حضرت مولانا محمد قمر الزماں ندوی صاحب
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اگر اجتماعی ذہن نہ ہو تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا، کسی کو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے، سب اپنے اپنے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہماری اولاد پڑھ جائے، اور جلدی سے کام سے لگ جائے، اور جلدی سے بڑی آسامی(نوکری عہدہ)اس کو مل جائے، اس کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے، یہ بہت خطرناک ذہنیت ہے، اس ذہنیت نے قوموں کے چراغ گل کر دیئے ہیں، جہاں یہ ذہنیت طاری ہوئی، وہاں کوئی سر پٹک کر رہ جائے کوئی بڑے سے بڑا مصلح اپنی پوری زندگی صرف کر دے کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ ذہنیت ہمارے ملک میں پیدا ہو رہی ہے اور موجود ہے، کسی کو کسی سے کوئی مطلب نہیں رہا ، بس اپنا مفاد دیکھنا، اپنی خوشحالی کی، اپنے گھر کی، کاروبار کی، ترقی اور کامیابی کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں، ساری دقت اس وجہ سے پیش آرہی ہے کہ ذہن اجتماعی اور ملی نہیں ہے، بلکہ ذہن انفرادی ہے، ذہن بالکل شخصی ہے، ایک تو اس کی اصلاح ہونی چاہئے کہ ملت کے مسائل اور دین کے تقاضوں کا درد آپ اپنے دل میں پیدا کریں۔ اگر یہ نہیں ہے تو پھر بہت بڑا خطرہ ہے، نہ کوئی انجمن کچھ کر سکتی ہے نہ کوئی ادارہ کچھ کر سکتا ہے اور نہ کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ مصنف اور واعظ اور مقرر کچھ کر سکتا ہے۔ خدا کرے آپ اتنی بات سے آگے کی بات سمجھ گئے ہوں "۔
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے یہ مختصر جملے اور مختصر سی گفتگو، اور تقریر آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ۔ اس مختصر سی گفتگو میں حضرت مولانا نے ملت کی کمزوری اور ملت کی پستی اور تنزلی کے اسباب و عوامل کو بیان کردیا ہے ۔ مولانا نے اس حقیقت کو واشگاف کیا ہے کہ جب تک ملت کے لوگوں کا ذہن ملی، اجتماعی اور تعمیری ذہن نہیں بنے گا ، لوگوں کی فکر اور سوچ مثبت نہیں ہوگی ،تب تک یہ ملت سرخ نہیں ہوگی، اس کا نصیبہ نہیں بدلے گا اور نہ ہی مقرر کی تقریر ،واعظ کا وعظ اور محرر کی تحریر سے ملت کا کایہ اور ملت کی تقدیر بدل سکے گی ۔۔۔
حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رح فرمایا کرتے تھے صرف اپنے لیے سوچنا، اپنے لیے جینا، اپنے مفاد کو مد نظر رکھنا، اپنے مفاد کو ترجیح دینا،اپنی فکر کرنا اور صرف اپنے لوگوں کے بارے میں فکر کرنا ،باقی دنیا سے کوئی مطلب اور تعلق نا رکھنا ایک جانور کا طریقہ اور شیوہ تو ہوسکتا ہے ، کسی انسان کا یہ طریقہ اور شیوہ نہیں ہوسکتا ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ یہ دور اور زمانہ خود غرضی اور مفاد پرستی کا دور اور زمانہ ہے ، اکٹر لوگ اپنے مفاد کو ہی مقدم رکھتے ہیں، اسی کو ترجیح دیتے ہیں ،ملت کے مفاد سے اور اجتماعی اور ملی کاموں سےاس کو بہت کم دلچسپی رہ گئی ہے ، نوے فیصد لوگوں کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ وہ ذاتی مفاد کو ملت کے مفاد پر ترجیح دینے لگے ہیں،اجتماعیت سے، ملی کاموں سے ، تعمیری کاموں سے، تنظیمی کاموں سے، اس کو دلچسپی نہیں ہے۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملت کے کاموں میں ہر جگہ ہر گاؤں ہر محلہ اور ہر شہر میں رخنہ اور رکاوٹ ہے ، جو کام جہاں رکا ہے وہیں رکا ہوا ہے ۔ کہیں مسجد میں رکاوٹ ،کہیں مدرسہ میں رکاوٹ ، کہیں مکتب میں رکاوٹ ، کہیں قبرستان میں رکاوٹ، کہیں عیدگاہ میں رکاوٹ،کہیں تنظیمی کاموں میں رکاوٹ ، کہیں ملی کاموں میں رکاوٹ،کہیں ذاتی مفاد اور عہدے کی لالچ اور کنبہ پروری کی وجہ سے اقلیتی ادارے بند یا بند کے قریب ہیں ، جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے ،ملی ادارے اور اقلیتی ادارے بے فیض ہوگئے ہیں، جن اداروں کی ایک زمانے میں شہرت تھی، عروج تھا ، اقبال اور بلندی تھی اور اس کی طوطی بولتی تھی۔آج ان اداروں کا کیا حال ہے یہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔
ان اداروں کے زوال اور تعلیمی زبوں حالی کی وجہ سے قوم و ملت کی زبوں حالی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنا ذہن اجتماعی اور تعمیری بنائیں، مثبت سوچ کے حامل بنیں،ملت کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں ،خود غرضی،انا پرستی اور مفاد پرستی کے جراثیم کو اپنے اندر سے کھرچ کھرچ کر نکال دیں اور ملت کے درد کو اپنا درد سمجھیں، تبھی ہم کامیاب اور سرخ ہوسکتے ہیں ، ہدف اور منزل پاسکتے ہیں اپنے زوال کو عروج میں ادبار کو اقبال میں بدل سکتے ہیں ، تنزلی کو ترقی میں محول کرسکتے ہیں ۔ خدا کرے ہم سب کی سوچ اور ذہن اجتماعی اور ملی بن جائے اور ہم سب ملت کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے لگیں ۔آمین یا رب العالمین
📱App Maktabus Suffah 📱
📥 Download App 📥
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
مَکْتَبُ الصُّفَّهْ
مقصد : آنے والی نسل کے ایمان کا تحفظ
Maktabus Suffah Ⓡ
👇🔻👇🔻👇🔻👇
www.MSuffah.com
https://telegram.me/MSuffah
https://youtube.com/@msuffah
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ㅤ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