امت محمدیہ ﷺ کی خصوصیات (پہلی قسط)
حضرت مولانا محمد قمر الزماں صاحب ندوی
پہلی خصوصیت- احکام شرعیہ میں نرمی و سہولت
اللہ تعالی نے اس امت کو خیرِ امت بنایا اور بہت سی ایسی خصوصیات سے نوازا جن سے دوسری امتیں محروم رہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے جن پاکیزہ صفات اور اوصاف کو قرآن مجید میں بیان کیا، ان میں ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کے لئے پاکیزہ اور پسندیدہ چیزوں کو حلال بتائیں گے اور گندی اور خبیث چیزوں کے حرام ہونے کو ظاہر کریں گے تو ویحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث(الاعراف: ۱۵۷) ( اور آپ پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں)۔
اس آیتِ قرآنی سے مراد یہ ہے کہ بہت سی پاکیزہ، نفیس اور پسندیدہ چیزیں جو بنی اسرائیل پر بطور سزا کے حرام کر دی گئی تھیں ، آپ ﷺ ان کی حرمت کو (اس امت کی آسانی کے لئے اللہ کے حکم سے ) ختم کر دیں گے ۔ مثال کے طور پر حلال جانوروں کی چربی جو بنی اسرائیل کی سرکشی کی سزا میں ان پر حرام کر دی گئی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حلال وجائز ہونے کا اعلان فرمائیں گے۔
مذکورہ آیت میں ہی آگے یہ صفت بھی بیان کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے (امت محمدیہ سے ) ان پر مسلط کردہ بوجھ اور قید کو ہٹا دیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ سخت احکام اور دشوار گزار امور جو اصل دین میں مقصود نہ تھے؛ بلکہ بنی اسرائیل پر بطورِ سزا کے لازم کر دئے گئے تھے ، دور کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اوصاف کو ذیل کی آیت میں بیان فرمایا ہے: ” ويحل لهم الطبيات ويحرم عليهم الخبائث ويضع عنهم إصرهم والأغلال التي كانت عليهم ” (الاعراف: ۱۵۷) ( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں، اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اتارتے ہیں جو ان پر اب تک رہی ہیں )
آگے ہم تفصیل سے قرآن وسنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں وہ سارے سخت اور مشکل و دشوار احکام جو بنی اسرائیل پر بطور سزا لازم کر دیئے گئے تھے، بیان کریں گے اور پھر اس امت کو جو آسانی اور سہولت دی گئی اس کا بھی تذکرہ کریں گے؛ کیونکہ چیزیں اپنے متضاد سے ہی پہچانی جاتی ہیں، جیسا کہ مشہور قول ہے ” الأشياء تعرف بأضدادها
(1) پانی سے پاکی حاصل کرنا
سابقہ امتوں اور پہلی شریعتوں میں صرف پانی ہی سے پاکی حاصل کی جاسکتی تھی ، دوسری چیزوں سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی تھی۔ اگر پانی نہیں ملا تو وہ نماز نہیں ادا کرتے ، یہاں تک کہ پانی سے طہارت حاصل کرنے کے بعد فوت شدہ نمازوں کو ادا کرتے۔
اس امت کے لئے اللہ تعالی نے یہ رخصت دی کہ پانی نہ رہنے کی صورت میں پاک مٹی سے بھی پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، اور اس پاکی سے نماز ادا کی جاسکتی ہے، جس کو شریعت کی اصطلاح میں تیمم کہا جاتا ہے، تیمم یہ ہے کہ سطح زمین پر یامٹی پر یا پتھر یا ریت جیسی کسی چیز پر طہارت کی نیت سے ہاتھ مار کر وہ ہاتھ چہرے اور ہاتھوں پر پھیر لئے جائیں ، اس طرح بس ہاتھ پھیر لینے سے تیمم ہو جاتا ہے۔ مٹی وغیرہ کا چہرہ یا ہا تھوں پر لگنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ مٹی وغیرہ چہرہ اور ہاتھوں پر نہ لگے۔
قرآن مجید میں تیمم کی مشروعیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”اور اگر تم بیمار ہو( اور پانی کا استعمال مضر ہو ) یا تم سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجے سے آیا ہو یا تم نے بیویوں سے قربت کی ہو اور تم کو پانی نہ ملے۔ تو تم پاک زمین سے تمیم کر لیا کرو (یعنی اس زمین پر دو ہاتھ مار کر) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو، اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے“۔(۱) (سورہ نساء:۴۳)۔
یہی مضمون لفظوں کے بہت خفیف فرق کے ساتھ سورۂ مائدہ کے دوسرے رکوع میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے، اور بعض راویوں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آیت نازل ہوئی تھی ، لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ سورہ نساء والی آیت پہلے نازل ہوئی اور سورۂ مائدہ والی بعد میں ۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔
