حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی صاحب
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
قربانی کا اجر و ثواب بے حد و حساب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی
کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالی کو پسند نہیں۔ ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں
سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو
زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے، تو خوب خوشی اور دل کھول کر قربانی کیا
کرو، ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے
بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اس کے ساتھ حدیث میں یہ وعید بھی ہے کہ جو شخص وسعت رکھنے
کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
قربانی کن پر واجب ہے
ہر مسلمان ( مرد و عورت) آزاد، مقیم جو ضروریات زندگی کے علاوہ مقدار نصاب یعنی
ساڑھے سات تولہ (تقریباً ساڑھے ستاسی گرام) سونا یا ساڑھے باون تولہ (تقریباً
612.50) چاندی یا اس کی قیمت یا بنیادی ضروریات کے علاوہ اس قیمت کی جائیداد و سامان کا
دسویں ذی الحجہ کی صبح کو مالک ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔
امام ابو حنیفہ رح کے یہاں بالغ، عاقل ہونا ضروری نہیں، اگر نا بالغ بچہ یا پاگل اتنی جائیداد کا
مالک ہو جس میں زکوۃ واجب ہو جایا کرتی ہے، تو اس پر قربانی واجب ہے۔ اور اس کا باپ یا جو
اس کا ولی ہو اس کی طرف سے قربانی کرے گا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق مستحب ہے اور
اسی قول کو اکثر فقہاء احناف نے قابل ترجیح قرار دیا ہے، البتہ ایسے افراد کی طرف سے صدقہ فطر
کی ادائیگی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر بقر عید کے دنوں میں
قربانی کرنا بھی واجب ہے۔ اگر اتنا مال نہ ہو جتنے کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، تو
اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔ اگر پھر بھی کرے تو ثواب کا مستحق ہوگا۔ مسافر پر حالت سفر میں
قربانی واجب نہیں ہے۔ دسویں گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو سفر میں تھا پھر بارہویں تاریخ کو
سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا۔ یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لی تو اب اس پر قربانی کرنا واجب ہو گیا ، اسی طرح پہلے اگر اتنا مال نہ تھا اس لئے قربانی واجب نہ تھی پھر بارہویں تاریخ
سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔
قربانی کا جانور
قربانی کے جانوروں میں اونٹ پانچ سال سے کم نہ ہو، بیل، بھینس ، گائے دو سال سے کم نہ ہوں، اور بھیڑ بکری دنبے ایک سال سے کم نہ ہوں۔ اگر بھیڑ اور دنبہ چھ ماہ سے زائد کا ہو اور اتنا موٹا ہو کہ ایک سال کا نظر آرہا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کے جانور کو فربہ تندرست اور بے عیب ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر خوب قوی کیا کرو کیونکہ پل صراط پر وہ تمہاری سواری ہوں گے۔ قربانی کا جانوراگر ایسا مریل اور دبلا کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ رہ گیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ایسا جانور جو اندھا ہویا کانا یا لنگڑا ہو جو مذبح تک نہ جا سکتا ہو یا اس کا کوئی عضو ( مثلاً کان یادم ) تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہوان سب کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر ہی نہ نکلے ہوں یا نکلے ہوں مگر کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ البتہ جس جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ہی ٹوٹ گئے ہوں، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ وہ جانور جس کے پیدائشی طور پر کان نہیں ہیں یا ہیں تو بہت چھوٹے ہیں اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ جس جانور کے دانت بالکل ہی نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کا تھن کٹا ہوا اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے ۔
