خطاب جمعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔10/ اکتوبر
حضرت مولانا محمد قمر الزماں صاحب ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ رابطہ نمبر
اسلام ایک مکمل دین اور کامل ضابطۂ حیات ہے، جس کی بنیاد عقائدِ حقہ پر استوار ہے۔ ان عقائد میں عقیدۂ ختمِ نبوت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو نہ صرف ایمان کا جزوِ لازم ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی دینی وحدت، فکری استحکام اور روحانی تحفظ کی ضمانت بھی ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں عقیدۂ ختمِ نبوت کو جس وضاحت اور تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہ اس کی غیر معمولی اہمیت کی مظہر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا، اور آپؐ کو "خاتم النبیین” قرار دیا گیا۔ اس عقیدے پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے، اور اس سے انحراف دین سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ختمِ نبوت پر امت کے اجماع نے ہمیشہ باطل فرقوں، فتنوں اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ آج کے فتنہ خیز دور میں، جب مختلف شکلوں میں اس عقیدے پر حملے کیے جا رہے ہیں، تو مسلمانوں کے لیے اس عقیدے کی صحیح تفہیم، اس پر مضبوطی سے جمے رہنا اور اس کے تحفظ کے لیے شعوری جد وجہد نہایت ضروری ہو چکی ہے۔
عقیدئہ ختم نبوت کی اہمیت قرآن و سنت میں
عقیدئہ ختم نبوت کی سب سے واضح دلیل سورہ احزاب کی یہ آیت ہے ،،
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰہُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ﴿٪۴۰﴾
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں ؛ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہیں ، (۱)
اسلام میں تبنیت یعنی گود لینے اور منھ بولی اولاد بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے ، آیت کے پہلے جزو میں اس کی وضاحت کی گئی ہے اور شدت سے اس تصور کی نفی کی گئی، اس کی تفصیل کے لیے مستقل تحریر کی ضرورت ہے ، پھر
آگے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ایک امتیازی خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں ، لفظ ’ خاتم ‘ میں دو قراءتیں منقول ہیں ، اور دونوں لفظ اہل لغت کے نزدیک بالکل ہم معنی ہیں (قوم کا آخری فرد، کسی شئی کا انجام خط کے آخر کی مہر، یہ سب چیزیں اس کے مفہوم میں داخل ہیں)ایک : تاء کے زیر کے ساتھ ’ خاتِم‘ جس کے معنی ہوں گے : نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ، یعنی آپ ﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا ، آپ ﷺ نے اس سلسلہ کو مکمل فرمادیا ہے ، دوسرے: تاء کے زبر کے ساتھ ’خاتَم‘ یعنی وہ چیز جس سے کسی چیز کو مہر بند کردیا جاتا ہے ، جیسے دواؤں کی ,شیشیوں پر سِیل ہوتی ہے کہ اب اس میں کوئی چیز داخل نہیں کی جاسکتی تو اس قراءت کے لحاظ سے بھی یہی مطلب ہوگا کہ آپ ﷺ کے ذریعہ سلسلۂ نبوت کو مہر بند کردیا گیا ہے ، آپ ﷺ کے بعد اب کوئی اورشخص نبی نہیں ہوسکتا ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک الفاظ میں اس کو اور واضح کرتے ہوئے فرمایا : أنا خاتم النبیین ، لا نبی بعدی (ترمذی ، کتاب الفتن ، باب ماجاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون ، حدیث نمبر : ۲۲۱۹) میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ‘ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو : ’’ أنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم‘‘ (مستدرک حاکم ، کتاب الفتن ، حدیث نمبر : ۸۶۲۰) اس مضمون کی اتنی زیادہ احادیث ہیں کہ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث تواتر کے درجہ کو پہنچ گئی ہے ، یعنی بظاہر یہ بات ناقابل تصور ہے کہ اتنے سارے لوگوں نے اس بات کو نقل کرنے میں غلطی کی ہو ، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس موضوع پر اپنے استاذ علامہ سید انور شاہ کشمیری کے زیر نگرانی ایک مستقل رسالہ ’التصریح فی ما تواتر بنزول المسیح‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، اہل علم کے لئے اس رسالہ کا مطالعہ مفید ہوگا ۔
