🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن مجید نے آپ ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا ہے : وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء : ۱۰۷) اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی انقلاب انگیز تعلیمات پوری انسانیت کے لئے نفع اور خیر و فلاح کی ضامن ہیں ، پیغمبر اسلام ﷺ کی انقلابی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے کہ آپ کے ذریعہ آئے ہوئے دین کو اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کریں گے :لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ (التوبۃ : ۳۳) یہ صرف دعویٰ نہیں ہے ؛ بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، آپ کے ذریعہ دنیا میں جو فکری انقلاب آیا اور اس کے نتیجہ میں ترقی اور انصاف کے راستے کھلے ، وہ پیغام محمدی کے غلبہ کی واضح مثال ہیں ، پیغمبر اسلام ﷺنے جس صالح انقلاب سے دنیا کو بہرہ ور کیا اور آپ ﷺکی صحبت بافیض نے ذرہ کو آفتاب بنادیا ، اکبر اِلٰہ آبادی نے اس کا خوب نقشہ کھینچا ہے :
دُر فشانی نے تری ، قطروں کو دریا کردیا
دل کو روشن کردیا ، آنکھوں کو بینا کردیا
خود نہ تھے جو راہ پر ، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا !
یوں تو آپ ﷺکے ذریعہ زندگی کے ہر شعبہ میں دُور رس تبدیلیاں آئیں ؛ لیکن ان میں سے چند پہلوؤں کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے ، ان میںپہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو ’ وحدتِ اِلٰہ ‘ کا تصور دیا ، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے ؛ لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پرستی کے یہ ایک انقلابی عقیدہ ہے ، خدا کا انکار انسان کو غیرذمہ دار ، گناہوں کے بارے میں جری اور مادہ پرست بنا دیتا ہے ؛ کیوںکہ اسے جواب دہی کا کوئی خوف نہیںہوتا ، دنیا اس کے لئے محض عشرت کدۂ حیات ہوتی ہے ، اور وہ خدا کی بندگی سے آزاد اور لذت و عیش کا غلام بن جاتا ہے ، اﷲ کے ایک ہونے کے تصور سے انسانیت کی تکریم اور اس کا اعزاز متعلق ہے ، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی پیشانی غیراﷲ کے سامنے جھکنے سے ماوراء ہے اور خدا نے اس کو پوری کائنات پر فضیلت بخشی ہے ، عقیدہ توحید نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نجات دلایا ؛ کیوںکہ توحید پر ایمان رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مخلوق اسے نفع و نقصان پہنچانے سے عاجز ہے ، توحید کا عقیدہ انسان کے اندر خدا کی محبت اورخدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور یہی خشیت اور خدا کو راضی کرنے کا جذبہ ، فرائض کی ادائے گی کا احساس پیدا کرتی ہے اور وہ دنیا کو عشرت کدہ سمجھنے کے بجائے امتحان گاہ سمجھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے ؛ اس لئے توحید کا عقیدہ انسانیت کے لئے بہت بڑی نعمت اورسامان رحمت ہے ، جو رسول اﷲ ﷺ کے ذریعہ انسانیت کو حاصل ہوا ہے ۔