گائے اور بکری اگر حاملہ ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ اگر بچہ زندہ ہی برآمد ہو تو اس کو بھی ذبح کر لینا چاہئے۔ دنبہ بکرا بکری، بھیڑ کی قربانی صرف ایک آدمی کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ ایک سے زائد کئی آدمی اس میں حصہ دار نہیں ہو سکتے ۔ بیل ، گائے اور اونٹ میں سات حصے ہو سکتے ہیں۔ سات سے زائدہ نہیں۔ مگر اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ حصہ دار کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو محض گوشت حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور میں عقیقہ کی نیت سے شریک ہوا جاسکتا ہے ) دوسری شرط یہ ہے کہ ہر حصہ دار کا حصہ ٹھیک 7.50 ہو۔ اس سے کم کا حصہ دار نہ ہو،ان دو شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔
گائے، بھینس اور اونٹ میں سات افراد سے کم بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی دو، چار
یا کم و بیش حصہ لے۔ مگر اس میں یہ شرط ضروری ہے کہ کوئی بھی حصہ دار ساتویں حصہ سے کم کا شریک نہ ہو ورنہ کسی کی قربانی درست نہ ہوگی۔ جن لوگوں کے بھی حصہ رکھے جائیں ان کے کہنے سے رکھے جائیں۔ یہ نہیں کہ قربانی کا حصہ دار تجویز کر کے قربانی تو پہلے کر لی جائے اور حصہ داروں کی مرضی واجازت بعد میں حاصل کی جائے تو اس صورت میں قربانی صحیح نہ ہوگی۔ نر اور مادہ دونوں کی قربانی جائز ہے اس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔
چنداہم مسائل
کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس جانور کی قربانی واجب ہوگئی۔ کسی پر قربانی واجب تھی، لیکن قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت کے برابر خیرات کر دے۔ اور اگر بکری خریدی تھی تو ۔۔۔
بعینہ وہی بکری خیرات کر دے۔ (شامی) اگر قربانی کے لئے جانور خریدا اس وقت کوئی ایسا عیب پیدا ہو گیا جس سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے، ہاں اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی واجب نہیں تو اس کے واسطے درست ہے کہ وہی جانور قربانی کر دے۔ متوفیٰ رشتہ داروں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔ البتہ قربانی واجب ہے تو اپنی طرف سے کرنے کے بعد حسب سہولت اور گنجائش ہو تو دوسروں کی طرف سے کرے۔ اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کے لئے قربانی کرے تو اس کے گوشت میں سے خود کھانا، کھلانا، بانٹنا سب درست ہے ،اسی طرح اپنی قربانی کا گوشت برادران وطن کو بھی دینا جائز ہے، بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے۔ (عالمگیری) قربانی کی کھال کی قیمت کسی کو اجرت میں دینا جائز نہیں اس کا خیرات کرنا ضروری ہے۔ قربانی کے کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اور نیک کام میں لگانا درست نہیں۔ خیرات ہی کرنا چاہئے اگر کھال کو اپنے کام میں استعمال کرے مثلا مشک یا ڈول یا جائے نماز وغیرہ بنوا لیا تو بھی درست ہے ، قصائی کو گوشت چربی مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پاس سے الگ سے دے۔ قربانی کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں اگر دل میں خیال کر لیا کہ میں قربانی کرتا ہوں اور زبان سے کچھ نہیں کہا صرف باسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کر دیا تو بھی قربانی درست ہوگئی۔ اگر یاد ہو تو پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔
قربانی کا وقت:
بقرعید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے۔ چاہے جس دن قربانی کرے۔ لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہتر دن بقر عید کا دن ہے، پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔ بقر عید کی نماز ادا ہونے سے پہلے قربانی درست نہیں۔ جب لوگ نماز پڑھ چکیں تب کرے۔ رات کو قربانی جائز ہے پسندیدہ اور بہتر نہیں۔ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے، اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروالے اور ذبح کے وقت وہاں جانور کے سامنے کھڑا ہو جانا بہتر ہے۔
قربانی کا طریقہ :
جانور کو قبلہ رُخ لٹا کر پہلے یہ دعا پڑھے: ”انی و جهت وجهي للذي فطر السماوات والارض حنيفا وما انا من المشركين. ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی الله رب العالمين لا شریک له وبذالک امرت وانا اول المسلمين. اللهم منک ولک بسم الله الله اکبر” اب ذبح کیجئے اور ذبح کرنے کے بعد کہے: "اللهم تقبل منی كما تقبلت من حبیبک محمد و خلیلک ابراهيم عليهما الصلواة والسلام“ اگر
آپ دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہے ہوں تو منی کی بجائے من کہہ کر اس کا نام لیجئے۔
قربانی کا گوشت:
افضل اور بہتر ہے کہ قربانی کا گوشت ایک تہائی غرباء ومساکین پر صدقہ کرے، ایک تہائی اپنے عزیزوں اور دوستوں کو دے اور ایک تہائی اپنے اہل وعیال کے لیے رکھ لے لیکن اگر کسی شخص کا کنبہ بڑا ہو یا کوئی اور ضرورت ہو تو تمام گوشت خود خرچ کر سکتا ہے، البتہ فروخت کرنا یا قصاب کو مزدوری دینا منع ہے۔ کئی حصہ دار ہوں تو قربانی کا گوشت آپس میں برابر وزن سے تقسیم کیا جائے اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں۔
قربانی کرنے والے کے لئے بال و ناخن تراشنے کا حکم :
جو شخص قربانی کرے اس کے لئے مستحب ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی
ذبح نہ کرے، جسم کے کسی عضو سے بال و ناخن صاف نہ کرے کہ قربانی کرنے والا اپنی جان کے فدیہ میں قربانی کر رہا ہے اور قربانی کے جانور کا ہر جز و قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جزو کا بدلہ ہے ،جسم کا کوئی جزو نزول رحمت کے وقت غائب ہو کر قربانی کی رحمت سے محروم نہ رہے۔ اس لئے آنحضرت نے مذکورہ حکم دیا ہے۔ لیکن چالیس دن سے زائد مدت ہو جاتی ہو تو کراہت سے بچنے کی خاطر بال وغیرہ کی صفائی میں ڈھیل اور سستی نہ کرے۔ (شامی بحوالہ فتاوی رحیمیہ ج ۲ ص ۸۸)
تشریق کی حقیقت واہمیت:
تکبیرات تشریق کی ابتدا نویں ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہے۔ ان تکبیرات کا حکم یہ ہے کہ فرض عین نماز جو جماعت مستحب کے ساتھ ادا کی گئی ہو اس کے بعد متصل تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے۔ تکبیرات تشریق کے الفاظ یہ ہیں: "اللہ اکبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد“.
امام ابوحنیفہ کے نزدیک تکبیرات تشریق عورتوں پر نہیں ہیں، لیکن مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں۔ اسی طرح یہ تکبیر مرد، عورت دونوں پر واجب ہے۔ البتہ عورت بآواز بلند تکبیر نہ کہے۔ آہستہ کہے۔ (شامی و فتاوی دار العلوم دیوبند ) تکبیرات تشریق کا متوسط بلند آواز سے کہنا ضروری ہے بہت سے لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں یا تو پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں اس کی اصلاح ضروری ہے۔ (جواہر الفقہ : ج اول ص: ۴۴۶)