تیمم کی مشروعیت کے سلسلے میں متعدد احادیث رسول وارد ہوئی ہیں جو صحاح ستہ کی کتابوں میں موجود ہیں، تفصیلات احادیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں، الغرض تیمم کا حکم ایک انعام ہے، جو امت کی خصوصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ وضو وطہارت کے لئے ایسی چیز کو پانی کا قائم مقام کر دیا جو پانی سے زیادہ سہل الحصول ہے، ظاہر ہے کہ زمین اور مٹی ہر جگہ موجود ہے،حدیث میں ہے کہ یہ سہولت صرف امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے ۔(معارف الحدیث)
(2) عبادت گاہ ہی میں نماز کی ادائیگی
امم سابقہ کو مکلف بنایا گیا تھا کہ وہ اپنی عبادتیں صرف اپنی عبادت گاہوں میں ہی ادا کر سکتے ہیں ۔ اگر عبادت کے اوقات میں اپنی عبادت گاہوں سے باہر ہوتے تو دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے کی ان کو اجازت نہ تھی، بلکہ حکم تھا کہ قضا عبادتیں بھی گِرجا گھر میں ادا کرنی ہونگی۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے پوری روئے زمین کی پاک جگہ پر نماز کی اجازت دے دی ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے "أعطيت خمساً لم يعطهن احد قبلى …… وجعلت لى الأرض مسجداً وطهوراً "الخ ( بخاری:۳۳۵) ” تمام روئے زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور ذریعہ طہارت بنادی گئی۔
(3) مال غنیمت کی حرمت
بنی اسرائیل میں مال غنیمت کے سلسلے میں شرعی حکم یہ تھا کہ جب کسی دشمن پر فتح اور کامیابی ہوتی اور مال غنیمت حاصل ہوتا تو اس میں تصرف کرنا جائز نہیں تھا؛ بلکہ آسمان سے ایک آگ آتی اور اس کو جلا دیتی ، اسی کو غزوہ اور لڑائی کی قبولیت کی علامت سمجھا جاتا۔ سورہ آل عمران کی آیت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے الذین قالو إن الله عهد إلينا ألا نؤمن لرسول حتى يأتينا بقربان تأكله النار…. (ال عمران:۱۸٣ (یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے۔ تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے) کہا ہے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو ؟ ) ۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل (یہودیوں) کا ایک افتراء و بہتان ( جھوٹ ) ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کے لئے یہ حیلہ پیش کیا کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے زمانوں میں یہ طریقہ تھا کہ صدقات کے مال کسی میدان یا پہاڑ پر رکھ دیئے جاتے تھے اور آسمانی آگ آکر ان کو جلا دیتی تھی ، یہی صدقات کی قبولیت کی علامت ہوتی تھی، رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کو حق تعالیٰ نے یہ خاص امتیاز عطا فرمایا کہ اموال صدقات آگ کی نذر کرنے کے بجائے مسلمان فقیروں و محتاجوں کو دیے جاتے ہیں۔ چونکہ پچھلے انبیاء کے طرز مذکور کے خلاف یہ طرز تھا، اس لئے اس کو مشرکین نے بہانہ بنایا کہ اگر آپ نبی ہوتے تو آپ کو بھی یہ معجزہ عطا ہوتا کہ آسمانی آگ اموال صدقات کو کھا جاتی ، اس پر مزید یہ جرات کی کہ اللہ تعالیٰ پر یہ بہتان باندھا کہ اس نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم اس شخص پر ایمان نہ لائیں جس سے آگ کے آنے اور مال صدقہ کو جلانے کا معجزہ آسمانی صادر نہ ہو۔ چونکہ یہود کا یہ دعوی بالکل بے دلیل اور باطل تھا کہ اللہ نے ان سے یہ عہد لیا ہے، اس کا جواب دینے کی تو ضرورت نہ تھی ، ان کو ان ہی کے مسلمہ قول سے مغلوب کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے ایسا عہد لیا ہے، تو پھر جن انبیاء سابقین نے ہمارے کہنے کے مطابق یہ معجزہ بھی دکھلایا تھا کہ آسمانی آگ صدقہ کے مال کو کھا گئی تو تم ان پر تو ایمان لاتے مگر ہوا یہ کہ تم نے ان کی بھی تکذیب ہی کی تھی؛ بلکہ ان کو قتل تک کر ڈالا تھا۔ یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اگر چہ یہود کا یہ مطالبہ اور دعویٰ قطعاً غلط تھا ، لیکن آنحضرت ﷺکے ہاتھ پر یہ معجزہ بھی ہو جاتا تو شاید یہ ایمان لے آتے ؛ کیونکہ اللہ تعالی کے علم میں تھا کہ یہ لوگ محض عناد اور ہٹ دھرمی سے یہ باتیں کہہ رہے ہیں ، اگر ان کے کہنے کے مطابق معجزہ دکھا بھی دیا جاتا، تب بھی یہ ایمان نہ لاتے۔