گو حضور ﷺسے پہلے بھی انبیاء نے توحید کی تعلیم دی اور بہت سے مصلحین نے بھی شرک کی تردید و انکار کا فریضہ انجام دیا ؛ لیکن حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول اﷲ ﷺ کی بعثت تک ہمیشہ انسانیت پر مشرکانہ فکر کا غلبہ رہا ، یہاں تک کہ جو مذاہب توحید کا علم لے کر اُٹھے تھے ، وہ خود بھی شرک کے رنگ میں رنگ گئے ، عیسائیوں نے حضرت مسیح کی اُلوہیت کو اپنے عقیدہ کا بنیادی جزو بنالیا ، ہندو مذہب میں بھی توحید کا عنصر موجود ہے ، مگر انھوں نے لاتعداد خدا تخلیق کر لئے ، بودھ مذہب کی بنیاد مذہب کے شارحین کے خیال کے مطابق خدا کے انکار پر ہے ؛ لیکن بودھ مذہب کے متبعین نے خود بودھ جی کی پرستش شروع کردی ، رسول اﷲ ﷺ نے توحید کی فکر کو اس طرح غالب فرمایا کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک غالب فکر بن گئی ، یہاں تک کہ جن مذاہب کی اساس شرک پر تھی ، ان میں بھی ایسی تحریکات اُٹھیں ، جو توحید کی داعی تھیں ، جیسے ہندو بھائیوں کے یہاں آریہ سماجی ، برہمو سماجی وغیرہ اور عیسائیوں کے یہاں پروٹسٹنٹ اور بعض دیگر فرقے جو حضرت عیسیٰ کے اللہ یا ابن اللہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔
آپ ﷺ کی دوسری اہم تعلیم ’’ انسانی وحدت ‘‘ کا تصور ہے ، آپ کی بعثت سے پہلے قریب قریب دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب میں انسان اور انسان کے درمیان فرق کرنے اور کچھ لوگوں کے پیدائشی طورپر معزز اور کچھ لوگوں کے حقیر ہونے کا تصور موجود تھا ، یہودی اسرائیلی اورغیر اسرائیلی میں امتیاز کرتے تھے اور جو لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہوں ، ان کو پیدائشی طورپر افضل و برتر جانتے تھے اور آج بھی ان کا یہی تصور ہے ، ایران کے لوگوں کا خیال تھا کہ جولوگ بادشاہ کی نسل سے ہوں ، وہ خدا کے خاص اور مقرب بندے ہیں ؛ بلکہ خدا کا کنبہ ہیں ، ہندوستان کا حال تو شاید سب سے خراب تھا کہ انسانیت کو مستقل طورپر چار طبقو ںمیں تقسیم کردیا گیا تھا ، کچھ لوگوں کے بارے میں تصور تھا کہ وہ خدا کے سر سے پیدا کئے گئے ہیں ، کچھ لوگ خدا کے بازو سے ، کچھ کی پیدائش خدا کے ران سے ہوئی ہے اورکچھ کی پاؤں سے ، یہ برہمن ، ویش ، کھتری اور شودر کہلاتے تھے ، شودر اتنا بدقسمت گروہ تھا کہ تاریخ عالم میں شاید ہی ایسی اجتماعی اورقومی مظلومیت کی مثال مل سکے ، ان پر تعلیم کا دروازہ بند تھا ، ان کے لئے کچھ ذلیل سمجھے جانے والے پیشے مخصوص تھے اور وہ اونچی ذاتوں کے پیدائشی غلام سمجھے جاتے تھے ، کم و بیش یہی حال دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف قوموں میں تھا ۔
رسول اﷲ ﷺ نے ان حالات میں انسانی وحدت کا تصور پیش کیا اور پیدائشی طورپر افضل وبرتر اور حقیر وکہتر ہونے کے تصور کو رد فرمادیا ، آپ ﷺ نے صاف اعلان کیاکہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر محض رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ؛ بلکہ فضیلت کا معیار انسان کا تقویٰ اور اس کا عمل ہے ، اس اعلان نے عرب کے معزز قبائل اور حبش و روم کے بلالؓ و صہیبؓ کو ایک صف میں کھڑا کردیا ؛ بلکہ یہ عجمی نژاد غلام جو کبھی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، زعماء عرب کے لئے وجہ رشک بن گئے اور حضرت عمر فاروقؓ جیسے فرمانروا بھی انھیں ’’ سردار ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا کرتے تھے ، یہ آپ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی تفریق و امتیاز کی زنجیریں کٹنے لگیں ، انسانی مساوات کے نعرے ہرسو بلند ہوئے اوردنیا کی مظلوم و مقہور قوموں کو پیدائشی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی ، اگر کہیں کسی انسانی گروہ نے اپنی شقاوت اور جور و جفا سے اس ظلم کے سلسلہ کو جاری بھی رکھا ، تو ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے الزام سننے پڑے اورمظلوموں کو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقع فراہم ہوا ، یہآپ ﷺکی رحمت عامہ کا ایسا پہلو ہے کہ کوئی صاحب بصیرت اُسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔
اس وحدت انسانی کے تصورنے زندگی کے تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا ، تما م لوگوں کے لئے ہر طرح کے پیشہ کا دروازہ کھل گیا اور پیشوں کی تحقیر و تذلیل کا تصور ختم ہوا ، علم کی روشنی عام ہوئی اورہر ایک کے لئے تعلیم کا دروازہ کھلا ، سماجی زندگی میں ہر ایک کے لئے باعزت طریقہ پر زندگی بسر کرنے کاموقع فراہم ہوا ، جرم و سزا کے باب میں انصاف کا قائم کرنا ممکن ہوا ، اور ہر ایک کے لئے اپنی تہذیب اور اپنی روایات کا تحفظ ممکن ہوسکا۔
اس انسانی وحدت کے تصور نے ایک نمایاں اثر سیاسی نظام پر بھی ڈالا ، اسلام سے پہلے پوری دنیا کے سیاسی اُفق پر ملوکیت کا تصور چھایا ہوا تھا اور اس کے مقابلہ میںکوئی اور نظام سیاست عملاً موجود نہیں تھا ، ظہور اسلام کے وقت جتنی معلوم طاقتیں تھیں ، وہ سب ملوکیت کی نمائندہ تھیں ، روم میں بادشاہت تھی ، ایران میں بادشاہت تھی ، حبش میں بادشاہت تھی ، یمن میں بادشاہت تھی ، ہندو چین کے علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے راجا تھے ، غرض پوری دنیا بادشاہت کے آمرانہ نظام اور پنجہ استبداد کے تحت تھی ، یہاں تک کہ یونان کے فلاسفہ نے جس جمہوریت کا نقشہ پیش کیا تھا ، اس میں بھی ’’ اَشراف ‘‘ کی حکومت کا تصور تھا اور اقتدار میں عام لوگوں کی شرکت کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔
اسلام نے انسانی وحدت اور مساوات کا جو تصور پیش کیا ، اس نے خاندانی بنیاد پر حکومت واقتدار کے ارتکاز اور فرمانروائی کے تصور کو پاش پاش کردیا اور جمہوریت کے تصور نے غلبہ حاصل کرلیا ، آپ ﷺنے عملی طورپر بھی اس کی مثال قائم فرمائی ، متعدد بار جب آپ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم ؓکو یہاں کا عارضی گورنر بنایا ، جس فوج میں قریش کے معزز سردار تھے ، ان پر آپ نے ایک آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کو سپہ سالار بنایا ؛ چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری نظام قائم ہے ، جو اسلام کے تصور خلافت سے مستعار اور اپنی بعض خامیوں کے باوجود انسانی وحدت و مساوات کا علمبردار ہے ، یہاں تک کہ آج یا تو بادشاہت کا وجود ہی نہیں ہے ، یا ہے تو محض دستوری اورعلامتی بادشاہت ہے ، اور اگر کہیں جبراً آمرانہ ملوکیت باقی ہے تو وہ پوری دنیا کی نگاہ میں قابل تحقیر اورلائق ملامت ہے ۔