خصی شدہ جانور کی قربانی
خصی شدہ جانور کی قربانی جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں در مختار میں ہے *ويضحي بالحجاء و الخصي* در اصل جانوروں میں آختہ ہونا عیب نہیں ، کیونکہ آختہ جانوروں کا گوشت زیادہ لذیذ اور خوش ذائقہ ہوتا ہے،
اور اس میں بدبو نہیں ہوتی ، تاجروں کے یہاں بھی خصی جانوروں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، جانوروں میں ایسی قدرتی اور مصنوعی تبدیلی قربانی میں رُکاوٹ ہے، جو ان کے حق میں عیب شمار کیا جاتا ہو، بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آختہ جانور کی قربانی بہتر ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو خصی مینڈوں کی قربانی کرنا ثابت
ہے۔ (کتاب الفتاوی جلد :۴۰)
پالتو اور جنگلی جانور کے اختلاط سے پیدا جانور کی قربانی
حدیث میں قربانی کے لیے جن جانوروں کا ذکر آیا ہے وہ سب پالتو جانور ہیں نہ کہ جنگلی ، اس لئے قربانی صرف پالتو جانوروں ہی کی ہوسکتی ہے۔ اگر پالتو اور جنگلی جانور کے اختلاط سے(آج کل نباتات کی طرح جانوروں میں دو الگ الگ جنس کے جانوروں کے اختلاط سے نئے قسم کا جانور پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے) بچہ پیدا ہوتو ماں کا اعتبار ہوگا، اگر ماں پالتو جانور کے قبیل سے ہے، جس کی قربانی کی اجازت حدیثوں سے ثابت ہے، تو اس کی قربانی درست ہوگی، ورنہ نہیں، چنانچہ ہرن نر ہو اور بکری مادہ ، تو ایسے جانور کی قربانی درست ہوگی، اگر صورت اسکے برعکس ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے الفتاویٰ الہند یہ جلدہ، صفحہ ۷۲۹ دیکھئے )
بقر عید کے دن قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک بقر عید کے دن نماز سے پہلے کھانے کا نہیں تھا، بلکہ نماز کے بعد آپ قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے، اس لئے جو شخص دس ذی الحجہ کو قربانی کر رہا ہو، اس کے لئے مستحب ہے ،اس روز قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرے لیکن یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں۔
قرض لے کر قربانی کرنا
اگر کسی شخص پر اپنی املاک کے لحاظ سے قربانی واجب ہو اور اس کے قبضہ میں گھر یلو سامان اتنی قیمت کا موجود ہو جس سے قربانی کی جاسکتی ہے تو فقہاء نے ایسے شخص کو بھی قربانی کا حکم دیا ہے۔
فقہاء لکھتے ہیں اگر کوئی شخص گھر یلو سامان جیسے فرنیچر ، برتن وغیرہ فروخت نہیں کرنا چاہتا تو اس پر واجب ہے کہ قرض لے کر قربانی کرے۔ جیسا کہ اپنی دوسری ضروریات کے لیے قرض لیتا ہے۔
میت کے لئے صدقہ افضل ہے یا قربانی
قربانی کے دنوں میں میت کے ایصال ثواب کے لئے پیسہ روپیہ وغیرہ صدقہ کرنے سے قربانی
کرنا افضل ہے اور اس کے ثواب کو میت کو پہونچانا افضل ہے، کیونکہ صدقہ و خیرات میں فقط مال کا ادا کرنا ہے اور قربانی میں مال کا ادا کرنا بھی اور فدا کرنا بھی یعنی دو مقصد پائے جاتے ہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ ، جلد دوم، صفحه ۸۷)
بانجھ جانور کی قربانی کا حکم
بانجھ جانور کی قربانی جائز ہے، منع نہیں ہے، ممانعت کا حکم نظر سے نہیں گزرا، بانجھ ہونا قربانی کے لیے عیب نہیں ہے۔ جس طرح جانور کا خصی ہونا اور جفتی سے عاجز ہونا قربانی کے لیے عیب نہیں ہے۔ (بانجھ جانور جس کے بچہ نہ ہوتے ہوں اکثر لحیم وشخیم ( خوب موٹا تازہ ہوتا ہے، گوشت بھی عمدہ ہوتا ہے، بڑی عمر کی وجہ سے بچہ نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔) (فتاویٰ رحیمیہ ، جلد دوم، صفحہ ۹۱)
عورت کا مہر اور اس کی قربانی
ایک عورت مالک نصاب نہیں لیکن اس کا مہر نصاب سے زیادہ شوہر کے ذمہ ہے جو ابھی نہیں مل سکتا ہے، تو عورت اُس مہر کی وجہ سے مالدار یعنی صاحب نصاب شمار نہ ہوگی اور اُس پر قربانی واجب