خود اس آیت میں تین پہلوؤں سے رسول اللہ ﷺ پر سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے کو واضح کیا گیا ہے ، ایک تو خاتم کا لفظ ، جس کا اوپر ذکر آیا ، دوسرے : النبیین ، کہ آپ ﷺ نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں ، نبی کا لفظ بمقابلہ رسول کے عام ہے ، رسول ایسے نبی کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت بھی دی گئی ہو ، تو آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر اس طرف اشارہ فرمادیا گیا کہ اب آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی صاحب شریعت نبی آسکتا ہے نہ کوئی عام نبی ، تیسرے : اللہ تعالیٰ کی یہ عام سنت رہی ہے کہ پیغمبر کے بیٹوں ہی میں سے آئندہ کسی کو پیغمبر بنایا جاتا تھا ، جیسے حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیل و اسحاق کو نبی بنایا گیا ، حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب کو ، حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف کو ، حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان کو اور حضرت زکریا کے بیٹے یحییٰ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا ، تو اگر آپ ﷺ کو کوئی مرد اولاد ہوتی تو یہ گمان ہوسکتا تھا کہ وہ بھی نبوت سے نوازے گئے ہوں گے، اس لئے آپ ﷺ کو کوئی مرد اولاد عطا نہیں فرمائی گئی ؛ اس لئے اس بات پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبوت کا دعویدار ہو ، خواہ کسی بھی قسم کی نبوت ہو ، تو وہ مرتد ، زندیق اور کافر ہے اور اس کو نبی ماننا بھی کفر ہے ، مرزا غلام احمد قادیانی یا ایران میں دعویٰ نبوت کرنے والا ، بہاء ، یا دکن میں صدیق دیندار ، سب اسی حکم میں ہیں ، اسی طرح جو لوگ سید محمد جونپوری کو کہتے تو ہیں امام مہدی ؛ لیکن عملاً ان کو نبی کا درجہ دیتے ہیں ، ان کی بیوی کو ’’ اُم المومنین ‘‘ کہتے ہیں ، ان کے ساتھیوں کو ’ صحابی ‘ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام مہدی پر معانی قرآن نازل کیا گیا ہے ، وہ بھی دائرۂ ایمان سے باہر ہی ہیں ۔
ختم نبوت کی بہترین تمثیل زبان نبوی سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم رسالت اور اپنے خاتم النبیین ہونے کو ایک بہترین مثال سے سمجھایا ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، میری مثال اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی ، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے ارد گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار مسرت کرتے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں چھوڑ دی گئی ،کیوں نہ رکھی گئی تھی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ،،
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال اس لیے بیان کی تاکہ لوگ ختم نبوت کے مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکیں ، اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں اور یہ بات آپ کے لیے باعث شرف و فضیلت ہے ،، (امت محمدیہ امتیازات و خصوصیات ص، 93)
اوپر ابتدائے مضمون میں ذکر کردہ آیات قرآنی اور مذکورہ حدیث سے بالکل یہ بات واضح اور واشگاف ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے راہ نما بنا کر بھیجے گئے ،رسالت و نبوت کا سلسلہ آپ پر تمام ہوگیا ،آپ کے ذریعہ اس دنیا میں اللہ کا آخری دین مکمل شکل میں آچکا ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہے، آپ عالمگیر پیغمبر کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں ،اب کسی نئی شریعت یا جدید راہ نما کو بحیثیت رسول اور نبی نہیں بھیجا جائے گا ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ ہر رسول نبی لازما ہوتا ہے ،لیکن ہر نبی کا رسول ہونا لازمی نہیں ، اس وجہ سے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو خاتم الرسل بدرجہ اولیٰ ہوئے ، بعض گمراہ فرقوں نے یہ شوشہ جو نکالا ہے کہ قرآن مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بتایا گیا ہے، خاتم الرسل نہیں کہا گیا ہے ،اس وجہ سے سلسلہ رسالت کے اجراء کی نفی نہیں ہوئی، یہ محض ان کی جہالت ہے ۔ اسی طرح ظلی اور بروزی نبی ہونے کی بھی نفی کی گئی ہے ۔
ایک غلط فہمی اور اعتراض کا ازالہ
بعض کم فہم اور ناداں لوگ
یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ آخری نبی ہیں تو یہ آپ کی منقبت اور تعریف و تحسین نہیں ، بلکہ نقص اور کمی ہے ،کیوں کہ اس صورت میں آپ کی ذات اس رحمت کے لیے سد باب ہوگی جو نبوت و رسالت کے نام جاری تھی ۔ در اصل اس نادانی اور کج فہمی کے پیچھے ایک غیر اسلامی فکر کار فرما ہے ،جس کا مقصد یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو عقیدہ کی گمراہی میں مبتلا کر دیا جائے ۔
یاد رہے کہ نبی کی بعثت چار حالتوں میں ہوتی ہے ،اول یہ کہ اس قوم میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا، اور کسی دوسرے قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکا تھا ۔ دوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو یا اس میں تحریف ہوگئی ہو اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو ۔ سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔ چہارم یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے اور نبی کی حاجت ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