تعلیماتِ محمدی کا تیسرا اہم پہلو علم کی حوصلہ افزائی ہے ، آپ جس سماج میں تشریف لائے ، وہاں لوگ اس بات کو سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ، وہ بہت ہی فخر کے ساتھ اپنے ’’ اُمّی ‘‘ ہونے کی بات کہتے تھے ، آپ ﷺ نے تعلیم و تعلم کی حوصلہ افزائی کی اور علم کو بلا امتیاز و تفریق ہر طبقہ کے لئے عام فرمایا ، پھر آپ نے علم کے معاملہ میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں کی ؛ بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو ، خداسے اس کی دُعاء کی اورفرمایا کہ علم و حکمت کی جو بات جہاں سے مل جائے ، اس کی طرف اسی طرح لپکنا چاہئے ، جیسے انسان اپنی گم شدہ چیز کے لئے لپکتا ہے : الحکمۃ ضالۃ المؤمن (ترمذی ، ابواب العلم ، حدیث نمبر : ۲۶۸۱) آپ ﷺ نے مسلمان بچوں کو بدر کے غیر مسلم قیدیوں سے تعلیم دلائی اور مدینہ میں یہودیوں کی درس گاہ ’’بیت المدراس ‘‘ میں تشریف لے گئے ، جس سے علم کے معاملہ میں آپ کی فراخ قلبی اور کشادہ چشمی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
اس سے نہ صرف یہ کہ علم کا دور دورہ ہوا ؛ بلکہ غیر سائنٹفک فکر کی جگہ سائنٹفک فکر کا غلبہ ہوا ، اور توہمات کی زنجیریں کٹ گئیں ، شرک میں چوںکہ مخلوقات کو معبود کا درجہ دیا جاتا ہے اورجو معبود ہو ، اس کی عظمت اور اس کا احترام تحقیق و تجسس میں مانع بن جاتا ہے ؛ اس لئے وہ علمی ترقی اور تحقیق وسائنس کے ارتقاء میں رکاوٹ بن جاتی ہے ، توحید چوںکہ مخلوقات کے معبود ہونے کی نفی کرتی ہے ؛ اس لئے کائنات کی تما م اشیاء پر غور و فکر ، بحث و تحقیق اور تفحص وتجسس کا راستہ کھلتا ہے ، انسان علم میں جتنا آگے بڑھتا جائے اور کائنات کے حقائق پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں ، ان کو جس قدر اُٹھاتا جائے ، وہ اسی قدر توہمات سے آزاد ہوتا جائے گا ۔
چوتھے : اسلام سے پہلے اہل مذاہب نے دین اور دنیا کا بٹوارہ کر رکھا تھا اور دین و دنیا کی اس تقسیم کی وجہ سے بعض انسانی گروہ قانون فطرت کے خلاف بغاوت پرآمادہ تھے ، نکاح کو بری بات سمجھا جاتا تھا ، قرب خداوندی کے لئے تجرد کی زندگی ضروری سمجھی جاتی تھی اور مرد وعورت کے فطری تعلق کو بہرصورت گناہ باور کیا جاتا تھا ، کسب ِمعاش کی محنتوں کو دین داری کے مغائر اوررضائے خداوندی میں رکاوٹ گمان کیا جاتا تھا ، یہا ںتک کہ رہبانیت کے غلبہ کا یورپ میں ایک ایسا دور بھی گذرا ہے کہ لوگ نہانے ، دھونے ، صاف ستھرے کپڑے پہننے اورخوشبو استعمال کرنے کو بھی للہیت کے خلاف سمجھتے تھے اور دسیوں سال غسل سے مجتنب رہتے تھے ، مذہب کے متبعین میں بھی اس طرح کا تصور عام تھا ، رسول ﷺ کی رحمت کا ایک اہم باب رہبانیت کے اس تصور کا خاتمہ ہے ، آپ ﷺ نے تعلیم دی کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حدود میں رہتے ہوئے دنیا سے نفع اُٹھانا بھی دین کا ایک حصہ ہے — ’ دین ‘ دنیا سے نفع اُٹھانے میں حلال و حرام کی تمیز کا نام ہے نہ کہ دنیا کو ترک کردینے کا ؛ چنانچہ آپ نے نکاح کرنے کا حکم دیا ، اس کو اپنی اور انبیاء کی سنت قرار دیا اور تجرد کی زندگی کو ناپسند فرمایا ، کسب معاش کو ایک اہم فریضہ قرار دیا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ، صفائی ستھرائی کی تعلیم دی اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا ، جو انسانی فطرت سے متصادم ہو ؛ بلکہ انسانی فطرت میں جو تقاضے اور داعیے رکھے گئے ہیں ، ان سب کو جائز رکھا گیا اور ان کے لئے مناسب حدود مقرر کردی گئیں ۔
