اسلام کا نظریۂ طب وعلاج
ازمولوی محبوب محمد قاسمی
خالق کائنات کی طر ف سے انسان کو ایمان وہدایت کے بعد جوسب سے بڑی نعمت حاصل ہے، وہ ہے صحت و تندرستی، مقولہ مشہور ہے :تندرستی ہزار نعمت ہے، اگر صحت نہ ہو تو خدا کی بہت ساری عمدہ اور لذیذ غذائوں سے انسان محروم ہو جاتا ہے ،نیز سونا، جاگنا، پڑھنا، لکھنا، عبادت وریاضت اور ہر طرح کی مصروفیت بے کیفی اور بے لطفی کا شکار ہو جاتی ہے، اور دنیا اپنی رنگینیوں کے باوجو د بے رنگ نظر آتی ہے، اس لئے حفظان صحت کی تدابیر اختیار کرنا ایک ناگزیر شرعی اور سماجی تقاضہ ہے، اور دوسری طرف یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انسانی زندگی خدا وندِ قدوس کی طرف سے عطا کردہ ایک امانت ہے، اور امانت کی حفاظت انسان کی ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس میں تعدی جائز نہیں ہے، تعدی چاہے خودکشی کی شکل میں ہو، بیمار جسم کا علاج ترک کر کے ہو، الغرض صحت وسلامتی کی فکر کرنا انسان کا ایک بڑا فریضہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے:لا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ ( البقرۃ : ۱۹۵)
سر کار دوعالم ﷺ نے خودکشی کو عذابِ اخروی کا باعث بتایا ہے، بعض صحابہ کرام ؓ روزہ ونماز میں حد اعتدال سے تجاوز کرتے تھے، مسلسل روزہ رکھنا، اور رات بھر عبادت کرنا ان کا معمول بن گیا تھا، تو آں حضرت ﷺ نے ان کے اس طرز عمل کو پسند نہیں فرمایا، اور اس پر نکیر کی، اور ارشاد فرمایا کہ انسان پر اس کے نفس کا اور اس کی آنکھ کا بھی حق ہے، (۱)
طبی تحقیق کی حوصلہ افزائی
انسانی زندگی میں کسی ایک حالت پرقرار ودوام نہیں ہے، آج کچھ ہے کل کچھ، یہ روزانہ کے مشاہدے کی بات ہے، انسان کی صحت وتندرستی ہی دیکھ لیجئے، جس طرح بڑے بڑے کاروباری دیکھتے ہی دیکھتے مفلس اور قلاش ہو جاتے ہیں، اور مفلس شخص راتوں رات مال وزر کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے، اسی طر ح ایک توانا وتندرست دیکھتے ہی دیکھتے مختلف امراض و آلام کا شکار ہو جاتا ہے، آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بیماریوں کا وجود اتنی کثرت سے ہے کہ اسے قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا جا رہا ہے، اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی مد نظر رہنا چاہئے کہ صحت وتندرستی کے ساتھ مرض و بیماری کا سلسلہ کائنات کے نظام کا ایک حصہ ہے، حالات کوکسی ایک کیفیت پر برقرار رکھنا نہ کبھی کسی کے بس میں رہا ہے اور نہ کبھی کسی کے بس میں رہے گا، لیکن بدلے ہوئے حالات کو متوازن بنانا اورمتوازن بنانے میں مدد دینا، انسان کے بس میں ہے، جسے وہ اختیار کرکے ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو بانٹ بھی سکتاہے، اور بدلے ہوئے حالات کو سنوار بھی سکتاہے۔
امر اض و مصائب سے نجات حاصل کرنا بھی حالات کی تبدیلی ہے، اسلام چوں کہ دین فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر اور متحرک مذہب بھی ہے، اس میں بدلے ہوئے حالات کو سنوارنے کے لئے حلال وحرام اور جائز وناجائز کی شکل میں کچھ قیود وشرائط ہیں، جن کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، چنانچہ طب کے حوالے سے اسلام کا اپنا ایک مستقل نظریہ ہے، اس کے مستقل قوانین وقواعد ہیں جن کی پاسداری ہر مسلمان کے ذمہ ضرور ی ہے، اورجس کا جاننا ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے ناگزیر ہے، تاکہ وہ غیر اقوام کو اسلام کے نظریہ طب وعلاج سے روشناس کرا سکیں، آپ ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ طبی تحقیق وتلاش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہر بیماری کے لئے دوا ہے، جب وہ دوا بیماری کو پہنچتی ہے تو بیماری اللہ رب العزت کی مرضی سے اچھی ہوجاتی ہے، (۲)