،،مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے بے نیاز کردیا ہے ،وہ نہ کسی نبی محتاج ہیں اور نہ ان کو کسی جدید شریعت کی ضرورت ہے ،وہ تمام فضائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دئے گئے ہیں ،جو دوسرے انبیاء میں متفرق تھے، (رسالہ الفرقان ، 56)
علامہ ابن قیم رح کی اس وضاحت اور ماقبل کی تحریروں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب نئے نبی کی کوئی حاجت نہیں رہی ، اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی ضرورت ہے اور ختم نبوت امت مسلمہ کے لیے ایک بڑی رحمت ہے ،اسی عقیدہ کی بنیاد پر مسلمان ایک عالم گیر برادری اور اجتماعی زندگی کا تصور رکھتے ہیں ، گویا عقیدئہ ختم نبوت سے تفریق کی بنیاد منہدم ہوگئی اور امت مسلمہ ایک وحدت سے مربوط ہوگئی ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ختم نبوت یہ بہت نازک مسئلہ ہے اور اگر امت معمولی طور پر بھی اس مسئلہ میں کوتاہی کا شکار ہوئی تو ان کا مذہبی وجود برقرار نہیں رہے گا ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر نئی نبوت کے تصور کو ایک فتنہ اور منکرین ختم نبوت کو حلقئہ اسلام سے خارج قرار دیا، اس طرح جن لوگوں نے خدا کے دین میں نقب لگانے کی کوشیش کیں،اور امت مسلمہ کے شیرازہ کو بکھیرنا چاہا ،اسے روک دیا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ،، میری امت میں تیس کذاب ہوں گے ،جن میں ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا ،حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔( ابو داؤد کتاب الفتن)
صحابئہ کرام ختم نبوت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم ترین خصوصیت سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ میسلمہ کذاب جو حضور کی نبوت کا منکر تھا ،بلکہ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں شریک ہے ، صحابئہ کرام نے اس کے خلاف جنگ کی اور اس فتنہ کو ختم کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھا ۔( سیرت ابن ہشام)
ختم نبوت سے متعلق ائمہ فقہ و عقائد کے اقوال
ائمہ لغت و ائمہ تفسیر نے لفظ ’خاتم النبیین‘ کا جو معنی و مفہوم مراد لیا ہے وہ پیش کرنے کے بعد اب ہم اختصار کے ساتھ اَئمہ فقہ کا موقف پیش کریں گے تاکہ یہ چیز اظہر من الشمس ہو جائے کہ خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں، آپ ﷺ نے تشریف لا کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ اس معنی پر تمام امت کا اتفاق و اجماع ہے بلکہ امت کا یہ بھی اجتماعی فیصلہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کفر و ارتداد اور کذب و افتراء ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ م 150ھ
امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک تو مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر ہے۔ اس حوالے سے آپ کا موقف یہ ہے:
وَتَنَبَّأَ رَجُلٌ فِي زَمَنِ أَبِيْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَهُ اللهُ وَقَالَ: أَمْھِلُوْنِيْ حَتّٰی أَجِیْئَ بِالْعَلَامَاتِ. وَقَالَ أَبُوْحَنِیْفَۃَ رَحِمَهُ اللهُ: مَنْ طَلَبَ مِنْهُ عَلَامَۃً فَقَدْ کَفَرَ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: لاَ نَبِيَّ بَعْدِي.
ذکرہ الکردري في مناقب الإمام الأعظم أبي حنیفۃ رضی اللہ عنہ ، باب 7: من طلب علامۃ من المتنبی فقد کفر، 1: 161
امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو تاکہ اپنی نبوت پر دلائل پیش کروں، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا (جو شخص حضور ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ بھی کافر ہے اور) جو اس سے دلیل طلب کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
امام محمد شہاب الکردری م 287ھ
محمد شہاب الکردری فرماتے ہیں:
وَأَمَّا الْإِیْمَانُ بِسَیِّدِنَا عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَیَجِبُ بِأَنَّهُ رَسُوْلُنَا فِي الْحَالِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ وَالرُّسُلِ فَإِذَا آمَنَ بِأَنَّهُ رَسُوْلٌ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِأَنَّهُ خَاتَمُ الرُّسُلِ لَا یَنْسَخْ دِیْنُهُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا یَکُوْنُ مُؤْمِنًا وَعِیْسٰی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ یَنْزِلُ إِلَی النَّاسِ یَدْعُوْ إِلٰی شَرِیْعَتِهٖ وَھُوَ سَائِقٌ لِأُمَّتِهٖ إِلٰی دِیْنِهٖ.
