی امانت ہے، جس کے صحیح یا غلط استعمال پر آخرت میں بازپُرس ہوگی۔
دوستو!
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عصر حاضر کی گندی اور بے لگام سیاست میں الیکشن اور ووٹ کے لفظ کو اتنا بد نام اور داغدار کردیا ہے کہ انتخاب اور الیکشن کے ساتھ مکر و فریب ، رشوت ، جھوٹ ، اوردغا بازی کا تصور لازم سا ہو گیا ہے، اس لیے زیادہ تر شریف اور سادہ لوح لوگ اس جنجال میں پڑنا مناسب نہیں سمجھتے۔اور یہ غلط فہمی بھی عام ہو گئی ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں ،ایسے حضرات کا منشا تو برا نہیں لیکن نتائج بہت برے ہیں یہ سوچ کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام ہے اس لئے نہ الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ اور حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے – یہ نظریہ دین و شریعت کے خلاف اور ملک و ملت کے لیے بھی سخت نقصان دہ اور مضر ہے۔ فقیہ عصر مولانا تقی عثمانی صاحب نے بہت نکتے اور پتے کی بات تحریر کی ہے۔
ماضی میں ہماری سیاست بلاشبہ مفاد پرست (پاکستان کے حالات کے تناظر میں مولانا نے یہ بات اصلا لکھی ہے ) لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے ، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا جاۓ گا۔ اور پھر ایک نا ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی عقلمندی اور شرافت کا تقاضہ یہ نہیں کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے کہا جاتا رہے بلکہ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں ہیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا الناس إذا راوا الظالم فلم يأخذوا على يديه أوشك أن يعمهم الله بعقاب (جمع الفوائد صفحہ 51 جلد دوم) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالی ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں
اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے ، اور انتخابات میں سرگرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں ۔ (فقہی مقالات جلد دوم صفحہ 28- 86)
اوپر کی تفصیلات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ جمہوری ملکوں میں مسلمانوں کے ووٹ کی کتنی اہمیت ہے اور مسلمان کس طرح ظالم حکومت کو آنے سے روک سکتے ہیں اور ان کی حکومت کو ختم کرسکتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت، شہادت اور گواہی کی سی ہے ، اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور ناجائز ہے اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے قرآن مجید کا ارشاد ہے "ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه” اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے اس کا دل گناہ گار رہے گا” ۔ اور جمع الفوائد اور طبرانی کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من كتم شهادة إذا دعي إليها كان كن شهد بالزهور (جمع الفوائد بحوالہ طبرانی صفحہ 62 جلد 1) جس کسی کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا”
اسلام میں سچی گواہی کا مقام ہے کہ مذہب اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کرےاور کسی دعوت اور ترغیب و تشویق کا انتظار بھی نہ کرے چنانچہ حدیث شریف میں آتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے ، وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ادا کردے۔ (جمع الفوائد)
ووٹ بھی بلاشبہ ایک شہادت ہے اس لئے قرآن وحدیث کے مذکورہ احکام اس پر بھی جاری ہوں گے لہذا ووٹ نہ دینا اور اس حق کو محفوظ رکھنا یہ دینداری کا تقاضہ نہیں بلکہ اس کا صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتے ہیں اس کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے "ومن يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها ” یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس نے اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور وہ سفارش کرتا ہے تو اسی برائی میں بھی اس کا حصہ لگتا ہے۔
اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت داری امن پسند آدمی کی سفارش کرے، جو خلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کریں اور پوری امانت اور دیانت کے ساتھ قوم و ملت اور سماج و معاشرہ کی فلاح و بہبود میں لگا رہے، اور بری و ناجائز سفارش یہ ہے کہ نا اہل نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنی پنج سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس مید وار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسی کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس لیے اگر کسی نا اہل کواپنی نمائیندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر رہا ؟
نیز اگر مسلم ملک ہے تو وہاں ووٹ کی حیثیت ان سب کے علاوہ سیاسی بیعت ؟؟؟؟؟؟؟؟ کی ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے متعلقہ امیدوار کو وکیل بناتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے سربراہ مملکت کا انتخاب کرے خدا کرے جلد ہی ہمارے ملک میں وہ خوش قسمت ساعت آئے ۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز
اس وقت کا یہ انتخاب جس میں دو مرحلوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب ووٹ کی حیثیت کو سمجھیں ،اس طاقت کو ضائع اور برباد نہ کریں ،چند روپیوں اور پیسوں کے عوض میں اس کو فروخت نہ کریں ۔ سوچ سمجھ کر حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔جذبات اور جوش میں آکر کوئی فیصلہ نہ کریں ، اپنی طاقت کو منتشر نہ ہونے دیں ۔ موجودہ حکومت نے کس کس طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے یہ آپ سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔
آپ بھی متحد ہوں اور سیکولر ووٹرروں کو بھی متحد کریں ، اس الیکشن کو ٹرنگ پوائنٹ بنا دیں اور یہ ثابت کردیں کہ یہ ملک جمہوری اقدار و روایات کا پابند ہے، یہاں ظلم نفرت ہنسا اور تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہے یہ ملک اور دیش گنگا جمنی تہذیب اور امن و امان و شانتی والا دیش ہے ، یہاں کی دھرتی میں پریم بھائی چارہ اور محبت ہے ۔ نفرت کی بیج یہاں نہیں اگ سکتی۔ انسانیت اور مانوتا یہاں کی خمیر میں شامل ہے ۔
آپ سب سے دست بستہ درخواست کرتا ہے کہ خدا را آپ سب متحد ہوجائیں ،نوشتئہ دیوار پڑھیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر کریں ۔