پانچویں :آپ ﷺکا ایک اہم کارنامہ ہے عورتوں کو عزت و احترام کا مقام حاصل ہونا ، اور انسانی سماج میں ان کی قدردانی ، اسلام دنیا میں اس وقت آیا جب عورت کو گناہ کا دروازہ اورنحس کا سبب سمجھا جاتا تھا ، ان کے بارے میں تصور تھا کہ وہ شادی سے پہلے باپ کی اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی ملکیت ہوتی ہے ، وہ چوںکہ خود ایک مملوکہ شئے ہے ؛ اس لئے اس کو مالک ہونے کا حق نہیں تھا ؛ اسی لئے انھیں حصۂ میراث نہیں ملتا تھا ، عرب کے بعض قبائل میں تو لڑکیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں ، اس بات میں بھی اختلاف تھا کہ کیا عورت کا شمار انسانوں میں ہے ؟ یہاں تک کہ یونان کے فلاسفہ بھی کہتے تھے کہ عورت کے اندر انسان سے کمتر اور حیوان سے برتر روح پائی جاتی ہے ، یعنی وہ انسان اور حیوان کے درمیان کی ایک مخلوق ہے ۔
ان حالات میں آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور بتایا کہ مرد و عورت ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والی دو صنفیں ہیں ، (النساء : ۱) پہلے حضرت حواء علیہا السلام کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی تھی ، قرآن نے اس داغ کو صاف کیا :عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰی (طٰہٰ: ۱۲۱)اور اس کا اصل محرک شیطان کو قرار دیا : فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ (البقرۃ : ۳۶) عورت کو بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے مردوں سے بڑھ کر درجہ دیا ، ان کو نکاح کرنے ، اپنے مال میں تصرف کرنے ، تعلیم حاصل کرنے ، اپنے خیالات کا اظہار کرنے ، شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ کسب ِمعاش کرنے وغیرہ کی اجازت دی اور انھیں معاشرہ میں عزت کا مقام دیا ، انیسویں صدی کے وسط تک مغربی ملکوں میں عورت کو حق میراث نہیں ملتا تھا ، برادرانِ وطن کے یہاں۱۹۵۰ء تک عورت کو حق میراث حاصل نہیں تھا ؛ لیکن اسلام نے اول دن سے بیٹی کو اپنے والدین کے ، ماں کو اپنی اولاد کے ، بیوی کو اپنے شوہر کے ترکہ میں سے لازمی وارث بنایا اوربعض حالات میں دوسری خاتون رشتہ داروں کو بھی میراث میں حق دیا ، آج بھی غیر مسلم سماج میں شریک حیات کے انتخاب میں زیادہ تر لڑکیوں سے مشورہ نہیں لیا جاتا ؛ لیکن اسلام نے صدیوں پہلے نکاح کے لئے عورت کی رضامندی کو شرط قرار دیا اور بالغ لڑکی کو حق دیا کہ وہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے ، مشرق سے لے کر مغرب تک آج عورتوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں ، یاان کی آزادی کا جو نعرہ لگایا جارہا ہے ، یہ سب رسول اللہ ﷺ کی انقلاب انگیز تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔
اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ کی ذات صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ؛ بلکہ پوری انسانیت اور تمام عالم کے لئے رحمت بیکراں ہے ۔
. . .