ذکرہ الکردري في الفتاویٰ البزازیۃ، الجزء الثالث، کتاب السیر، بھامش الفتاوی الھندیۃ، 6: 327
حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانا یہ واجب کرتا ہے کہ (ہم اعتقاد رکھیں) آپ ﷺ آج بھی ہمارے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء و رسل کو ختم فرمانے والے ہیں اگر کوئی شخص یہ ایمان رکھے کہ آپ ﷺ الله کے رسول ہیں مگر یہ ایمان نہ رکھے کہ آپ ﷺ آخری رسول ہیں (اسی طرح اگر کوئی شخص یہ اعتقاد بھی نہ رکھے کہ) تاقیامت آپ ﷺ کا دین منسوخ نہیں ہو گا تو وہ مومن نہیں (ہمارا یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کی طرف نازل ہوں گے اور انہیں شریعت محمدی ﷺ کی طرف بلائیں گے اور وہ آپ ﷺ کی اُمت کو آپ ﷺ کے دین (پر عمل پیرا ہونے) کی رغبت دلائیں گے۔
امام ابو جعفرالطحاوی م 321ھ
امام ابوجعفر الطحاوی اپنی کتاب ’العقیدۃ السلفیۃ‘ میں امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کے عقائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَکُلُّ دَعْوَی النُّبُوَّۃِ بَعْدَهُ علیہ السلام فَغَيٌّ وَھَوٰی.
الطحاوي في العقیدۃ السلفیۃ: 17
حضور ﷺ کے بعد ہر قسم کا دعویٰ نبوت گم راہی اور خواہش نفس کی پیروی ہے۔
امام ابن حزم اندلسی م 456ھ
علامہ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں:
وَکَذَلِکَ مَنْ قَالَ … إِنَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ نَبِیًّا غَیْرُ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ فَإِنَّهُ لَا یَخْتَلِفُ اثْنَانِ فِيْ تَکْفِیْرِهٖ.
ابن حزم في الفصل في الملل والأھواء والنحل، 3: 249
اسی طرح جو یہ کہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعدحضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سوا بھی کوئی نبی ہے تو ایسے شخص کو کافر قرار دینے میں دو مسلمانوں میں بھی اختلاف نہیں ہے (یعنی یہ امت کا متفقہ اور اجتماعی اور اجماعی موقف ہے)۔
دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:
وَأَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مُذْ مَاتَ النَّبِيُّ ﷺ بُرْھَانُ ذٰلِکَ أَنَّ الْوَحْيَ لَا یَکُوْنُ إِلَّا إِلٰی نَبِيٍّ وَقَدْ قَالَ تعالیٰ: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ}.
ابن حزم في المحلی، مسائل التوحید، مسئلۃ: 44، 1: 26
بیشک حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد نزول وحی منقطع ہو گیا اس کی دلیل یہ ہے کہ وحی کا نزول صرف نبی پر ہوتا ہے اور جیسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر الله کے رسول اور خاتم النبیین ہیں یعنی جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔
ایک اور جگہ علامہ اندلسی فرماتے ہیں:
وَأَنَّهُ علیہ السلام خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ بُرْھَانُ ذَلِکَ: قَوْلُ اللهِ تَعَالٰی: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ}.
ابن حزم في المحلی، 1: 9
بیشک نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ دلیل اس کی فرمان باری تعالیٰ ہے: ’محمد ( ﷺ ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں‘۔
امام نجم الدین عمر نسفی م 537ھ
امام نجم الدین عمر نسفی فرماتے ہیں:
وَأَوَّلُ الْأَنْبِیَاءِ آدَمُ وَآخِرُھُمْ مُحَمَّدٌ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ.
العقیدۃ النسفیۃ، بیان في إرسال الرسل: 28
انبیاء میں سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد ﷺ.