ووٹ اور الیکشن شریعت کی نظر میں !

گزشتہ کل ایک صاحب نے راقم الحروف سے مطالبہ کیا کہ الیکشن اور ووٹ سے متعلق کوئی مضمون آسان اور سہل انداز میں لکھ کر بھیج دیں ،تاکہ اس کی روشنی میں جمعہ میں خطاب کرسکوں ، ان کی ہی فرمائش پر یہ مضمون ان اور آپ سب کی خدمت میں بھیج رہا ہوں ، تاکہ اس کی روشنی میں جہاں الیکشن ہے ،وہاں کے خطباء و ائمہ حضرات اس موضوع پر گفتگو کریں ۔ ظاہر سی بات ہے یہ ملک اسلامی ملک نہیں ہے ، اس لیے پورے مضمون کا انطباق تو نہیں ہوسکتا ، لیکن اس مضمون سے یہ صاف ظاہر ہو جائے گا کہ اسلام کا اس سلسلہ میں اصل تعلیم اور رہنمائی کیا ہے اور اس میں کتنی جامعیت اور گہرائی و گیرائی ہے۔ (ادارتی نوٹ)
م ق ن

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی ہے، جو زندگی کے ہر گوشے اور شعبے میں راہِ ہدایت فراہم کرتا ہے۔ سیاست، حکومت اور اجتماعی نظم و نسق بھی اسی دائرے میں آتے ہیں۔ اسلام میں اجتماعی امور کا فیصلہ شورائی نظام کے تحت ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ وامرھم شوریٰ بینھم،،(الشوریٰ 38)
"اور ان کے کام باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔
جدید دور میں جمہوری نظامِ حکومت میں "ووٹ” اسی مشورے یا شورٰی کی جدید صورت اور شکل ہے۔ ووٹ دراصل ایک شہادت (گواہی)، امانت اور ذمہ داری ہے، جس کے ذریعے ایک مسلمان یہ طے کرتا ہے کہ ملک کی باگ ڈور کس کے سپرد کی جائے۔

ووٹ کی شرعی حیثیت بطور امانت

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا،، (النساء 58)
"بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔”
ووٹ دراصل ایک امانت ہے، جو ہر شہری کو عطا کی گئی ہے۔ جب ہم کسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں تو دراصل ہم ایک امانت کسی کے سپرد کرتے ہیں کہ وہ ہماری نمائندگی دیانت داری سے کرے۔
اگر ہم کسی غیر اہل، بد دیانت یا فاسق شخص کو ووٹ دیں، تو ہم اس امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں، جو قرآن کی نظر میں سخت گناہ ہے۔

ووٹ بطور شہادت

ووٹ ایک گواہی بھی ہے۔ آپ جس امیدوار یا جماعت کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، آپ یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص یا جماعت ملک و ملت کے لیے بہتر ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا:
ولا تکتموا الشھادة، ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ،،
"اور گواہی کو مت چھپاؤ، اور جو اسے چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینا شہادتِ حق ہے، اور اسے ترک کرنا یا غلط استعمال کرنا گناہِ کبیرہ کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

ووٹ بطور شوریٰ میں شرکت

اسلامی نظام میں مشورے کی بڑی اہمیت ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: المستشار موتمن،،
(ترمذی)
"جس سے مشورہ لیا جائے، وہ امانت دار ہوتا ہے۔”
جمہوری نظام میں ووٹ دینا گویا شوریٰ میں اپنی رائے دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی رائے دیانت داری سے دے، کسی لالچ، قومیت، عصبیت یا ذاتی مفاد کے تحت نہیں۔

اہلِ ووٹ دہی کی شرعی ذمہ داری

اسلامی نقطۂ نظر سے ووٹ دینے والا ہر شخص درج ذیل امور کا ذمہ دار ہے:

  1. امانت داری: ووٹ صرف اسی کو دیا جائے جو امانت دار، دیانت دار اور اہل ہو۔
  2. اہلیت کی تحقیق: جسے ووٹ دیا جا رہا ہے اس کے کردار، صلاحیت، دیانت اور نظریاتی وابستگی کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
  3. نیت کی درستگی: ووٹ ذاتی مفاد یا رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ دینی و قومی مفاد کی بنیاد پر دیا جائے۔
  4. خاموشی یا عدم شرکت: اگر اہل شخص کو ووٹ نہ دیا جائے تو یہ نیکی کے موقع کو ضائع کرنا ہے، جو ترکِ خیر کے زمرے میں آتا ہے۔

نااہل کو ووٹ دینا: ایک دینی جرم

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعة،، ،، بخاری ،،
"جب معاملات نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔”
لہٰذا اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے کسی بددیانت، ظالم یا غیر اہل شخص کو ووٹ دیتا ہے، تو وہ اس ظلم میں شریک سمجھا جائے گا۔ فقہاء کے نزدیک یہ اعانت علی الظلم یعنی ظلم میں تعاون ہے، جو حرام ہے۔

ووٹ اور اجتماعی اصلاح

اسلام میں حکومت کا مقصد عوام کی فلاح اور عدل کا قیام ہے۔ ووٹ اس مقصد کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
قرآن میں عدل کے قیام کا حکم یوں دیا گیا ہے:
یاایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء لللہ ،، النساء ، 135)
"اے ایمان والو! عدل پر قائم رہو، اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو۔”

اس آیت کی روشنی میں ووٹ دینا دراصل عدل و قسط کے قیام کی ایک اجتماعی جدوجہد ہے۔

جمہوری ملک میں ووٹ کی اہمیت

جمہوری ممالک میں عوام کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔

حکومتیں ووٹ سے بنتی اور بدلتی ہیں۔

قوانین و پالیسیاں عوامی نمائندے بناتے ہیں۔

بدعنوان یا دین دشمن عناصر اگر منتخب ہو جائیں تو یہ امت کی کمزوری کا مظہر ہوتا ہے۔
لہٰذا ایک جمہوری ملک میں ووٹ دینا صرف اختیار نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بھی ہے۔
یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جدید ذریعہ ہے , یعنی نیک لوگوں کو آگے لانا اور بد عنوان لوگوں کو روکنا۔

ووٹ نہ دینا یا بے پرواہی برتنا

اگر کوئی شخص ووٹ دینے سے غفلت برتتا ہے تو وہ دراصل اچھے افراد کو قیادت سے محروم کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
من رآی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ ،فان لم یستطع فبقلبہ ،، مسلم ،،
"جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو دل سے برا جانے۔”
جمہوری نظام میں ووٹ دینا برائی کے خلاف زبان یا ہاتھ سے روکنے کی مؤثر شکل ہے۔

عقل و نقل کی روشنی میں نتیجہ

عقلی طور پر: ووٹ ایک اجتماعی ذمے داری ہے، کیونکہ اجتماعی فلاح اس سے وابستہ ہے۔
نقلی طور پر: قرآن و حدیث نے اہلِ امانت کو ترجیح دینے اور ظلم سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
فقہی طور پر: ووٹ دینا فرضِ کفایہ یا بعض حالات میں فرضِ عین بن سکتا ہے، جب بدی کے غلبے کا خطرہ ہو۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ووٹ ایک شرعی امانت، اخلاقی ذمہ داری، دینی فریضہ اور اجتماعی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
ایک جمہوری ملک میں اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں قیادت کا تعین براہِ راست عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ووٹ کو اور ایک دینی عمل سمجھ کر انجام دے ۔
دیانت، اہلیت اور تقویٰ کو معیار بنائے،
اور اپنی اس امانت کو خدا کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ استعمال کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ووٹ محض ایک سیاسی حق نہیں بلکہ شریعت کی رو سے یہ ایک دینی و اخلاقی امانت بھی ہے۔ جس طرح گواہی دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے، اسی طرح ووٹ دینا بھی دراصل گواہی ہی کی ایک صورت ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ اور مخلوق دونوں کے سامنے جواب دہ بناتی ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: “وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ” اور “وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ” — یعنی گواہی کو چھپانا یا غلط دینا گناہ ہے۔ لہٰذا ووٹ امانت کے طور پر ایسے شخص یا جماعت کے حق میں استعمال کیا جانا چاہیے جو دیانت، صلاحیت، عدل اور عوامی خدمت کے اوصاف رکھتا ہو۔ اس معاملے میں مفادِ عامہ، امت کی بہتری، اور شریعت کے تقاضوں کو ذاتی یا جماعتی مفادات پر ترجیح دینا ہی دینداری کا مظہر ہے۔ پس یہ کہنا بجا ہے کہ ووٹ دینا ایک شرعی فریضہ اور قومی ذمہ داری ہے، اور اس میں خیانت یا غفلت کرنا دراصل امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ چنانچہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد ووٹ کو امانت سمجھ کر اپنی رائے عدل و تقویٰ کے مطابق استعمال کرے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