آپ ﷺ نے اس حدیث میں طب کے حوالے سے اسلام کا یہ خاص نظریہ پیش فرمایا کہ مرض کا علاج کرانا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے بیماری پیدا کی ہے تو شفا کوبھی وجو بخشا ہے، لیکن بیماری، صحت سے اسی وقت بدل سکتی ہے جب کہ مشیت خداوندی شامل حال ہو، یہ اسلام کا طب کے حوالے سے اپنا خاص عقیدہ ہے، اور مستقل نظریہ ہے، اور اس نظریہ وعقیدہ میں رسوخ ہونے کی وجہ سے، بیمار اگر صحت نہ پاسکا تب بھی اس کا دل مطمئن رہتا ہے، گھبراتا نہیں ہے۔
اسی طر ح ایک مقام پر اللہ کے نبی ﷺ نے علاج کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے:
دیہاتی لوگوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا: کہ کیا ہم دوا وعلاج نہ کرائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے بندو ! تم دوا اور علاج کراؤ ،اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا بنائی ہے، مگر ایک کی دوا نہیں بنائی ہے، ان دیہاتیوں نے کہا: وہ کونسی بیماری ہے، یا رسو ل اللہ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ بوڑھاپا ہے (۳)
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں علاج ومعالجہ کوبہت اہمیت دی گئی ہے، اورصحت کی حفاظت وعلاج کا حکم دیا گیا ہے۔
حرام وناپاک چیزوں سے علاج
اسلام نے مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں، حلال وحرام کی تمیز کا تصور دیا ہے، علاج ومعالجہ کا شعبہ بھی اس سے مستثنی نہیں ہے، علاج کرانا ایک انسانی اور شرعی ضرورت ہے، لیکن علاج حلال اور جائز دوائوں کے ذریعہ ہی ضروری ہے، حرام دوائوں اورحرام ذرائع کا استعمال ممنوع ہے، ہاں ضرورت کے موقع پر بقدر ضرورت اسلام نے حرام ادویہ کا استعمال چند شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، چنانچہ متقدمین کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف تھا؛ لیکن متاخرین اور فقہائے معاصرین اب اس کے جواز پر چند شرطوں کے ساتھ متفق ہیں، بطور نمونہ ابن اثیر ؒ کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے:
وفی النہایۃ، یجوز التداوي بالمحرم کالخمر و البول، إذا أخبرہ طبیب مسلم، إن فیہ شفاء ولم یجد غیرہ من المباح مایقوم مقامہ، والحرمۃ تر تفع للضر ورۃ فلم یکن متدا ویا بالحرام (۴)
نہایہ میں ہے: حرام اشیاء جیسے شراب اور پیشاب سے علاج جائز ہے، بشرطیکہ کسی مسلمان طبیب نے اس میں شفاء کی خبر دی ہو، اور اس کا کوئی جائز متبادل موجود نہ ہو؛ کیوں کہ ضرورت کے موقع پر حرمت ختم ہوجاتی ہے، لہذا وہ حرام سے علاج کرنے والا نہیں ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ کا اصحاب عرینہ کو اونٹ کا پیشاب ازراہ علاج پینے کی اجازت دینا، (۵) اور حضرت ابو عرفجہؓ کو سونے کی ناک بنوانے کی ہدایت فرمانا (۶) بصورت مجبوری حرام اورنجس اشیاء کے جائز ہونے کی واضح دلیل ہے۔