علامہ سعد الدین تفتازانی م 791ھ
علامہ سعد الدین تفتازانی العقائد النسفیۃ کی عبارت کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَقَدْ دَلَّ کَلَامُهُ وَکَلَامُ اللهِ الْمُنَزَّلُ عَلَیْہِ أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَأَنَّهُ مَبْعُوْثٌ إِلٰی کَافَّۃِ النَّاسِ بَلْ إِلَی الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ثَبَتَ أَنَّهُ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ.
تفتازاني في شرح العقائد النسفیۃ، بیان في إرسال الرسل: 137
حضورنبی اکرم ﷺ کا کلام (حدیث مبارکہ) اور کلامِ الٰہی جو آپ ﷺ پر نازل ہوا (یعنی قرآن مجید) اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا ہے اور آپ ﷺ تمام کائنات انسانی بلکہ تمام جن و انس کی طرف (رسول بن کر) مبعوث ہوئے ہیں۔ (قرآن و حدیث) سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
علامہ تفتازانی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا پھر آپ ﷺ آخری نبی کیسے ہوئے؟‘ فرماتے ہیں:
لٰـکِنَّهُ یُتَابِعُ مُحَمَّدًا ﷺ ِلأَنَ شَرِیْعَتَهُ قَدْ نُسِخَتْ فَـلَا یَکُوْنُ إِلَیْہِ وَحْيٌ وَنَصْبُ الْأَحْکَامِ بَلْ یَکُوْنُ خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللهِ علیہ السلام.
تفتازاني في شرح العقائد النسفیہ، بیان في إرسال الرسل: 138
لیکن وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) حضرت محمد مصطفی ﷺ کی متابعت اور پیروی کریں گے کیونکہ ان کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے ان کی طرف نہ تو وحی ہوگی اور نہ ان کے ذمہ نئے احکامِ شریعت کو قائم کرنا ہو گا بلکہ آپ حضور ﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے آئیں گے۔
علامہ ابن ابی العز حنفی م 792ھ
علامہ صدر الدین محمد بن علاء الدین علی بن محمد ابن ابی العز حنفی (أو کل دعوی النبوۃ بعدہ فغی وہوی) کی شرح میں لکھتے ہیں:
لَمَّا ثَبَتَ أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ عُلِمَ أَنَّ مَنِ ادَّعَی بَعْدَهُ النُّبُوَّۃَ فَھُوَ کَاذِبٌ وَلَا یُقَالُ فَلَوْ جَائَ الْمُدَّعِيْ لِلنُّبُوَّۃِ بِالْمَعْجِزَاتِ الْخَارِقَۃِ وَالْبَرَاہِیْنِ الْصَّادِقَۃِ کَیْفَ یُقَالُ بِتَکْذِیْبِهٖ؟ لِأَنَّا نَقُوْلُ: هٰذَا لَا یُتَصَوَّرُ أَنْ یُوْجَدَ وَهُوَ مِنْ بَابِ فَرْضِ الْمُحَالِ لِأَنَّ اللهَ تَعَالٰی لَمَّا أَخْبَرَ أَنَّهُ یَدَّعِي النُّبُوَّۃَ وَلَا یَظْهَرُ أَمَارَۃُ کِذْبِهٖ فِي دَعْوَاهُ. وَالْغَيُّ ضِدُّ الرَّشَادِ وَالْهَوٰی عِبَارَۃٌ عَنْ شَهْوَۃِ النَّفْسِ أَيْ أَنَّ تِلْکَ الدَّعْوٰی بِسَبَبِ هَوَی النَّفْسِ لَا عَنْ دَلِیْلٍ فَتَکُوْنُ بَاطِلَۃً.
ابن أبي العز الحنفي في شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 166
جب یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت محمد ﷺ نبیوں (کے سلسلہ)کو ختم فرما دیا ہے تو معلوم ہوا کہ جو کوئی آپ ﷺ (کی بعثت) کے بعد نبوت کا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور ہرگز نہیں کہا جائے گا کہ اگر وہ خر قِ عادت معجزات اور سچے دلائل پیش کرتا ہے تو اسے کیونکر جھٹلایا جائے گا، کیونکہ ایسی شے کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ فرضِ محال ہے، کیونکہ جب باری تعالیٰ نے فرما دیا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں تو یہ محال ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت کے دعویٰ میں جھوٹ، گمراہی اور نفسانی خواہش کی علامت ظاہر نہ ہو۔ پس اس کا یہ دعویٰ محض اس کی نفسانی خواہش ہے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں سو یہ باطل ہوگا۔
امام شیخ زین الدین ابن نجیم م 970ھ
علامہ ابن نجیم حنفی کا ارشاد ہے:
إِذَا لَمْ یَعْرِفْ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ لِأَنَّهُ مِنَ الضَّرُوْرِیَّاتِ.