الغرض اللہ تعالیٰ نے ( جو حکیم اور خبیر ہے ) اس نے اس امت کے لئے مال غنیمت کو حلال اور پاکیزہ کر دیا، جیسا کہ قرآن اعلان کرتا ہے) فكلوا مما غنمتم حلالا طيباً ) ( کھاؤ جو تم کو غنیمت میں ملا حلال ستھرا)۔ (سورہ انفال: ۶۹)۔
صحیح بخاری ومسلم ( صحيح البخاري : كتاب الصلاة / باب قول النبي له جعلت في الارض مسجد و طهورا . صحيح مسلم : المساجد و مواضع الصلاة :۵۴۱) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا: "مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کفار سے حاصل ہونے والا مال غنیمت کسی کے لئے حلال نہیں تھا، مگر میری امت کے لئے حلال کر دیا گیا۔ مال غنیمت کی حلت کا با قاعدہ حکم شرعی غزوہ بدر کے موقع پر دیا گیا۔
(۴) بنی اسرائیل پر بعض پاکیزہ چیزوں کی حرمت
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر ان کی شرارتوں اور حیلہ بازیوں کی بنا پر بہت سی پاکیزہ اور حلال غذاؤں کو حرام کر دیا تھا، جن کی کچھ تفصیل درج ہے–
(الف) ہر ناخن والے جانور جن کے ناخن پھٹے ہوئے نہ ہوں ، جیسے اونٹ ،شتر مرغ اور بلخ وغیرہ، یہ سب ان پر حرام کر دئے گئے تھے–
(ب) وہ چربی بھی حرام کر دی گئی تھی جو خالص چربی کے ٹکڑے گائے بکری میں ہوتے ہیں ، اور جو انتہائی لذید بھی ہوتے ہیں۔ سوره انعام آیت ۱۴۶ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمُنَاكُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْمَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنَهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصْدِقُون
( اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا ہر ناخن والا جانور اور گائے اور بکری کی چربی ان پر حرام کی مگر جو اُن کی پیٹھ میں لگی ہو یا آنت میں یا ہڈی سے ملی ہو ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیا اور بے شک ہم ضرور سچے ہیں)
مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شریعت محمدی اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پرمبنی ہے۔
(1) ایک یہ کہ نزول تورات سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)
نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی حتی کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت توراۃ میں لکھ لی۔ ان اشیاء میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں ۔ آج بائبل میں توراۃکے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے، لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو پہنچ دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے؛ کیونکہ اگر اس وقت توراہ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔
(2)دوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور اپنے آپ شارع بن بیٹھے، تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط نہی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور ہیں، یعنی شتر مرغ ، قاز ، بطخ ، وغیرہ، دوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام تورات میں داخل کر دیا گیا ہے، لیکن سورہ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں ، بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد حرام ہوئی ہیں۔ اس لئے بہت سے مفسرین اس بات کی تائید میں یہ کہتے ہیں کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دوسری صدی عیسوی کے آخر میں رہی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے اور تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حرمنا رہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کر دے؛ بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعین اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں، پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے۔ (ملخص تفہیم القرآن ، جلد اول)
نوٹ : باقی بات ان شاءالله آئندہ جمعہ کو کی جائے گی ۔