نہ ہوگی۔ (فتاویٰ ہندیہ، جلد ۵ صفحه ۲۹۳)
صاحب نصاب کا مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا
اگر کوئی شخص ( صاحب نصاب ) اپنے مال سے میت کی جانب سے قربانی کرتا ہے، اگر خود اس پر قربانی واجب تھی تو یہ قربانی اس کی طرف سے ہو جائے گی اور میت کو قربانی کا ثواب نہ ملے گا، اور اگر اس پر قربانی واجب نہ تھی، یا اپنی قربانی جدا کر چکا تھا تو میت کی طرف سے قربانی درست ہو جائے گی یعنی مردہ کو قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (کفایت مفتی جلد : ۸، صفحہ : ۳۰۵)
اگر قربانی کرنے والے کی وفات ہو جائے
اگر کوئی صاحب نصاب قربانی کے ایام میں انتقال کر جائے تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے، اگر مرحوم نے قربانی کے لیے بکراخرید کر رکھا تھا تو بکرامرحوم کے ترکہ میں شامل ہو جائیگا،
ورثاء اس کے حقدار ہونگے ، اب ورثاء چاہیں تو اس کی قربانی مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے کر سکتے ہیں واجب نہیں ہے –
اس سلسلے میں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سات افراد نے شریک ہو کر ایک گائے (یاکوئی بڑا جانور ) قربانی کے لیے خریدا، اور قربانی سے پہلے اُن میں سے ایک شخص مرگیا مگر مردہ کے ورثاء نے ان شرکاء کو اجازت دے دی کہ تم اس کی ( میت کی ) اور اپنی طرف سے قربانی کرو، پس اگر وہ ان کی اجازت سے مردہ اور اپنی طرف سے قربانی کریں تو درست ہوگی اور سب کی قربانی ہو جائے گی، اور اگر اُس مردہ کے ورثاء کی اجازت کے بغیر قربانی کریں تو درست نہ ہوگی اور کسی کی بھی قربانی ادانہ ہوگی۔ (خلاصتہ المسائل صفحہ ۱۱۶، عالمگیری جلد : ۶ صفحه ۲۹۳)
قربانی کے بدلے میں صدقہ و خیرات
اگر قربانی کے دن گذر گئے، ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کر دینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا، ہمیشہ گنہگار ہوگا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز نہیں ہوتی ، زکوۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور تعامل
اور پھر تعامل صحابہ اس پر شاہد نہیں ہیں۔ (جواہر الفقہ ،جلد اول، صفحہ ۴۴۸)
قربانی گاؤ کا مسئلہ
ہندوستان جیسے ملک میں جہاں گاؤکشی قانونا ممنوع ہے اور برادران وطن کے لیے گائے کی قربانی یا ذبح گاؤ ایک انتہائی حساس اور جذباتی مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے، تو کیا مسلمانوں کو اس کا تسلیم کر لینا اور اس سے رک جانا شرعاً درست ہوگا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر اس کو ممنوع تسلیم کر لینا تو قطعا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر یہاں اس پر پابندی تسلیم کرلی جائے تو نہ صرف یہ کہ اسلام کے ایک شعار کو کھونا ہوگا بلکہ غیر اسلامی شعار کو قبول کر لینے کے مترادف ہوگا۔ جب کہ اسلام شعائر دین کے سلسلہ میں بہت غیور اور حسّاس ہے اور ادنی درجہ مداہنت گوارا نہیں کرتا۔ پھر ایسا کرنے سے (مان لینے سے ) ایک ایسی چیز پر نسخ پھیر دینا لازم آئے گا جس کی نہ صرف یہ کہ اسلام نے اجازت دی ہے، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا ہے اس نقطہ نظر سے بھی یہ درست نہیں۔
البتہ فتنہ کے اندیشے سے وقتی طور پر اس سے رکنا مصلحتا درست ہوگا جب کہ اس کی وجہ سے فساد بھوٹ پڑنے کا
اندیشہ ہو، لیکن اس کی حیثیت جزوی اور انفرادی ہے۔
حاجیوں پر بقر عید کی قربانی