ابن نجیم في الأشباہ والنظائر، الفتن الثاني، کتاب السیر والردۃ، 1: 296
اگر کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ حضرت محمد ﷺ تمام انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں کیونکہ ٰختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔
شیخ زین الدین ابن نجیم دوسری جگہ فرماتے ہیں:
أَنَّهُ یَکْفُرُ بِهٖ … بَقَوْلِهٖ لَا أَعْلَمُ أَنَّ آدَمَ علیہ السلام نَبِيٌّ أَوْ لَا. وَلَوْ قَالَ: آمَنْتُ بِجَمِیْعِ الْأَنْبِیَاءِ علیهم السلام بِعَدَمِ مَعْرِفَۃِ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ.
ابن النجیم في البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، 5: 130
وہ شخص کفر کا مرتکب ہوگا جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آدم علیہ السلام نبی ہیں یا نہیں، اسی طرح اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں تمام انبیاء پر ایمان رکھتا ہوں مگر اسے یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں تو بھی وہ کافر ہوگا۔
اختتامیہ
ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم اور غیر متنازعہ عقیدہ ہے، جس پر قرآنِ مجید، احادیثِ نبویہ، صحابۂ کرام، تابعین، ائمۂ مجتہدین اور تمام مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا مکمل اجماع رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب (آیت 40) میں حضور نبی کریم ﷺ کو "خاتم النبیین” فرما کر ہر قسم کی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ نبی اکرم ﷺ کی بے شمار احادیث بھی اسی حقیقت کی وضاحت کرتی ہیں، جن میں آپ ﷺ نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
فقہائے اسلام نے منکرِ ختمِ نبوت کو دینِ اسلام سے خارج، مرتد اور واجب القتل قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر جلیل القدر ائمہ نے اس مسئلے پر جو مؤقف اختیار کیا ہے، وہ نہایت واضح، متفق علیہ اور دو ٹوک ہے۔ ان کے نزدیک ختمِ نبوت کا انکار صرف ایک علمی یا فکری گمراہی نہیں، بلکہ ارتداد ہے جو امتِ مسلمہ کی دینی و اجتماعی سلامتی کے لیے سخت خطرہ ہے۔
یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ امت مسلمہ کا عقیدہ ختم نبوت پر ایمان، محض ایک تاریخی یا فکری وابستگی نہیں، بلکہ اس کا تعلق دین کی اصل بنیادوں سے ہے۔ اسی عقیدہ کی حفاظت کے لیے تاریخِ اسلام میں قربانیاں دی گئیں، اور علماء و عوام نے جان و مال کی بازی لگائی۔ موجودہ دور میں اس عقیدے کو چیلنج کرنے والی گمراہ فرقوں کی فتنہ انگیزی کے خلاف بیداری اور علمی استقامت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ نہ صرف خود عقیدہ ختم نبوت پر کامل یقین رکھیں، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی اس کی صحیح تعلیم دیں، گمراہ کن نظریات سے آگاہ کریں، اور اس عقیدے کی حفاظت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں۔ اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ منکرین ختم نبوت کے خلاف شرعی و فقہی موقف بالکل قطعی، غیر مبہم اور سخت ہے، اور امت کے تمام طبقات اس بارے میں ایک ہی موقف پر ہیں۔
خطاب جمعہ : سلسلہ وار
✍ منجانب: مکتب الصفه اچلپور کے مختلف شعبوں میں سے ایک شعبہ (خطیب حضرات کا معاون: خطاب جمعہ ) اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےتشکیل دیا گیا تھا۔ الحمداللہ ادارہ اب تک مکمل 96 خطاب ارسال کر چکا ہے. ہر ہفتے سلسلہ وار خطاب جمعہ حاصل کرنے کے لیے مذکورہ گروپ سے جڑیں اور علماء کرام و خطیب حضرات کو بھی اس گروپ سے جڑنے کی دعوت دیں ۔
📌 نوٹ : (اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ ائمہ حضرات تک پہنچانے کی کوشش کریں، یہ نیکی اور خیر کے کاموں میں تعاون ہوگا۔ )
ٹیلی گرام چینل میں شامل ہونے کے لئے اس لنک کا استعمال کریں
https://t.me/MSuffah
آن لائن مطالعہ کرنے کے لیے اس لنک پر جائیں
https://msuffah.com/khitabe-jumah/