عیادت طب نبوی کا ایک اہم عنوان
اسلامی نظر یہ طب میں عیادت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مریض کی عیادت کرنا، اور مزاج پرسی کرنا باعث اجر وثواب ہے اور اللہ تعالی کو بہت پسند ہے، یہ رشتہ الفت قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مریض کی خبر گیری بھی عبادت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
خداوند قدوس قیامت کے دن فرمائیں گے: اے ابن آدم ! میں بیمار تھا، مگر تونے مجھے نہیں پوچھا، بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار میں آپ کی تیمار داری کیسے کرتا ؟ آپ تو سارے جہاں کے پالنہار ہیں، یعنی بیماری سے پاک ہیں، اللہ تعالی فرمائیں گے: کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمارتھا، اگر تو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (۷)
ڈاکٹر اورمریض کی اخلاقی ذمہ داریاں
اس حوالے سے بھی اسلام اپنا مستقل نظریہ رکھتا ہے، چنانچہ اس نے طبی اخلاقیات پر کافی زور دیا ہے، لہذا طبیب کا ہمدردی، صبر، حلم اور بردباری نیز محبت وشفقت اور نرمی جیسی صفات کا حامل ہونا بہت ضروری ہے، اخلاق وعادات تقدیر کو بدل تو نہیں سکتے، لیکن مریض کا دل ضرور خوش کرسکتے ہیں، چنانچہ اللہ کے نبی ﷺ دوران عیادت کبھی مریض کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے، کبھی سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے، اورکبھی اپنے وضو کا پانی مریض پر چھڑکتے، یہ اطباء کے لئے بہترین اسوہ ہے، (۸)
مریض کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹروں سے ملاقات کے وقت اور دیگر معاملات کے وقت خوش اخلاقی سے پیش آئے، اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرے، اس کے مشوروں کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھے، اس کے ساتھ تلخ کلامی، بدگوئی اور دیگر دل شکن باتوں سے پرہیز کرے، اور ایسا برتاؤ صرف مسلم اطباء کے ساتھ ہی نہیں کرے؛ بلکہ غیر مسلم اطباء کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آئے، وہ مسلمان اگرچہ نہیں؛ لیکن انسان ضرور ہیں۔
حالت مرض میں دعائوں کا اہتمام
حالت مر ض میں اسلام کا ایک خاص نظریہ یہ ہے کہ انسان ان حالات میں دوا اور علاج کے ساتھ ساتھ اپنے معبود حقیقی سے بھی رابطہ رکھے، اور اس دوران یہ یقین رکھے کہ مرض خدا کی طر ف سے ہے، شفاء بھی اس کی طرف سے ملے گی، چنانچہ اذا مرضت فہو یشفین، اس نظریہ کی بنیا دہے، لہذا مریض کوچاہئے کہ دوران مرض دعاؤں اور ذکر خداوندی میں مشغول رہے، اس لئے کہ بیماری کی وجہ سے بندہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے، اور بعض وہ کلمات ہیں جن کو پڑھے تو اس کو جہنم کی آگ بھی نہ جلائے گی، وہ کلمات یہ ہیں:
لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر، لا إلہ إلا اللہ وحدہ، لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لا إلہ إلا اللہ لہ الملک ولہ الحمد، لا إلہ إلا اللہ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ (۹)
حوالہ جات
(۱) سنن دار قطنی ،حدیث نمبر:۲۲۳۵
(۲) صحیح مسلم ،حدیث نمبر: ۲۲۰۴
(۳) ترمذی ،حدیث نمبر: ۲۰۳۸
(۴) تبین الحقائق ۶/ ۳۳
(۵) ترمذی حدیث نمبر: ۱۸۴۵
(۶) ابوداء ود حدیث نمبر: ۴۲۳۲
(۷) مسلم حدیث نمبر :۲۵۶۹
(۸) طب نبوی لابن قیم :۹۲
(۹) ترمذی حدیث نمبر :۳۴۳۰