اگر کوئی شخص ایسے وقت مکہ مکرمہ پہونچے کہ ایام حج شروع ہونے میں پندرہ دن سے کم کا عرصہ ہو، یعنی ۸ رذی الحجہ سے ۱۴ دونوں پہلے یا اس سے کم دن باقی تھے کہ وہ مکہ آیا تو اب وہ مسافر ہے، اس لئے اس پر بقر عید والی قربانی واجب نہیں اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کیونکہ وہ مسافر ہے اور قربانی مسافر پر واجب نہیں ہوتی ، جو حاجی ۸ رذی الحجہ سے پندرہ دنوں پہلے مکہ مکرمہ پہونچ جائے وہ مقیم ہے، تو کیا ایسے شخص پر بقر عید کی قربانی بھی واجب رہے گی؟
اس سلسلے میں فقہاء احناف سے دونوں طرح کی باتیں منقول ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ حاجی پر مطلقاً بقرعید والی قربانی واجب نہیں۔ اور بعض فقہاء کے نزدیک جو حاجی مقیم ہو، تو اقامت کی وجہ سے اس پر قربانی واجب ہے یہ دوسری رائے زیادہ احتیاط پرمبنی ہے، اس لئے اس پر عمل ہونا چاہئے ۔ علامہ شامی نے قربانی کے بیان (کتاب الاضحیہ ) میں اس پر روشنی ڈالی ہے، پس جو لوگ مکہ میں ایام حج سے پندرہ دنوں پہلے پہونچ گئے ہوں تو ان پر حج کی قربانی کے علاوہ بقر عید کی قربانی بھی واجب ہوگی۔ البتہ حج کی قربانی تو حدود حرم ہی میں دی جاسکتی ہے، لیکن بقر عید کی قربانی کے لئے ایسی کچھ شرط نہیں ، اپنے وطن میں بھی قربانی دے سکتا ہے۔
کتاب الفتاویٰ جلد : ۴، صفحه ۱۳۴-۱۳۵)
کیا قربانی کے وقت میں مقام قربانی کا اعتبار ہوگا
قربانی کے وقت کے سلسلے میں دو باتیں خاص طور پر ذہن میں رکھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ قربانی کے درست ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف سے قربانی ہو رہی ہے وہ نماز عید ادا کر چکا ہو، بلکہ اعتبار قربانی کی جگہ کا ہے۔ جس جگہ قربانی ہو رہی ہے، وہاں نماز عید ہو چکی ہو، تو یہ کافی ہے۔ اور اسی کا اعتبار ہے۔ دوسرے شہر میں کسی بھی ایک جگہ نماز ہو چکی ہو تو پورے شہر میں قربانی درست ہے، خواہ ابھی دوسری جگہ نماز نہیں ہوئی ہو، اور قربانی کرنے والے نے خود نماز ادانہ کی ہو۔
نذر مانی گئی قربانی کے گوشت کا حکم
اگر کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں صحت مند ہو گیا تو بکرا ذبح کروں گا اور قربانی کرونگا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ اس کا کھانا ان ہی لوگوں کے لئے جائز ہے جن کے لئے زکوۃ جائز ہو۔
جو رشتہ دار اس کی زکوۃ نہیں لے سکتے، ان کے لئے اس قربانی میں سے کھانا جائز نہیں ہوگا ، اور اگر پہلے سے اس قسم کی نذر نہیں مانی تھی، بلکہ صحت ہونے کے بعد بطور شکرانہ کے قربانی کر دی تو اس کا وہی حکم ہے جو بقر عید کی قربانی کا ہے، یعنی اس میں سے خود بھی کھا سکتے ہیں، عزیز و واقارب کو بھی دے سکتے ہیں ۔
کب قربانی کا گوشت صدقہ کرنا واجب ہے
فقہاء نے چند صورتیں ایسی لکھی ہیں جن میں قربانی کا گوشت نہیں کھایا جا سکتا بلکہ گوشت کو صدقہ کرنا واجب ہوتا ہے ۔ (۱) اگر قربانی کی نذر مانی گئی ہو۔ (۲) ایام قربانی میں باوجود واجب ہونے کے قربانی نہ کر سکا ، اب بعد میں اس کی تلافی کے طور پر جو جانور خرید لیا جائے، اسے صدقہ کر دینا چاہئے ، اگر ذبح کیا جائے تو اس کی تمام اشیاء کو صدقہ کر دینا واجب ہوگا۔ (۳) مرنے والے نے اپنے مال میں سے قربانی کی وصیت کی ہو اور اسی کے مال سے وہ وصیت پوری کی جائے ، تو اس گوشت کو بھی صدقہ کر دینا واجب ہے۔ (۴) قربانی کا جانور خرید لیا گیا، اس جانور نے بچہ کو جنم دیا تو اس کو بھی صدقہ کرنا واجب ہے۔ (۵) ایک جانور میں سات افراد شریک تھے ان میں سے ایک شخص کی نیت پچھلے سال کی قربانی کی قضا کرنا تھا، اب چونکہ قضا کی قربانی میں صدقہ کرنا واجب ہوتا ہے، اس لئے اس پورے جانور کو صدقہ کرنا واجب ہو جائے گا۔
(کتاب الفتاویٰ، جلد ۴، صفحه ۱۴۷-۱۴۸)
جاۓقیام کی بجائے دوسری جگہ قربانی
بہتر تو یہ ہے کہ آدمی جہاں رہتا ہو وہیں قربانی دے، لیکن دوسری جگہ زیادہ مستحق لوگ رہتے ہوں تو وہاں قربانی دینے میں بھی کوئی حرج نہیں، اگر چہ دونوں جگہ جانوروں کی قیمت میں فرق ہو۔
