اسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
سوال:-بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے چھوڑ رہے ہوتو اسکی ادائیگی کی صورت کیا ھونگی؟ کیا روزے کا فدیہ دے سکتے ہیں؟ اس تعلق سے مزید معلومات فراہم کیجے؟(حاجی الیاس قریشی منگرول پیر)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
حامداومصلیاامابعد:
اگر بیماری کی وجہ سے روزے چھوٹ جائیں تو صحت کے بعد ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنا فرض ہے، فدیہ بدل نہیں ہوگا ۔
البتہ اگر ایسا بیمار ہو جس کی صحت کی کوئی امید نہ ہو اور آخر دم تک روزہ رکھنے کی طاقت لوٹنے سے بالکل مایوسی ہو تو فدیہ دینا ہوگا ۔
اور اگر بیماری سے صحتیابی ہوئی اور اتنی طاقت حاصل ہوگئی کہ روزہ رکھ سکے لیکن اس نے روزے قضا نہیں کیے یہاں تک کہ انتقال کا وقت آگیا تو اس پر چھوٹے ہوئے روزوں کے فدیہ کی وصیت کرنا لازم ہوگا کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ سے میرے فوت شدہ روزوں کا فدیہ ادا کردیا جائے ۔
ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے، اس وقت اس کی قیمت معلوم کرلی جائے۔
اور اگر صحت حاصل ہوکر قضاء کی مہلت نہ ملی یا اسی بیماری میں موت واقع ہوجائے تو نہ قضاء ہے اور نہ فدیہ کی وصیت لازم ہے بلکہ معاف ہے ۔
✍️ والدلیل علی ماقلنا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 423)
” (فإن ماتوا فيه) أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصية بالفدية) لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمداً فوجوبها عليه بالأولى، (وفدى) لزوماً (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت، فلو فاته عشرة أيام فقدر على خمسة فداها، فقط (بوصيته من الثلث) متعلق بفدى، وهذا لو له وارث، وإلا فمن الكل، قهستاني (وإن) لم يوص و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله، ويكون الثواب للولي، اختيار۔
(قوله: فإن ماتوا إلخ) ظاهر في رجوعه إلى جميع ما تقدم حتى الحامل والمرضع ، وقضية صنيع غيره من المتون اختصاص هذا الحكم بالمريض والمسافر. وقال في البحر: ولم أر من صرح بأن الحامل والمرضع كذلك، لكن يتناولهما عموم قوله في البدائع من شرائط القضاء القدرة على القضاء، فعلى هذا إذا زال الخوف أياماً لزمهما بقدره، بل ولا خصوصية فإن كل من أفطر بعذر ومات قبل زواله لا يلزمه شيء، فيدخل المكره والأقسام الثمانية. اهـ.ملخصاً من الرحمتي (قوله: أي في ذلك العذر) على تقدير مضاف أي في مدته (قوله: لعدم إدراكهم إلخ) أي فلم يلزمهم القضاء، ووجوب الوصية فرع لزوم القضاء وإنما تجب الوصية إذا كان له مال في شرح الملتقى، ط (قوله: بقدر إدراكهم إلخ) ينبغي أن يستثنى الأيام المنهية؛ لما سيأتي أن أداء الواجب لم يجز فيها، قهستاني. وقديقال: لا حاجة إلى الاستثناء؛ لأنه ليس بقادر فيها على القضاء شرعاً بل هو أعجز فيها من أيام السفر والمرض؛ لأنه لو صام فيها أجزأه، ولو صام في الأيام المنهية لم يجزه، رحمتي”۔
یعطي لکل صلاة نصف صاع من بُر کالفطرة وکذا حکم الوتر والصوم أي أو من دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل عندنا لإسراعہا لسد حاجة الفقیر (الدر مع الشامي ۲/۷۳، باب قضاء الفوائت)
فقط واللہ اعلم
عاجز محمد زکریا اچلپوری الحسینی
دارالافتاء المسائل الشرعیۃ الحنفیۃ
https://telegram.me/Almasailush_Shariyya
✔️ تائید و تصحیح
مفتی سعود مرشد صاحب بانکوی
مفتی امیر الدین صاحب حنفی دیوبندی
مفتی محمد زبیر صاحب بجنوری
مفتی مرغوب الرحمٰن صاحب قاسمی