قربانی کی دعا کسی نے پڑھی اور ذبح کسی اور نے کیا
کسی کی طرف سے قربانی کرنے کے لئے زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں، دل سے ارادہ کر لینا بھی کافی ہے،لہذا اگر ذبح کرنے والے نے دل سے قربانی کی نیت کی اور بسم اللہ کہہ کر جانور ذبح کر دیا ،تو قربانی درست ہو جائے گی، ہاں یہ درست نہیں کہ ایک شخص بسم اللہ پڑھے اور دوسرا ذبح کرے، خود ذبح کرنے والے کے لئے بسم اللہ کہنا ضروری ہے۔ قربانی کے سلسلے میں بھی بہتر یہی ہے کہ جانور ذبح کرنے والا قربانی کی دعا پڑھے۔ (واللہ اعلم)
چوری کے جانور کی قربانی
کسی شخص نے اگر چوری کرنے والے سے جانور خریدا تو اس کی قربانی جائز نہیں دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنی ہوگی۔ البتہ اگر ذبح کے بعد اصل مالک اجازت دے دے تو گوشت کھانا جائز ہے –
کانجی ہاؤس سے لئے جانور کی قربانی
کانجی ہاؤس سے خریدے گئے جانور کی قربانی درست ہے، البتہ عرفا بدنامی کا سبب ہے، اس لئے بلا ضرورت بدنام ہونا بالخصوص مقتداء کے لئے زیبا نہیں ہے۔
امداد الفتاویٰ ،جلد۳، صفحه ۵۴۱)
قربانی کا جانور خرید کر نفع سے بیچنا
قربانی کے جانور کو خرید کر نفع سے بیچنا بہتر نہیں ہے، اگر فروخت کر کے دوسرا کم قیمت کا خریدے تو جو نفع حاصل ہوا ہے اسے بھی خیرات کر دینا چاہئے۔ ( کفایت المفتی ، ج: ۸ ص ۱۹۷)
*بھول کر ایک دوسرے کی قربانی کرنے*
اگر دو شخصوں نے دو جانوروں ( بکریوں) کو قربانی کے ارادے سے خریدا اور بھول کر ایک نے دوسرے کی بکری کو ذبح کر ڈالا تو دونوں کی قربانیاں درست ہوں گی اور کسی پر بدلہ دینا واجب نہ ہوگا۔
ایک شخص پر کتنی قربانی واجب ہے؟
صاحب نصاب شخص پر ایک ہی قربانی واجب ہوتی ہے، زیادہ نہیں خواہ وہ شخص کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، ایک شخص کی ملک میں کتنے ہی نصاب جمع ہو جائیں، اس پر ایک ہی قربانی واجب ہوگی۔
(کفایت ملتی ، ج: ۸ ص: ۱۷۸)
قربانی میں شرکت کا افضل طریقہ
گائے ( بڑے جانور ) میں شریک ہونے والے خریدنے سے پہلے شریک ہو جائیں اور پھر جانور خریدیں تو یہ احوط ( زیادہ احتیاط ) اور افضل ہے اور اسی حکم میں یہ صورت بھی ہے کہ خریدنے والا اس نیت سے خریدے کہ ایک حصہ یا دو حصے میں اپنی قربانی کے لئے رکھوں گا اور باقی حصوں میں دوسروں کو شریک کرلوں گا، یہ بھی جائز ہے، لیکن اگر اس نے بغیر کسی نیت کے خرید لیا اور بعد میں دوسروں کو شریک کر لیا تو اس کے جواز میں اختلاف ہے لیکن راجح قول جواز کا ہے۔
(کفایت المفتی جلد : ۸ صفحه ۱۸۸)
شرکت سے علحدہ ہو جانے کا حکم
قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب تھی اور پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہو گیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہو گیا تو قربانی ہو جائے گی ، اور جس پر قربانی واجب نہ تھی وہ اگر ذبح کرنے سے علحدہ ہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہ گئی اور اس جانور کے دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہ ہوگی ۔
(کفایت المفتی ، ج ۸، ص: ۱۹۰)
غلاظت اور ناپا کی کھانے والے جانور کی قربانی
اگر کوئی جانور غلاظت کھاتا ہو تو اس کے باندھنے سے پہلے اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
جب اس کو چند روز باندھ دیا گیا جس سے وہ ناپاکی نہ کھا سکے، تو اس کی قربانی جائز ہے۔ اگر اونٹ ہے تو اس کو چالیس روز ، گائے، بھینس، بیل وغیرہ کو بیس روز اور بکرا بکری کو دس دن بند رکھا جائے۔
(شامی، جلد : ۵، صفحہ ۲۰۷) جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ اس تحریر کو دوسروں کو بھی پوسٹ کریں ۔